افسانہ نگار : محمد علیم اسماعیل
ان دنوں سوشل میڈیا پر افسانوں کی آئی باڑھ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا شاعری کی طرح صنف افسانے کو بھی نئی جہتوں سے روشناس کرانے میں ناکام رہا ہے۔ البتہ پورے وثوق سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس میڈیم نے خاص طور پر افسانہ لکھنے لکھانے کی رفتار کو گویا ایڑ لگا دی ہے۔اسی تیز رفتار تخلیقی روش نے سینکڑوں نئے اہالیانِ قلم کو ادبی حلقوں میں متعارف کروا دیا ہے۔ جن میں اکثر کا طائفہ ان کا ہے جو افسانے کے نام پر الم غلم لکھ کر خود ساختہ مشہور و مقبول، لیجنڈ اور صاحب طرز وغیرہ وغیرہ، افسانہ نگار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ ہما ہمی کے اس عہد میں معدودے چند نوجوان افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنھوں نے افسانے کے فن پر دل جمعی سے محنت کی اور خود کو اس بھیڑ سے الگ بھی ثابت کر دکھایا ہے۔مہاراشٹر کے شہر ناندورہ سے تعلق رکھنے والے علیم اسماعیل کا تعلق بھی اسی قبیل کے افسانہ نگاروں سے ہیں، جنھوں نے سوشل میڈیا کے اثر کو قبول تو کیا مگر ان کی تحریریں واضح طور پر اس میڈیم کے طرز اور فکر کا رد کرتی نظر آتی ہیں۔
علیم اسماعیل اردو سے نیٹ۔سیٹ کے امتحان کامیاب ہیں اور پیشے سے پرائمری سطح پر اردو کے مدرس ہیں، نیز اردو دنیا میں نوجوان افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ہر چند کہ انھوں نے افسانچوں میں بھی طبع آزمائی کی اور ادبی مضامین، تبصرے اور تجزیے بھی لکھے، لیکن ان کی شناخت افسانہ نگاری ہی سے قائم ہوئی ہے۔ انھوں نے ابھی پچھلے چار پانچ برسوں سے لکھنا شروع کیا، لیکن ان کی تحریروں کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو ان کا قلم عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔ آئے دن ان کی تحریریں اردو کے ادبی رسائل اور اخبارات میں نظر آتی ہیں۔
تین برس قبل ”الجھن“کے عنوان سے علیم اسماعیل کا پہلا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آیا تھا، جسے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوچکی ہے۔حالاں کہ مزید چار پانچ برس بعد بھی یہ مجموعہ شائع کیا جاتا تو قباحت نہیں تھی، البتہ قدر و معیار کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے۔اس کے بعد موصوف کا ایک اور افسانوی مجموعہ بہ نام ”رنجش“حال ہی منظر عام پر آیا ہے۔ اس دوسرے مجموعے کے حوالے سے مستحسن امر یہ ہے کہ ان کے یہاں رفتار کی کمی اور معیار میں مزید نکھار در آیا ہے۔
”رنجش“جیسا کہ ذکر کیا گیا علیم اسماعیل کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے، ہلکے اور گہرے نیلے رنگ کی آمیزشی کولاز سے سجے، امید اور یاس کی درمیانی کیفیت کی عکاسی کرتے سرورق کی یہ کتاب 120 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں کل 21 افسانے اور 5 افسانچے شامل ہیں۔ اگر افسانچوں اور افسانوں کے درمیان حد فاصل متعین کر دی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مجموعے میں کل کتنے افسانے اور افسانچے شامل ہیں۔ اس لیے کہ بعض افسانوں کی طوالت مجموعے کے افسانچوں کے اختصاری ہیئت سے قریب تر ہے۔
علیم اسماعیل نے پیش لفظ میں بڑی سنجیدگی سے اپنے تخلیقی محرکات پر روشنی ڈالی ہے، تاہم قطع نظر اس کے اپنے تجربات، مشاہدات، ادبی وابستگی اور تخلیقی کرب ناکی وغیرہ کا مفصل اظہار کرتے، موصوف نے آگے چل کر اس مضمون کا اختتام رسمی طور پر کر دیا ہے۔ بہ ہر کیف ان کی تخلیقی کاوشوں کو قارئین قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، یہی ان کی ادبی معراج ہے۔نیز ویسے بھی آج کا تخلیق کار اس سے زیادہ اور کیا گمان رکھ سکتا ہے۔
تقریظات کے طور محمد بشیر مالیر کو ٹلوی، نورالحسنین نے علیم اسماعیل کی فکر و فن کا اجمال بھر جائزہ لیا اور ان کے قلم کی تازکاری کا اعتراف کیا ہے۔علاوہ ازیں ان صاحبان نے واضح اشارہ دیا ہے کہ واقعتاً علیم اسماعیل کے افسانوں سے صرف نظر نہیں کی جا سکتی بلکہ ان کے اندر معانی و ابعاد کا جگمگاتا جہاں آباد ہے۔جس میں بے شمار افکار و نظریات کے کندن بکھرے پڑے ہیں، اور جو تلاش و جستجو کے متقاضی ہیں۔ ڈاکٹر صالحہ رشید اور ڈاکٹر قمر صدیقی نے فلیپ پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ان کے مطابق علیم اسماعیل کی تخلیقات نئے ادبی امکانات روشن کرتی ہیں۔ملاحظہ ہو ڈاکٹر قمر صدیقی کے اظہاریے سے یہ اقتباس:
”مہاراشٹر کے نوجوان افسانہ نگاروں میں علیم اسماعیل ایک نمایاں نام ہے۔ وہ فطری افسانہ نگار ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’الجھن‘ 2018میں شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ ان کے افسانوں میں معاصر زندگی کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔علاوہ ازیں موضوعات میں ندرت اور بیان میں قاری کو متوجہ کرنے والی اثر انگریزی بھی ہے۔“(فلیپ، ’رنجش‘)
علیم اسماعیل کی کہانیوں کے تار پود کا انسلاک اپنے اطراف و اکناف اور گوشہ و کنار ہی پر ہوتا ہے۔خاص کر کرداروں کے پیش کرنے میں انھوں بیش از بیش اپنے قریبی اشخاص کو ترجیح دی ہے۔ افسانہ ’چھٹی‘جو اس افسانوی مجموعے کا اولین افسانہ ہے، دراصل علیم اسماعیل کے بڑے بھائی کی ناگہانی موت کے سبب ان کی زندگی میں برپا ہوئے ایک بھونچال کی لفظی تصویر ہے۔جس میں انھوں نے ظاہراً مرکزی کردار کے بھائی کی رحلت اور اس کے بعد کے حزن و ملال کا جذباتی منظر کشید کیا ہے، مگر صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہی اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ افسانے میں پلاٹ کی تنظیم، کہانی کی فضا بندی اور جذبات سے پر لفظی برتاؤ سے پورا افسانہ سوگوار کیفیت کا مرقع بن گیا ہے۔ افسانے کی قرأت کرتے وقت لگتا ہے گویا لفظ لفظ سے آنسو مترشح ہیں۔اسی طرح ایک اور کردار کو انھوں نے اسی جذبات نگاری سے افسانہ ’قصور‘میں قائم کیا ہے۔اس افسانے میں مرکزی کردار کی زرا سی بے توجہی یا کسی بات کو غیر اہم سمجھنے کا خیال اور اس کے برعکس ایک مزدور بچے کے خلوص، احساس ذمہ داری اور نیاز مندی کو کیا ہی احسن طریقے سے افسانوی قالب میں ڈھالا ہے۔دراصل یہاں علیم اسماعیل نے انسانی فطرت کے چند پوشیدہ مگر اہم پہلوؤں کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔جس کی بنا پر یہ افسانہ آپ بیتی نہ بن کر سماجی مباحث کا ایک اہم نکتہ بن جاتا ہے۔ افسانہ ’مولوی صاحب‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی ایک طرح سے اپنے قریبی اور لائق احترام کردار کو پوری عقدیت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں مولوی صاحب کے کردار کی سماجی اہمیت اور وقار کا پہلو توجہ طلب ہے۔ اچھی تکنیک کا یہ افسانہ شریف النفس، حق پرست اور برگزیدہ اشخاص کو قبول نہ کرنے والے دیرینہ سماجی برتاؤ کا حقیقی اور لازوال بیانیہ ہے۔اس افسانے سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
”جو لوگ تمھارے مخالف تھے انھوں نے تمھیں مسجد سے اور گاؤں سے باہر نکالنے کی بہت کوششیں کیں لیکن ناکام رہے تھے۔ ایک روز تمھیں اپنے آبائی گاؤں جانا تھا۔ تم نے اپنے قریبی میں ایک مولوی کو بلایا اور اسے امامت کی ذمے داری سونپ کر ایک مہینے کے لیے چلے گئے تھے۔ ایک مہینے بعد جب تم واپس لوٹے تو گاؤں والے تمھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تمھارے قریبی دوست مولوی تمہاری جگہ مقرر ہو چکے تھے۔“ (رنجش، ص 57)
ٹایٹل افسانہ ’رنجش‘کی کہانی زندگی کے عام رویوں کی الم ناکیوں کا بھرپور افسانوی ترجمان ہے۔ اس افسانے میں دو جگری دوستوں کی آپسی معمولی رنجش ایک بڑے المیے کا شاخسانہ ثابت ہوتی ہے۔ معاملہ ایک سیکنڈ ہینڈ کار کے خریدنے پر بگڑ جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دیرینہ دوستی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔پھر منافرت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور مخلصانہ رشتوں کے سارے پاکیزہ جذبات کو لمحہ بھر میں خاکستر کر کے دوستی کی راکھ ہی پر سرد ہوتے ہیں۔افسانے کے دونوں ہی کرداروں کے منفی و مثبت پہلوؤں کو اس فنکاری سے پیش کیا گیا ہے کہ قاری بہ حیثیت فرد اپنے اندر کے دوسرے انسان کو ٹٹول کر گویا احتساب کرنے لگتا ہے۔سماجی رشتوں کی شکست و ریخت کو موضوع بنا کر بُنی گئی یہ کہانی روحانی رشتوں کے مد مقابل دنیا داری اور مادیت پرستی پرسختضرب ہے۔ دوسری طرف افسانہ حقیقت نگاری کا مظہر ہے۔ تاہم افسانے میں غیر ضروری طوالت کی گنجائش ہرگز نہیں ہو سکتی۔ بعض جگہ افسانہ نگار نے لفظوں کے برتنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ ’سودا‘ علیم اسماعیل کا ایک اچھا افسانہ ہے۔ اس افسانے سے ان کے یہاں موضوعات کا تنوع کھل کر سامنے آتا ہے۔نیز موصوف کا قلمی وصف بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے عام و خواص تجربات، مشاہدات کو افسانہ بنانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ اس افسانے کی کہانی ایک نظر میں فلمی انداز کی سی معلوم ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے قاری آگے بڑھتا ہے اس کا تجسس بھی بڑھتا جاتا ہے اور اخیر میں وہ اس سنجیدہ موڑ پر افسانہ مکمل کرتا ہے جس کا اسے گمان تک نہیں ہوتا۔ افسانے کی کہانی چند سطور میں اس طرح ہے کہ روشنی راہل سے محبت کرتی ہے مگر اس کی شادی جبراً مرکزی کردار سے ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر یعنی مرکزی کردار کے ساتھ ازدواجی زندگی نہیں گزارنی چاہتی ہے لہٰذا اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے محبوب سے وصل کرنے میں وہ اس کی اعانت کرے۔مرکزی کردار شوہر بادل نا خواستہ راضی ہوجاتا ہے مگر خوب تلاش و جستجو کے بعد روشنی کے عاشق راہل کے در پر پہنچتا ہے تو اس پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ راہل تو لڑکیوں کا دلال ہے اور ان کی خرید و فروخت میں بھی ماہر تاجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا مرکزی کردار روشنی کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اسے جھوٹا قرار دے دیتی ہے۔اب مرکزی کردار بغیر ہمدردی کے، انتقاماً یا پھر روپیے کے لالچ میں اپنی بیوی روشنی کو اسی کے عاشق راہل ہی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔ ایک طرح سے اس افسانے میں عورت کے تنزل کا سبب، اس کے اپنی کج فکری سے عبارت نظر آتا ہے تو دوسری طرف مرد اساس سماج،عورت کو ایک کھلونا کس طرح بناتا ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔
مرد اساس سماج میں صنف نازک کا تنزل، استحصال اور اس پر ہو رہے ظلم و جبر کی طویل داستان افسانہ ’گریما‘کی توسط بڑے ہی فنکارانہ انداز میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں عورت کی زندگی کے مختلف مدارج اور سماج و معاشرے کے کئی شیڈس سامنے آتے ہیں۔ ایک عورت سہارا پانے کے لیے سماج کے متعدد پر اعتماد اور بہبودی اداروں سے گزر کر بھی اپنی آبرو بچا نہیں پاتی اور ہر در پر جسمانی و ذہنی طور پر قربان ہوتی رہتی ہے۔ پھر انجام کار مفاہمتی جذبے سے اپنے آپ کو اس آگ میں جھونک دینے پر مجبور ہوجاتی ہے جس کی آنچ سے بچنے کی جدوجہد ہی سے اس کی پوری زندگی عبارت رہی ہے۔ علیم اسماعیل نے اس افسانے کو واقعی بڑی عرق ریزی سے لکھا ہے اور اس کی بنت میں خاص سلیقہ مندی برتی ہے۔ خاص کر پلاٹ، منظر نگاری اور کرداروں کا اٹھاؤ بہت اچھا ہے۔ لیکن الفاظ کی بھرمار نے بعض جگہ افسانے کی فضا کو مکدر کر دی ہے۔کچھ چیزیں ہیں جو دوبارہ، سہ بارہ لکھنے پر روانی میں آ جائیں گی۔دوسری بات، افسانے پر قنوطیت غالب ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ موصوف افسانہ نگار امید کی ایک آدھ کرن بھی جگا دیتے۔
علیم اسماعیل کا ایک افسانہ ’انتظار‘جو اُن کے تدریسی تجربے کا فکری نتیجہ ہے، خاصا مقبول ہوا تھا۔اسی تدریسی تجربے سے نکلا ایک اور افسانہ ’ظالم‘ہے۔ جس کی کہانی کا محور سرکاری اسکول کی ایک غریب بچی ہے۔ عام طور پر سرکاری اسکولوں میں غریب خاندان کے بچے ہی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ افلاس اور غریبی کے ضمن میں ان کے اپنے نا گفتہ بہ کئی سارے مسائل ہوتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ ایسے غریب بچے اپنی پریشانیوں اور مصائب کے بیان کرنے سے حتی المقدور گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا اساتذہ کی بڑی حد تک یہ ذمے داری ہے کہ وہ غریب بچوں کے ان مسائل کو چیلنج کے طور پر قبول کریں اور ان کے سدباب میں اپنا عملی تعاون پیش کریں۔
اس کتاب میں ایک افسانہ ’زہر‘،سیاست
اس کتاب میں ایک افسانہ ’زہر‘،سیاست دانوں کی بے مروتی، خودغرضی اور بے حسی کو فنکارانہ انداز میں تشت از بام کرتا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار کو پانے کے لیے عوام کا استحصال کرنے پر انتہا درجہ تک آمادہ رہتے ہیں۔ یہ افسانہ ایک طرف علیم اسماعیل کی سیاسی فکر کا اظہار کرتا ہے تو ان کی عصری وابستگی کا مظہر بھی ہے۔ افسانے میں بعض چیزیں غیر فطری محسوس ہوتی ہیں۔ نیز اس میں جذیاتی نگاری پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ عصری حساسیت کے تناظر میں ان کا ایک افسانہ ’یہ ماجرا کیا ہے؟‘ بھی لائق مبارک باد ہے۔ اس افسانے میں موصوف نے گجرات کے شہر سورت میں، ایک کوچنگ کلاس پر آگ لگ جانے کے سانحے کی منظر کشی اس انداز سے کی ہے، گویا قاری خود وہاں موجود ہے اور اس دل دوز منظر کو اپنی کھلی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ اس افسانے میں علیم اسماعیل نے لوگوں کی بجائے آگ بجھانے کی کوشش کرنے کے، جلتے جھلستے ہوئے بچوں کی ویڈیوز بنانے کی بے حس روش کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ افسانہ ’حادثہ‘کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو ایک بے سہارا عورت کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتا ہے، مگر جب وقت کا پہیہ گھومتے ہوئے اسی کے سمت آتا ہے تو وہ بھی اپنی بیوی بچوں کو اسی بے بسی کے عالم میں دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مفہوم کو سچ دکھلاتی اس کہانی میں بینکنگ نظام کی بد نظمی اور بد عنوانی کو بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واقعی اس نظام میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اسی طرح افسانہ ’اعتماد‘ موبائل اور نیٹ وغیرہ کی خرافات کے تناظر میں عشق محبت کی ایک فکر انگیز کہانی ہے۔ افسانہ ’جنون‘ ایک اثر انگیز کہانی ہے جس میں بھی عصری الیکٹرانک دور پر بھر پور طنز نظر آتا ہے۔ اس کے بعد ’مردہ پرستی‘ اس مجموعے کی بڑی دلچسپ کہانی ہے، جس میں ادیبوں شاعروں کے استحصالی صورت حال کو ایک خاص فکری انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلا شبہ آج واقعی کسی شاعر و ادیب کی فکر و فن کا اعتراف کرنا ہو تو ہمیں اس کی موت کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ادب کی دنیا میں زندوں پر مردوں کو فوقیت حاصل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”ایک دن عارف ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اچانک اس کی نظریں اخبار پرجم گئیں۔ اخبار میں موصوف شاعر کی موت کی خبر چھپی تھی۔ خبر پڑھ کر اس کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا:
'چلو اب مضمون بھیج دیتا ہوں۔“ (رنجش، ص 113)
علیم اسماعیل کے افسانوں میں ابہام بالکل نہیں ہے، نہ کوئی گھماؤ پھراؤ ہوتا ہے۔ انھوں نے علامتی اور نہ ہی استعاراتی طرز اپنایا ہے۔ ان کے افسانے سادہ بیانیہ سے متصف ہیں اور صاف اور شستہ زبان میں قلم بند کیے گئے ہیں۔غرض کہ وہ افسانوی طرز میں اپنے مافی الضمیر کو واضح طور پر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اچھی منظر نگاری، کردار نگاری، موزوں مکالمے اور فکری پس منظر سے سجے ان کے افسانے حقیقت نگاری کی اچھی مثالی کہے جا سکتے ہیں۔ فن اور موضوع کے اعتبار سے افسانوں کے یہ اختصاص ان کے افسانچوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس افسانوی مجموعے میں پانچ افسانچے بھی شامل ہیں۔ ان میں افسانچہ ’آگ‘ ظریفانہ انداز لیے ہوئے ہے۔ جس میں بیوی کے حوالے سے ازدواجی زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات کو ایک مختصر سی تحریر میں بڑے ہی پر لطف انداز میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی طرح افسانچہ ’تعلیم‘میں بھی مزاحیہ انداز میں غیر تعلیم یافتہ سیاست دانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں یہ مکالمہ جو ایک منتری تعلیم کی اہمیت پر بھاشن دینے کے بعد ایک ملازم سے کرتا ہے:
”کیوں رے اس ٹوائلٹ کی باہری دیوار پر مرد اور عورت کا فوٹو کیوں نہیں بنایا؟ میں غلطی سے عورت کی ٹوائلٹ میں گھس گیا تھا۔“ (رنجش، ص 115)
”مسکراہٹ“ میں مہنگائی کی مار پر مختصراً مگر بہت اہم زاویہ سے گرفت کی گئی ہے۔ اس افسانے سے بھی علیم اسماعیل کا ظریفانہ انداز جھانکتا ہے۔کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ مجلد سرورق جاذب نظر ہے۔ کاغذ اور طباعت بھی عمدہ ہے۔علیم اسماعیل نے اس مجموعے میں خود کو پوری طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان و بیان اور اسلوب کی سطح پر وہ اپنے قلم کو سنوارنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ ان کی یہ محنت رنگ لائے۔ امید ہے یہ کتاب علیم اسماعیل کے ادبی سفر میں اہم پڑاؤ ثابت ہو۔
٭٭٭٭٭