رنجیت سنگھ اور اس کا نظام اور سرائیکی علاقے
ملتان کا قلعہ پورے پنجاب میں اپنی مضبوطی کے سبب مشہور تھا۔ اس کی فصیلیں کئی تہوں پہ مشتمل تھیں اور ہر دو تہوں کے بیچ، ریت بھری تھی۔ سکھ فوج اس قلعے پہ کئی بار حملہ آور ہو چکی تھی مگر کامیابی ہنوز خواب تھی۔
مہاراجہ کا مزاج ناکامیوں کا نہیں تھا سو اس نے از سر نو پچیس ہزار کا ایک نیا لشکر تیار کیا اور اسے 1818 میں ملتان کی سمت روانہ کیا۔ اس بار، فوج کے ساتھ دیوان مصر چند، سردار شام سنگھ اٹاری والہ، جعفر جنگ اور سردار دیسا سنگھ مجیٹھیا کے علاوہ ہری سنگھ نلوہ جیسے تجربہ کار جرنیل بھی شامل تھے۔
خالصہ فوج نے آتے ہی شہر کو محاصرے میں لے لیا۔ جب تین ماہ گزر گئے اور فتح کا کوئی امکان نظر نہ آیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے امرتسر سے اکالی طلب کئے اور نورنگ آباد کے براہم گیانی بابا بیر سنگھ سے ارداس سیکھ لئے۔
دوسری طرف نواب مظفر خان نے بھی زوروں سے جہاد کی تیاری شروع کر دی اور بہت سے غازیان کو اسلام کے نام پہ اکٹھا کیا۔ ایک دوسرے کی جان اور مال کی حرمت سکھانے والے دونوں مذاہب کو ان کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کی جان اور حرمت حلال قرار دینے کے لئے خوب استعمال کیا۔
جون 1818 میں خالصہ فوج نے ایک بار پھر پوری قوت سے شہر پہ حملہ کیا۔ زمزمہ اور جنگ بجلی جیسی توپیں، شہر پہ چھ دن آگ اور بارود برساتی رہیں حتیٰ کہ ملتان، سکھوں کے زیر نگیں آ گیا۔
جنگ کے بعد وہی لوٹ مار مچی جو ہر مفتوح شہر کا مقدر تھی۔ سکھ فوج نے خانقاہوں، عبادت گاہوں اور امراء کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہر پرانے شہر کی طرح ملتان بسنے سے پہلے ایک بار پھر اجڑ رہا تھا۔
”ملتان کا ایک حصہ جمنا اور ستلج کے درمیان کا سب سے بڑا علاقہ سکھ رئیسوں اور سرداروں کے قبضہ میں تھا‘ جن مسلمان ریاستوں نے نذرانے سے انکار کیا اور مقابلہ کیا ان کو بے ترتیب نیم وحشی اور فتح کے نشے میں سرشار فوجوں کے ہاتھوں سخت ذلت وعذاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ احمد خان رئیس جھنگ کی شکست کے بعد سکھوں نے شہر کولوٹ لیا اور تمام رعیت کو روٹی کے ٹکڑوں کا محتاج کردیا“۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۷۰)
سن رسیدہ نواب مظفر خان والئی ملتان اور اس کے جواں مرد بیٹوں کی بدست جنگ اور دلیرانہ شہادت کے بعد ملتان حملہ آوروں کے رحم وکرم پر تھا‘ چار پانچ سو مکانات پیو ند زمین ہوگئے‘ عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا‘ بہت سی عورتوں نے کنوؤں میں گر کر جان دی اور عزت بچائی ۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: محمد لطیف کی
THEHISTORY of THEPUNJABص:۴۱۲)
قصور میں سکھوں نے لوگوں کے بدن کے کپڑے تک اتارلئے ‘ عورتیں ننگے سر ‘ ننگے بدن‘ بے ستر ہوکر جابجا اپنے آپ کو چھپاتی پھرتی تھیں ‘ مگر کوئی امن کی جگہ نہیں ملتی تھیں‘ بہت سی جوان عورتیں اور لڑکیاں اور لڑکے سکھوں نے شہر سے پکڑ لئے اور غلام بنانے کے ارادے سے اپنے پاس رکھ لئے۔
(تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۸۲)
پنجاب میں سکھوں کے دورِ حکومت کو ”سکھا شاہی“ کہا جاتا ہے۔ اکثر مﺅرخین کی رائے میں اس دور کو ظالمانہ اور وحشیانہ قرار دیا جاتا ہے۔ سکھا شاہی آج بھی ہمارے ہاں ایک محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جس کا عموماً مطلب ظلم ، بربریت، لاقانونیت، دیدہ دلیری اور من مرضی لیا جاتا ہے،
سکھا شاہی میں معاملات کسی قانون اور ضابطے سے زیادہ ”ڈنگ ٹپاﺅ آئین“ کے تحت چلائے جاتے تھے۔ حکومت کی مضبوطی او رکمزوری کا دار و مدار فردِ واحد یعنی مہاراجہ کی کارکردگی اور قابلیت پر ہوتا تھا۔ رنجیت سنگھ بارہ سال کی عمر میں 1799ءکو سکھ سلطنت کا وارث بنا۔ اس کی ایک ہی آنکھ 1839ءمیں اس کے بند ہونے تک وہ حکمران رہا۔ اس کے بعد سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر یا۔
پنجاب پرسکھوں کا اقتدارتقریبا ایک صدی پر محیط ہے۔شروع کے چالیس پچاس سال سکھ ڈاکوئوں کی طرح لوٹ مار کرتے رہے اور ان کے مختلف گروہ چھوٹے چھوٹے علاقوں پرتسلط جما کر حکمران بنے رہے۔ 1799 سے پہلے ،جب رنجیت سنگھ نے لاہور فتح کیا، لاہور پر سکھوں کی بھنگی مثل کی حکومت تھی۔ لاہور کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لاہور کے شمالی علاقے پر شالامار باغ تک گوجر سنگھ کی حکومت تھی اور لاہور کا علاقہ قلعہ گوجر سنگھ اس کا مرکزی قلعہ تھا۔ موجودہ اندرون شہر کے علاقے کا حاکم لہنا سنگھ تھا۔ شہر کے جنوبی حصے کا حاکم سوبھا سنگھ تھا جس کا قلعہ چوبرجی کے قریب قلعہ نواں کوٹ تھا۔ رنجیت سنگھ نے گوجر سنگھ کے بیٹے صاحب سنگھ، لہنا سنگھ کے بیٹے چیت سنگھ اور سوبھا سنگھ کو شکست دے کر 1799 میں لاہور پر قبضہ کیا۔ پچاس ساٹھ سال حکومت کرنے کے بعد1839 میں سکر چکیہ مثل کے رنجیت سنگھ کی وفات کے دس سال بعد1849 سے سکھوں کے اقتدار کا پنجاب سے مکمل خاتمہ ہو گیا مگر وہ کلچر جو نصف صدی کے دوران پنجاب میں انہوں نے فروغ دیا وہ آج بھی زندہ اور تا بندہ ہے ۔ آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔ اس کلچر میں طاقت ہی قانون اور طاقت ہی انصاف تھی ۔ تلوار کی مدد سے ہر چیز سنی اور سنائی جا تی تھی ۔ اور فیصلہ بھی تلوار ہی سے لکھا اور پڑھا جا تا تھا ۔ عام آدمی چونکہ تلوار بردار نہیں ہو تا ۔ اس لیے کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہو تا تھا ۔
سکھا شاہی دور سے منسوب ایک واقعہ کے مطابق مہاراجہ گرمیوں میں شکار کیلئے گیا۔ زادِ راہ ختم ہوگیا۔ اوپر سے دن کے اورمہاراجہ کے ایک ساتھ بارہ بج گئے۔ بھوک اور پیاس سے بُرا حال تھا۔ ایک کنویں کے قریب سے گزرے تو ایک نوجوان سکھ کو درخت کے نیچے مٹی کے ڈھیلے پرسر رکھے سوتے پایا۔ اسے جگایا اور کچھ کھانے پینے کی فرمائش کی۔ وہ بھاگا بھاگا گیا کھیت سے 9دس کلو کا تربوز توڑ لایا، مہاراجہ نے تربوز کھایا اور اس کا پانی پیا، نوجوان کو شاباش دی اور اپنی راجدھانی کا رخ کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد اس علاقے کا ڈی سی فوت ہوا تو مہاراجہ نے حکم دیا کہ تربوز کھلانے والے نوجوان کو ڈی سی بنا دیاجائے۔ ایسا ہی ہوا۔ ڈی سی آفس کے ”کارے ہر کارے“ بڑے خوش کہ اب جو چاہیں گے کریں گے۔ پہلے دن دفتر لگایا۔ پولیس نے چار پانچ ملزم پیش کئے جن کے ہاتھ پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ تین چار کو ہتھکڑیاں لگا کر ان کی زنجیر پولیس والوں نے اپنی پیٹی سے باندھ رکھی تھی۔ اس موقع پر ملزموں کے سفارشی اور مخالف بھی موجود تھے۔ چودھریوں اور نمبرداروں کو ساتھ لائے تھے۔ ڈی سی کو بتایا گیا کہ یہ ملزم ہیں ان کو سزا دینی ہے۔ ڈی سی صاحب نے اپنی دانست میں سب کو مجرم سمجھ لیا اور گویا ہوئے ہتھ بندھوں کو ایک سال کمر بندھوں (پولیس والوں) کو دس سال قید۔ جو پیچھے کھڑے ہیں (ملزموں کے سفارشی اور مخالف) ان کو کاٹھ مار دو یعنی بیل گاڑی کے لکڑی کے بڑے پہیوں میں ان کے پاﺅں پھنسا کر مرنے کیلئے چوکوں میں پھینک دیا جائے۔ ایسا ہی ہوا یہ 20 پچیس بے گناہ لوگ چیخے چلاتے مر گئے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔