رنگیلا 24مئی 2005ء کو پاکستان کے مشہور مزاحیہ اداکار، فلمساز، ہدایت کار، کہانی نگار، گلوکار، موسیقار اور تقسیم کار رنگیلا لاہور میں وفات پاگئے۔
رنگیلا کا اصل نام سعید علی خان تھا اور وہ 1937ء میں ننگر ہار افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔
رنگیلا کی پیدائش کے بعد ان کے والد افغانستان سے پشاور منتقل ہوگئے۔
قیام پاکستان کے بعد رنگیلا نے لاہور کا رخ کیا اور وہ برش و رنگ کی دنیا سے وابستہ ہوکر پینٹر بن گئے۔
اسی زمانے میں انہوں نے دلیپ کمار اور نورجہاں کی فلم جگنو دیکھی جسے دیکھ کر انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا۔
1957ء میں ہدایت کار عطا اللہ ہاشمی نے انہیں اپنی فلم داتا میں ایک مختصر سا کردار دیا اور یوں ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔
بعد ازاں شباب کیرانوی کی فلم ثریا اور اشفاق ملک کی فلم گہرا داغ نے انہیں صف اوّل کا مزاحیہ اداکار بنادیا۔
2جنوری1968ء کو ریلیز ہونے والی ہدایت ظفر شباب کی فلم سنگ دل نے ان کے فلمی کیریئر کو ایک نیا موڑ دیا۔
اس فلم میں ان کا تکیہ کلام ’’تین برس تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے کوئی حقہ نہیں پیا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔
1969ء میں رنگیلا نے اپنے ذاتی پروڈکشن ہائوس سے فلم دیا اور طوفان کا آغاز کیا۔ اس فلم کے کہانی نگار اور ہدایت کار بھی وہ خود تھے اور انہوں نے اس فلم میں ایک گانا بھی گایا تھا۔
اس فلم نے کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے جس کے بعد رنگیلا فلمی صنعت میں بطور ہدایت کار اور گلوکار مستحکم ہوگئے۔
ان کی دیگر فلموں میں رنگیلا، دل اور دنیا، میری زندگی ہے نغمہ، میں بھی تو انسان ہوں، پردے میں رہنے دو، رنگیلا اور منور ظریف، بے ایمان اور میں منجھی کتھے ڈاہواں شامل ہیں۔
ان کی فلم کبڑا عاشق کی ناکامی نے انہیں بڑا دھچکا پہنچایا تاہم رنگیلا نے ہمت نہ ہاری اور چند برس کے بعد ایک مرتبہ پھر فلمی دنیا میں راج کرنے لگے۔
اس دور میں ان کی فلموں عورت راج ، سونا چاندی اور انسان اور گدھا نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
رنگیلا نے مجموعی طور پر 660 فلموں میں کام کیا جن میں 244 فلمیں اردو میں، 362 فلمیں پنجابی میں، 33 فلمیں ڈبل ورژن میں، 19 فلمیں پشتو میں اور ایک ایک فلم ہندکو اور سندھی میں بنائی گئی تھیں۔
رنگیلا نے متعدد اعزازات بھی حاصل کئے جن میں 2004ء میں حکومت پاکستان کا دیا گیا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست تھا۔۔!!!