محمد شاہ رنگیلا کانام تو ہر سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص نے سن رکھا ہو گا مگر صرف نام ،بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ کون تھا ،اس کا اصل نام کیا تھا اور تاریخ میں یہ محمد شاہ رنگیلا کے نام سے کیوں مشہور ہے،تو جناب یہ صاحب کوئی چھوٹا موٹا کردار نہیں اپنے وقت میں ہندوستان کا بڑا نامور بادشاہ تھا ،اس کا اصل نام روشن اختر تھا،وہ شاہ جہاں اختر کا بیٹا تھااور شہنشاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا،یہ 17ستمبر 9 171کوتخت نشین ہوا، یہ مغل سلطنت کا چودھواں بادشاہ تھا۔ اس نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے لیے ناصر الدین شاہ کا لقب پسند کیا مگر تاریخ میں یہ محمد شاہ رنگیلا کے نام سے مشہور ہے، آپ اس کی شہنشاہانہ طبیعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے اپنے دور میں اپنے سب سے پسندیدہ گھوڑے کو بھی وزیر کا درجہ دے دیا تھا اور یہ گھوڑا شاہی دربار خلعت فاخرہ پہن کر شریک ہوتا وزیروں کے ساتھ کھڑا ہوتا اور ایک وزیر کا پورا پروٹوکول انجوائے کرتا، اور گھوڑے کو وزارت عطا کرنے والا یہ غالباً پہلا اور آخری شخص تھا، محمد شاہ رنگیلا ایک دن ایک قانون بناتا اگلے دن خود سب سے پہلے اس کی پامالی کرتا اور اسے فی الفور ختم کر دیتا،دن رات شراب پیتا اور بعض اوقات تو طوائفوں اور خوبصورت عورتو ں کو لٹا کر ان کے اوپر بیٹھ کر دربار کی سر پرستی فرماتا،کبھی زنانہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر تمام امراء وزراءاور روﺅسا کو بھی لیڈیز لباس زیب تن کرنے کا حکم دیتا اور یہ تمام واہ واہ کرتے ہوئے ہر حکم من و عن بجا لاتے،کسی میں بھی کسی بھی قسم کے ا نکار کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں تھی،یہ اپنے قاضی کو شراب سے وضو کرنے کا حکم دیتا اور نظریہ ضرورت کا مارا قاضی ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگاتا،اس کا حکم تھا کہ ملک بھر کی تمام خوبصورت عورتیں اس کی ملکیت اور امانت ہیں اور جو بھی اس امانت میں خیانت کرتا اور اس کا علم رنگیلے کو ہو جاتا تو وہ اسی وقت قابل گردن زنی قرار پاتا،روازانہ ایک حکم پر سینکڑوں قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیتا ساتھ ہی جیلر کو گنتی پوری کرنے کا حکم دیتا ،نتیجتاً جیلر اتنے ہی بے گناہ افراد پکڑ کر جیل میں بند کر دیتا،یہ شراب پی پی کر اپنے گردے جگر،اور اپنے جسم کا پورا نظام تباہ کر بیٹھا اور یہ رنگیلا ترین شہنشاہ26اپریل1748کو انتقال کر گیا،اس نے لگ بھگ 29 برس حکمرانی کی اور تاریخ میں اپنا نام ایک غلیظ کردار کے نام پر لکھوا کر اس دار فانی سے کو چ کر گیا-
اسی رنگیلا شاہ کے دور میں نادر شاہ درانی نے دلی میں بد ترین قتل عام کے بعد ، جب دلی فتح کر لیا تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے شاہی محل میں فاتح بادشاہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ کہتے ہیں کہ نادر شاہ درانی نے دلی کے اس قتل عام کا حکم صرف ایک لفظ کہہ کر دیا تھا اور وہ لفظ تھا ’’بزن ‘‘ فارسی کا یہ لفظ انگریزی کے لفظ BEGIN کا ہم وزن ہے، جس کا مطلب ہے شروع کرو یا شروع ہو جاؤ۔ جب ایرانی لشکر کے گھوڑوں کی سُمیں خون سے سرخ ہو گئیں، تو نادر شاہ فاتح کی حیثیت سے شاہی محل میں داخل ہوا اور محمد شاہ رنگیلے کی جانب سے خود کو ملنے والی اس شاندار مہمان نوازی پر حیران رہ گیا۔
لوگوں نے دیکھا کہ محمد شاہ رنگیلے نے اسے اپنے تخت پر ساتھ بٹھا لیا ۔ گویا ایک نیام میں دو تلواریں سما گئیں تھیں۔ فاتح بادشاہ نے مفتوح بادشاہ کے تخت پر اس کے ساتھ بیٹھنے کے بعد اپنی شرائط منوانا شروع کیں۔ محمد شاہ رنگیلا نے اپنا مشہور و معروف خاندانی ہیرا کوہ نور اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا۔ نادر شاہ کو اس کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی کہ ہیرا کہاں ہے؟ کیونکہ مخبر کب اور کہاں نہیں ہوتے؟ اس زمانے میں بھی موجود تھے۔ نادر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی محمد شاہ رنگیلا کو اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا اور بولا ’’جس طرح عورتیں دوپٹہ بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں، کیوں نا ہم دونوں بھی پگڑی بدل کر آپس میں بھائی بن جائیں‘‘؟ یہ کہہ کر نادر شاہ نے محمد شاہ کی پگڑی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی اور اپنی پگڑی محمد شاہ کے سر پر سجا دی ۔ اس طرح کوہ نور ہیرا بڑی صفائی کے ساتھ نادر شاہ کی تحویل میں پہنچ گیا۔ نا اہل اور مفتوح مغل بادشاہ اپنی کمزوری پر پیج و تاب کھا کر رہ گیا، لیکن کچھ کہہ نہ سکا
’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘
جنگ کے تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طاؤس بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا جو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہاں نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا۔ ان سب کے علاوہ اب فاتح بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ محمد شاہ رنگیلا اپنی بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے پڑھوا دے تا کہ دونوں ’’بھائیوں‘‘ کے درمیان یہ رشتہ مزید مضبوط ہو جائے۔ چونکہ مفتوح کے پاس فاتح کی بات ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا لہذا نکاح کی تقریب کے لیے پنڈال سجا دیا گیا۔ محمد شاہ رنگیلا بہرحال ایک خاندانی بادشاہ تھا۔ اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہی تھی ، جب کہ نادر شاہ درانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا، ( ایک روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا) جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی۔ محمد شاہ کے کسی ہمدرد نے اس کے کان میں یہ ’’جڑ‘‘ دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی سہی ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لہذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر وہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار سونت کر بولا ’’ لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔‘‘
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10208149060904703