چند روز قبل ایک خبر آئی تھی کہ گجرات کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر روینیو ڈاکٹر رانی حفصہ کنول کے خلاف محکمہ انسداد رشوت ستانی ( اینٹی کرپشن ) میں کرپشن کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ رانی صاحبہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ریت ٹھیکہ کی ایک نیلامی میں بحیثیت چیئرپرسن کمیٹی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ پتہ نہیں ڈاکٹر رانی حفصہ کنول صاحبہ پر لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت کیا ہے اگر ان پر الزامات غلط ہیں تو یہ ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے اور اگر الزامات درست ہیں تو یہ بہت افسوسناک بات ہے ۔ کیونکہ پیسے کی ہوس میں لوگ ہر وہ کام کرتے ہیں جو بدنامی اور بے شرمی کا باعث بنتے ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ رانی حفصہ کنول صاحبہ پر لگائے جانے والے الزامات غلط ثابت ہوں تو بہتر ہے ۔ کیوں کہ اگر مرد کرپشن میں ملوث ہو تو اس کو اتنا برا بھلا نہیں کہا جاتا اگر عورت کرپشن میں ملوث ہو تو اس کو کئی طرح کے طنزیہ القابات سے یاد کیا جاتا ہے اور جتنا اثر عورت کی باتوں میں ہوتا ہے اتنا اثر مرد کی باتوں میں نہیں ہوتا ۔ اس کی بہت بڑی مثال ہمارے سامنے پاکستان کی تاریخ میں ایک مشہور کردار جنرل رانی کی ہے اور جنرل رانی کا تعلق بھی گجرات سے ہی تھا ۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں 2 خواتین اسسٹنٹ کمشنرز سیدہ ندا کاظمی صاحبہ اور عائشہ زہری صاحبہ کی بہتر کارکردگی قابل تحسین ہے جس کی وجہ سے ان کی بہت اچھی شہرت ہے ۔
جنرل رانی کی وجہ شہرت پاکستان کے رنگین مزاج حکمران جنرل آغا محمد یحی خان ہے ۔ جنرل یحی خان پاکستان کے ایک انتہا درجے کے عیاش اور رنگین مزاج حکمران گزرے ہیں ۔ ان کی زندگی عیش و عشرت میں گزری ہے اور ان کی ہر رات " رنگین " ہوتی تھی ۔ اپنی ان رنگینیوں کے باعث جنرل یحی خان اور مصر کے بادشاہ فاروق " رنگیلا بادشاہ " کے طنزیہ خطاب سے نوازے گئے ۔ جنرل رانی کا اصل نام اقلیم اختر تھا وہ گجرات کی رہائشی تھی اور پولیس انسپکٹر رضا کی بیوی تھی ۔ وہ بہت خوب صورت اور پرکشش عورت تھی لیکن حد سے زیادہ دولت کی پجاری تھی اس دولت کی لالچ میں اس نے گجرات کے ایک ڈی ایس پی مخدوم حسین کو اپنا پہلا شکار بنایا ۔ اسی دوران ایک سرکاری تقریب میں جنرل یحی خان کی نظر اس پر پڑ گئی جس کے بعد " جیسے کو تیسا " مل گئے ۔ رانی یحی خان کو پیار سے " آغا جانی " کہتی اور یحی خان، رانی کو پیار سے " موٹی " کہتے تھے ۔ بظاہر یحی خان اور رانی ایک دوسرے کے لیئے " ہیر اور رانجھا " بنے ہوئے تھے مگر حقیقت میں دونوں کے " دوستوں " کی فہرست بہت طویل تھی ۔ جنرل یحی خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی " دوستوں " کی تعداد 500 کے قریب تھی ۔ جن میں پہلے نمبر پر اقلیم اختر المعروف جنرل رانی، ملکہ ترنم نورجہاں، اداکارہ شبنم، نغمہ، شگفتہ، ترنم اور نازلی و دیگر تھیں ۔ جبکہ اسی طرح جنرل رانی کے دوستوں کی فہرست بھی طویل تھی جن میں پاکستان کے حکمران طبقہ سمیت سیاستدان، جاگیر دار اور سرمایہ دار بھی شامل تھے ۔ پاکستان کی تاریخ میں 2 خواتین بغیر کسی سرکاری عہدے کے بہت "پاورفل "
گزری ہیں ایک جنرل رانی اور دوسری ناہید خان ۔ جنرل یحی خان کے دور میں اس تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ جنرل رانی تھی جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ان کی پی اے ناہید خان تھی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے طرم خان ناہید خان کی خوشامد اور منت سماجت کے بعد ہی محترمہ بینظیر بھٹو تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے تاہم محترمہ ناہید خان اور جنرل رانی کے " کردار " میں دن رات کا فرق ہے کردار کے حوالے سے ان دونوں کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔
جنرل آغا محمد یحی خان کی مخصوص دوستوں کو جنرل عبداللہ نیازی " خوشبو کی دیوداسیاں " کا خطاب دے کر خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے جنرل یحی خان کے تمام قریبی دوست بھی ان کی طرح ہی رنگین مزاج ہوتے تھے اور ان سب کی راتیں ہمیشہ رنگین ہی ہوتی تھیں ماسوائے میجر جنرل اسحاق کے جو صدر یحی خان کے اے ڈی سی تھے اور وہ بہت باکردار اور صوم و صلات کے پابند تھے ۔ جنرل رانی بڑے لوگوں کے ساتھ دوستی کے باعث بہت بڑی دولت مند بن گئی تھی مگر ظاہری دولت اور بڑے لوگوں کے ساتھ دوستی کے باوجود اس کے دل کی دنیا" ویران" تھی ۔ وہ ایک شخص کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی اور وہ " خوش قسمت " ایک معروف سرمایہ دار رفیق سہگل تھے۔ رانی ان پر فدا تھی مگر رفیق سہگل اس سے دور بھاگتے تھے ۔ ایک بار یحی خان پشاور کے دورے پر گئے تو جنرل رانی وہاں بھی گورنر ہاؤس میں سایہ کی طرح ان کے ساتھ تھی ۔ اتفاق سے رفیق سہگل بھی وہاں موجود تھے جس پر نظر پڑتے ہی رانی نے صدر مملکت جنرل یحی خان کو سرگوشی میں کہا کہ آغا جانی " رفیق میں نال محبت نئیں کر دا " آغا صاحب نے وہاں موجود ڈپٹی کمشنر سے دریافت کیا کہ جب برطانیہ کی ملکہ الزبتھ پشاور کے دورے پر آئی تھی تو گورنر ہاؤس کے کس کمرے میں رہائش اختیار کی تھی ۔ ان کو بتایا گیا کہ فلاں کمرے میں ۔ صدر صاحب نے حکم جاری کیا کہ رفیق سہگل کو اس کمرے میں بھیج دو ۔ حکم کی تعمیل ہو گئی جس کے بعد آغا صاحب نے رانی کو حکم جاری کیا کہ " موٹی " جلدی سے رفیق کے کمرے میں جائو ۔ رانی کے کمرے میں جانے کے بعد صدر صاحب کے حکم پر کمرے کو باہر سے تالا لگا دیا گیا اور اس طرح رانی اور رفیق سہگل نے ایک ساتھ " رات " گزار دی ۔ جنرل رانی کی کئی دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے ۔ آخر میں عرض ہے کہ مشہور پاپ سنگرز فخر عالم اور عدنان سمیع خان اقلیم اختر المعروف جنرل رانی کے نواسے اور معروف یا بدنام صحافی مبشر لقمان ان کے بھانجے ہیں واللہ اعلم باالصواب