رنگ برنگے ٹوٹے
(نوٹ:بعض خبروں پر فکاہی تبصروں کی روایت اردو صحافت میں عرصہ سے چلی آرہی ہے۔۲۰۰۳ء میں مجھے اردوستان ڈاٹ کام پراس نوعیت کے کالم لکھنے کا موقعہ ملا تھا جو بعد میں کتابی صورت میں’’خبرنامہ‘‘
(نہلے پہ نہلا) کے نام سے شائع ہوئے۔اس کتاب میں سے منتخب کردہ چند خبریں اور ان پر میرے تبصرے یہاں رنگ برنگے ٹوٹے کے عنوان کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔کبھی کبھار ایسا انتخاب پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ہر تبصرے کے ساتھ اشاعت کی تاریخ میں نے اضافی طور پر درج کردی ہے تاکہ خبر کو اس کے زمانی تناظرمیں بھی دیکھا جا سکے۔ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ چناؤلاپٹی ضلع سالم(تمل ناڈو)کے مریا من مندر میں منعقدہ ایک میلہ میں ۵ خواتین سمیت دس افراد نے بالکل (’’بالکل ‘‘پر زیادہ زور رکھیں)عریاں رقص کیا۔بعد میں پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔(اخباری خبر)
٭٭ پریاں صرف قصے کہانیوں میں ہوتی ہیں اور حوروں کا تعلق اگلی دنیا سے ہے۔ یہ پانچ خواتین کا رقص اسی دنیا کی چیز ہے۔مغرب میں بھی اس قسم کے تماشے ہوتے رہتے ہیں ۔ اسٹرپ ٹیز اسی سلسلے کا ایک کھیل ہے ۔اسٹرپ ٹیز میں رقص کا اختتام جس مقام پر آتا ہے، مندر کی دیوداسیوں نے اس مقام سے اپنے رقص کا آغاز کیا۔ویسے خبر سے یہ پتہ نہیں چلا کہ پولیس نے رقص ختم ہونے کے فوراََ بعد گرفتاریاں کیں یا تب گرفتاریاں کیں جب ان خواتین نے کپڑے زیب تن کرلئے ۔ (۲۸؍اپریل ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قومی اسمبلی کے ایوان میں ایم ایم اے کے رُکن اسمبلی مولانا حافظ حسین احمد نے اپنے سینے پر’’ایل ایف او نامنظور‘‘لکھ کر نمایاں کر رکھا تھا۔قاف لیگ کی رکن اسمبلی محترمہ کشملہ طارق نے انہیں دیکھ کر کہا :مولانا صاحب اس تحریر میں سے ’’نا‘‘کا لفظ ہٹا دیں۔اس پر مولانا حافظ حسین احمد نے برجستہ کہا کہ :بی بی آپ ’’ہاں‘‘کریں ،میں ’’نا‘‘کو ہٹا دیتا ہوں۔(اخباری رپورٹ)
٭٭ مولاناحافظ حسین احمد کے ذومعنی جواب سے جہاں ان کی ذہانت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے،وہیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ زاہدِ خشک نہیں ہیں۔ باغ و بہارشخصیت کے مالک ہیں۔اﷲ کرے زورِ بیاں اور زیادہ! ۔۔۔۔۔اس خبر کے ساتھ ایم ایم اے کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی کی ایک پرانی بات یاد آگئی۔ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا۔ خواتین کے سال کی نسبت سے ایک خاتون رکن اسمبلی تقریر کر رہی تھیں۔اس دوران اجلاس کا وقفہ ہوا۔وقفہ کے بعد اجلاس شروع ہوا تو صرف مقرر خاتون اسمبلی میں موجود تھیں۔انہوں نے اپنی ادھوری تقریر شروع کی تو مولانا شاہ احمد نورانی نے مشورہ دیا کہ بے شک کورم پورا ہے لیکن خواتین کے سال کی نسبت سے باقی خواتین ارکان کی آمد کا انتظار کر لیا جائے۔اس پر مقررہ رکن اسمبلی نے روانی میں کہہ دیا:میں اکیلی ہی پورے ایوان کے لئے کافی ہوں۔مولاناشاہ احمد نورانی نے فوراََ کھڑے ہو کرکہا:
جنابِ اسپیکر!نوٹ کیجئے یہ کہہ رہی ہیں میں اکیلی ہی سارے ایوان کے لئے کافی ہوں۔ (۲۸؍اپریل ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایک مارشل لاء نے ملک توڑ دیا،دوسرے نے ملک کو کلاشنکوف کلچر دیا۔ ۔ ۔ ۔ گزشتہ ۵۶ برسوں میں فوجی ڈکٹیٹروں نے جو گُل کھلائے ہیں اس کے نتیجہ میں ۶ کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔(بروکلین،نیویارک میں شہباز شریف کی ایک استقبالیہ میں تقریر)
٭٭ شہباز شریف نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دوسرے مارشل لاء نے کلاشنکوف کلچر کے ساتھ قوم کوشریف فیملی کے سیاستدان بھی عطا کئے تھے۔ اسی طرح فوجی ڈکٹیٹروں نے جو گُل کھلائے ہیں ان کے نتیجہ میں صرف غریب عوام غریب تر ہی نہیں ہوئے،بلکہ امیر طبقہ امیر تر بھی ہوا ہے۔جن کی ایک دو فیکٹریاں تھیں وہ اب بیسیوں کارخانوں کے مالک ہیں۔فوجی حکمرانوں کے کھلائے ہوئے یہ گُل بھی نظر کے سامنے رہنا چاہئیں۔(۵؍مئی ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان اور بھارت کے درمیان علماء ڈپلو میسی شروع۔۔۔انڈیا سے مولانا اسد مدنی کی زیر قیادت وفد پاکستان پہنچ رہا ہے،مولانا اسد مدنی انڈین حکومت کی تائید سے اس سلسلہ میں مولانا فضل الرحمن کے ذریعے حکومت پاکستان سے رابطے میں ہیں۔ (اخباری خبر)
٭٭ابھی تک ثقافتی ڈپلومیسی سے لے کر بس ڈپلومیسی تک کے مظاہردیکھنے میں آئے تھے۔اب یہ علماء ڈپلومیسی پہلی بارسننے میں آرہی ہے۔ویسے جمعیت العلماء اسلام ہندشروع سے کانگریس کی ہمنوا رہی ہے اور بھارتی حکومتوں کے ساتھ اس کے مراسم عموماََاچھے رہے ہیں، ادھرہمارے علماء کی ایک بڑی تعداد بھی ماضی میں جمعیت العلماء ہند کے سیاسی موقف کی ہمنوا رہی ہے۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ جب سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک آن ملیں گے تو بہتری کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ویسے بہتر تھا کہ پاکستان سے علماء کے وفد جاکر انڈین پنڈتوں اور پروہتوں سے ملتے اور انڈیا سے پنڈتوں اور پروہتوں کے وفود پاکستان آکر علماء سے ملتے۔اس طرح دونوں طبقوں میں رابطے سے یا تو فساد کی جڑ ختم ہوتی یا فساد پوری طرح اٹھ کھڑا ہوتا۔ (۱۲؍مئی ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بھارتی لوک سبھا میں خواتین ریزرویشن بل پر ہونے والی بحث کے دوران آر جے ڈی کے قائد رگھو ونش پرساد سنگھ نے الزام لگایا کہ اگر کوئی خواتین کا مخالف ہے تو وہ پردھان منتری واجپائی ہیں،جو مجرد زندگی گزار رہے ہیں۔ (اخباری خبر)
٭٭ پردھان منتری واجپائی جی نے ساری زندگی کنوارا، رہ کر بسر کی ہے اسی لئے اب ان پرخواتین کا مخالف ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ممکن ہے واجپائی جی کو ان کی پسندیدہ لڑکیوں نے مسترد کردیا ہو اور وہ اسی غم میں زندگی بھر کنوارے رہ گئے ہوں۔اگر ایسا ہے تو پھر انکو حق پہنچتا ہے کہ اپنا غصہ اتاریں۔ویسے ہمارے پاکستان میں بھی بعض تاریخی قسم کے کنوارے کردار ہیں۔ ایک تو مرحوم مولاناعبدالستارخان نیازی زندگی بھر کنوارے رہے۔ایک اب وزیر اطلاعات شیخ رشید ابھی تک کنوارپن کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
(ضروری نوٹ: واجپائی جی، مولانا نیازی اور شیخ رشید کے سلسلہ میں یہاں کنوار پن سے صرف غیر شادی شدہ ہونا ،مرادلیا جائے۔باقی واﷲ اعلم بالصواب! بلکہ بالثواب)۔(۱۲؍مئی ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان کا خیر سگالی کا دورہ کرنے والے مو لانااسعد مدنی کے وفد میں جین ٹی وی گروپ کے چیئرمین جے کے جین اور دیگر امن پسند ہندوستانی بھی شامل ہوں گے ۔ (اخباری خبر)
٭٭ پہلے خبر آئی تھی کہ مولانا اسعد مدنی علماء کا وفد لے کر پاکستانی علماء سے ملیں گے۔یوں علماء ڈپلومیسی کے تحت بھی کام آگے بڑھے گا۔اسی لئے ہماری رائے تھی کہ دونوں طرف سے علماء کے وفود کے بجائے اُدھر انڈیا سے پنڈتوں اور پروہتوں کے وفود آئیں اور پاکستان سے علماء کے وفود جائیں۔بہر حال مقصد تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے مختلف طبقات میں باہمی صلح اور محبت کے جذبات کو فروغ دیا جائے اور دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کیا جائے۔ یہ نیک مقصد جیسے اچھے طریقے سے ممکن ہو وہ طریقہ بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ جین ٹی وی گروپ کے چیئرمین کا نام پڑھنے کے بعد خیال آیا ہے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں طرف سے علماء اور شوبز سے وابستہ شخصیات ایک ساتھ آئیں جائیں۔اُدھر کے علماء کے ساتھ ایشوریا رائے، رانی مکر جی،پریتی زینٹا،کرشمہ کپورآرہی ہوں تو یہاں کے علماء کے ساتھ ریما، نرگس ،میرا، اور صائمہ جا رہی ہوں۔ممکن ہے اس طرح حالات کونارمل کرنے میں کچھ مدد مل سکے۔(۱۹؍مئی ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ۱۹۹۱ء میں ایک عرب شیخ کے ساتھ بیاہی جانے والی بارہ سالہ بچی آمینہ کی ،بارہ سال کے بعد دوبارہ شادی۔ (اخباری خبر)
٭٭حیدرآباد دکن کی اس بچی کی شادی ایک عرب شیخ سے ہوئی تھی۔بے شک عمروں کا کافی فرق تھا۔لیکن ائرپورٹ پر جاتے ہوئے نہ صرف مذکورہ عرب شیخ کو گرفتار کر لیا گیا بلکہ عدالت سے اس نکاح کو بھی فسخ کرا دیا گیا۔تب خواتین کے حقوق کی تنظیمیں بڑی سرگرمی سے اس کارِ خیر کو انجام دے رہی تھیں۔لیکن اس کے بعد کسی نے آمینہ کی خیر خبر نہیں لی۔اس کے والد کی وفات کے بعد گھر کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا۔اب اسی بچی نے بارہ سال کے بعد ۲۴سال کی عمر میں ایک ایسے ٹیچر سے شادی کی ہے جو عمر میں اس سے بیس سال بڑا ہے۔جس کی پہلی بیوی فوت ہو چکی ہے اور اس سے اس کے تین بچے ہیں۔عرب شیخ کے ساتھ بارہ،تیرہ سال کی بچی کی شادی اتنا بڑا جرم نہیں تھا جتنا اسے بنا دیا گیا تھا اور اب جس طرح آمینہ کی شادی ہوئی ہے اور جو کچھ اسے آگے پیش آئے گا،عرب شیخ سے شادی اس سے ہزار گنا بہتر ہوتی۔ اور کچھ نہ بھی سہی، کم از کم خوشحالی تو اس کے سارے خاندان کو نصیب ہو جاتی۔آمینہ کی خیر خواہی کا دَم بھرنے والی خواتین کی تنظیمیں سیاست کرنے کی بجائے اس کی زندگی کو بھی سنوارسکتیں تو بات ہوتی۔
(۲۶؍مئی ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ گدھوں کی ریس دیکھنے کے لئے کراچی سٹی کے نائب ناظم سے جنرل پرویز مشرف کی فرمائش ۔ (اخباری خبر)
٭٭ پچھلے دنوں جنرل پرویز مشرف کراچی گئے تو وہاں انہوں نے کراچی سٹی کے نائب ناظم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ سائیکل ریس اور گدھوں کی ریس دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر بعض ستم ظریف صحافیوں نے ’’سائیکل ریس‘‘ کی خواہش کو تو گول کردیاہے اور مقامی حکومت کے ایک نمائندے سے اس خواہش کا اظہار کرنے کو’ ’عارفانہ‘‘ انداز سے لیا ہے۔ان کے بقول قومی اسمبلی میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔اسمبلی میں گھڑ دوڑ چلتی ہے اور اسی نسبت سے مقامی حکومتوں کا نظام گدھا دوڑ ہی کہلائے گا۔صحافیانہ ستم ظریفی سے قطع نظر گدھا ،مسیحی مذہب کا محترم جانور ہے۔ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گدھے پر سواری کیا کرتے تھے۔اکبر الہٰ آبادی نے بہت پہلے یہ شعر کہا تھا لیکن اِس وقت جتنا بُش انتظامیہ پر یہ شعر پورا اتر رہا ہے اتنا کسی اور پر پورا نہیں اترتا
عیسیٰ سے جا کے کہئے گدھے اپنے باندھ لیں
کھیتی تمام حضرتِ آدم کی چَر گئے
(۲؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنوبی ہندوستان کے شہر سالم میں ایشوری نامی خاتون نے کنویں میں بچے کو جنم دیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق ۲۸ سالہ ایشوری کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ پیدائش کے موقعہ پر ہونے والے درد کی تاب نہ لا کر خاتون نے ایک قریبی کنویں میں چھلانگ لگا دی۔وہیں بچے کی پیدائش ہو گئی۔اتفاق سے کنویں میں پانی صرف دو فٹ گہرا تھا۔اس لئے لوگوں کی فوری کوشش کے نتیجہ میں زچہ و بچہ دونوں کو بچا لیا گیا ہے۔ابھی تک بس ،ٹرین اور ہوائی جہاز وغیرہ میں سفر کے دوران بچوں کی پیدائش ہونے کی خبریں آتی تھیں توچہروں پر حیرت آمیز مسرت پھیل جاتی تھی۔اب کنویں میں بچے کی پیدائش کی خبر مذکورہ ساری خبروں سے بالکل مختلف ایک اور دلچسپ خبر ہے۔ اور کیفیت وہی ہے حیرت اور مسرت والی۔ خدا (یا بھگوان۔۔جو اُس فیملی کو پسند ہو)زچہ و بچہ کو خیریت سے رکھے۔(۲؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ متحدہ عرب امارات میں تین لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کاروائی شروع کر دی گئی۔(اخباری خبر)
٭٭ متحدہ عرب امارات نے جنوری میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو خود پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔اس پر تین لاکھ سے زائد افراد میں سے ایک لاکھ نے بھی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔چنانچہ اب حکومت کی طرف سے ان تمام افراد کے خلاف کاروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اب جو لوگ پکڑے جائیں گے،انہیں دس سال کی قید اور دس ہزار درہم جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔غیر قانونی تارکین وطن میں اکثریت پاکستان،انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔اس خبر کا ایک اور پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہئے۔جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے بعض ممالک کے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی رجسٹریشن کا حکم دیا تھا تو صحافیوں کی طرف سے اتنے کالم اور مضامین لکھے گئے جیسے غیرقانونی پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کرنا امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اگرچہ امریکی طرزِ عمل غیر دوستانہ تھا لیکن امریکہ کو اس کا جائز قانونی حق حاصل تھا۔اب دیکھیں کہ ہمارے صحافی حضرات اسلامی برادری کے خیرخواہ متحدہ عرب امارات کی اس کاروائی پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔(ابھی تک کسی نے اس خبر کا نوٹس نہیں لیا)(۹؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ میلسی(پاکستان)میں ایک عورت کا سر مونڈ دیا گیا۔میلسی کے علاقہ میں گزشتہ سات ماہ کے دوران عورتوں پر الزام تراشی کے بعد سر مونڈنے کا پانچواں پنچایتی فیصلے کا واقعہ ہوا ہے۔(اخباری خبر)
٭٭ خبر کے مطابق اس عورت نسیم مائی کے شوہر محمد حسین نے اسے طلاق ثلاثہ دے دی تھی لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ گاؤں کے ایک جاگیر دار کے ساتھ آیا اور اسلحہ کے بل پر یہ کہتے ہوئے نسیم مائی کو اٹھا کر لے گیا کہ میں نے اپنی طلاق واپس لے لی ہے۔بعد ازاں نسیم مائی کے بیان کے مطابق جاگیر دار سمیت متعدد افراد اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرتے رہے۔صرف میلسی کے علاقہ میں اس نوعیت کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔فیصلہ کرنے والی پنچایت کا سرپنچ اور دوسرے پنچایتی نسیم مائی کے ساتھ زیادتی بھی کرتے رہے اور خود ہی منصف بن کر اس کے خلاف فیصلہ سنا کر عمل بھی کر دیا۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی ،منصف بھی
جس معاشرے کی اخلاق باختگی کا یہ عالم ہو وہاں علمائے کرام سائن بورڈ توڑنے اور سرکس کے تماشوں پر حملہ کرنے کو ہی اصل اسلامی نظام سمجھ رہے ہیں۔اس قسم کے واقعات سے انہیں کوئی دینی حوالہ کیوں نہیں یاد آتا؟(۹؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ’’ٹیلی ویژن امریکی سماج کا زبردست آئینہ دار ہے۔اس پر ایک نوجوان لڑکی کو غصے سے یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس کے بوائے فرینڈ(Boy Friend) کے ساتھ اس کی ماں معاشقہ کر رہی ہے۔ایک بات چیت میں دونوں ماں اور بیٹی اسی بات پر بحث کر رہی ہیں۔یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ماں اور بوائے فرینڈ کے مابین جنسی تعلقات کا بڑے ہی کھلے الفاظ میں تذکرہ کیا جا رہا تھا‘‘ (سیما مصطفیٰ کے آرٹیکل’’امریکہ میں اب سب کچھ ٹھیک ہے!‘‘سے ایک اقتباس)
٭٭ میلسی سے امریکہ تک سماجی سطحوں پر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ ان معاشروں کے بہت اندررُونما ہونے والے کئی سانحوں کی ہلکی سی جھلکیاں ہیں۔عصرِ حاضر کی جہالت ہو یا روشن خیالی۔۔۔ ۔۔۔۔ معاشروں میں کسی اچھی تبدیلی یا اعتدال کی صورت نظر نہیں آتی۔(۹؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہالینڈ میں ایک تیس سالہ خاتون نے اپنی زندگی کے مایوس کن تجربات کے بعد اپنے آپ سے شادی کر لی۔(اخباری خبر)
٭٭ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی شادی ضرور ہے لیکن حرکت پہلی نہیں ہے۔مشرقی اور مسلم ممالک کے معاشروں میں بھی وہ سارے معائب پائے جاتے ہیں جنہیں مغربی دنیا نے کھلے عام اپنا رکھا ہے۔گے اور لزبن کلچر سے لے کر me to me تک کی ساری غلط کاریاں ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہیں۔مغرب کے ایک دانشور نے لکھا تھا کہ دنیا کے ننانوے فی صد افراد اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اسme to me کا ارتکاب ضرور کرتے ہیں،اور جو ایک فیصد اس کا ارتکاب نہیں کرتے وہ در اصل جھوٹ بولتے ہیں۔ہمارے ہاں اس کا اقرار کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایک رنگ میں لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دوہرے پن کا شکار ہے لیکن اسے مثبت انداز سے دیکھا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم برائی کو چوری چھپے کرکے کم از کم اسے برائی تو سمجھتے ہیں۔(۹؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید کی طرف سے متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی کے ارکان کوان پڑھ کہنے پر اسمبلی اور علماء کا شدید رد عمل۔میں نے سیاسی اَن پڑھ کہا تھا،سیاسی اَن پڑھ دور اندیش نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک سیاسی اَن پڑھ کہنے کے اپنے بیان پر قائم ہوں۔شیخ رشید کا جوابی موقف۔(اخباری خبر)
٭٭ مولویوں اور وزیر اطلاعات کے اس جھگڑے سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔بس شیخ رشید کی وضاحت سے ایسا لگا کہ وہ اپنے پہلے بیان سے تھوڑا سا پیچھے ہٹے ہیں۔پہلے انہوں نے غالباً ’’اَن پڑھ ‘ ‘ کہا تھا۔۔اب اپنی بات پر اصرار بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ’’سیاسی اَن پڑھ‘‘ کی وضاحت کر دی ہے ۔ اگر وہ اپنے بیان میں پہلے ہی کچھ مارجن رکھتے تو اب تردید کر کے بھی ان کی بات درست رہتی۔ایک لطیفہ تھوڑی سی تبدیل شدہ صورت میں حاضر ہے۔ایک اخبار نے خبر شائع کی کہ فلاں اسمبلی میں آدھے اراکین اسمبلی انتہائی جاہل ہیں۔اس پر اسمبلی کے ارکان نے شدید احتجاج کیا تو اخبار کے ایڈیٹر نے اگلے دن ’’اعتذار‘‘کے عنوان کے ساتھ لکھا کہ ہم اپنے کل کے لکھے پر شرمندہ ہیں۔ اورکل کے لکھے کی معذرت اور تردید کرتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ اس اسمبلی کے آدھے اراکین جاہل نہیں ہیں۔ (۹؍جون۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔