وہ لفظ ڈھونڈ رہا تھا لرزتے ہونٹوں سے
ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی
میں ایک شخص کو گھر میں پناہ دے نہ سکا
کہ پہلے سارے قبیلے سے بات کرنی تھی
میں کوئی قیس نہ تھا پھر بھی مجھے سنگ پڑے
ہاں! ترا نام مگر، جسم کے ہر نیل میں تھا
ان دنوں شعر میں بھی شعبدہ بازی ہے بہت
بعض تو اوروں کی خدمات بھی لے لیتے ہیں
یہ لوگ مجھ سے ترا بار بار پوچھتے ہیں
مجھے بتا تو سہی ان کو کیا بتانا ہے
نہیں مرونگا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا،
میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا
میں جان دینے چلا ایسے اعتماد کے ساتھ
کہ جیسے عشق میں پہلے بھی جان دی ہوئی تھی
میں نوازا جا رہا ہوں کتنے اعزازات سے
ساری دنیا میرا گھر ہے اور گھر میں کچھ نہیں
ذرا سے ہم بھی تعلق میں وضع دار سے تھے
کچھ آشنائی بھی ان سے نئی نئی ہوئی تھی
رانا سعید دوشی
رانا سعید دوشی کے یہاں سچے تجربات اور مشایدہ پر مبنی اشعار کی بعض مثالیں اوپر دی جاچکی ہیں جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ سچے ادیب کا ذہنی اور ذوقی رشتہ روزرہ کی زندگی اور اسکے مسائل سے بلا واسطہ استوار ہوتا ہے اور وہ اپنے تجربہ اور مشاہدہ کے بل پر شاعری کرتا ہے حساس قارئین ایسی شاعری میں اہنے خیالات عکس ڈھونڈ کر محظوظ ہوتے ہیں. دراصل یہ شاعری کا ایک پہلو ہے.اس کے علاوہ بڑی شاعری انسانی شعور میں اضافہ کرتی ہے..بقول حضرت غالب
حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسد
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
توارد کی مثالیں:
فلک پہ یونہی تو سورج نکل نہیں آیا
ستارے جاں سے گئے تھے تو روشنی ہوئی تھی
رانا سعید دوشی
ظاہر ہے کہ خیال اس مندرجہ ذیل شعر سے ماخوذ ہے ع
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اقبال .طلوع آفتاب
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
رانا سعید دوشی
یہ غزل پوری ایک ہی کیفیت کی ہے اور. معروف شاعر شجاع خاور سے متصادم متوارد اور ماخوذ ہے..
کچھ نہیں بولا تو مر جائے گا اندر سے شجاعؔ
اور اگر بولا تو پھر باہرسے مارا جائے گا
شجاع خاور
اس موضوع پر شجاع خاور کے اور بھی بہت سے اشعار موجود ہیں ..
یا تو جو نافہم ہیں وہ بولتے ہیں ان دنوں
یا جنہیں خاموش رہنے کی سزا معلوم ہے
شجاع خاور
رانا سعید دوشی جو بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اگر وہ غزل کی طرف مکمل دھیان دیں تو بالیقیں وہ اس صنف کو چار چاند لگاسکتے ہیں اور انکے یہاں تخلیقی قوت کے بے پناہ امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا…
اتنی ملی کہ مجھ سے سنبھالی نہیں گئی
پھر بھی لگا کہ جیسے محبت نہیں ملی
سب کو اپنا سمجھنے لگتا ہوں
یہ بھی اک مسئلہ ہے ساتھ مرے
جو اک طرف ہیں جدھر چاہیں صف بہ صف ہوجائیں
مگر جو دونوں طرف ہیں وہ اک طرف ہوجائیں
کب کوئی تجھے تیری خاک سے پہچانتا ہے
وقت ہر شخص کو پوشاک سے پہچانتا ہے
ہونے دوں گا نہ کچھ بھی اس کے خلاف
میں نے دل کو زبان دی ہوئی ہے
رانا سعید دوشی
عامیانہ پن کی مثالیں
ان اشعار میں نہ تو گہرائی ہے اور نہ ہی مضمون آفرینی فقط ایک فرضی وقوعہ یا واردات کو لفظوں کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے.. ایسی گردانوں کی مثالیں دوسرے معاصر مشاعرہ بازشعرا مثلا عمران عامی وغیرہ کے یہاں بھی بکثرت مل جاتی ہیں …
تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
بس تری مان کے میں کود پڑا پانی میں
یوں ہوئے تھے مرے اوسان خطا پانی میں
سانس لینا بھی مجھے بھول گیا پانی میں
رانا سعید دوشی
جیسا کہ مشاعرہ بازی کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے العوام کالانعام …ان کی داد و تحسین ہی گمراہ کرنے لئے کافی ہے مشاعرہ بازوں کو کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں . دوسری طرف مشاعرہ باز شعرا بھی جیسے کو تیسا کے مترادف…. ان کے جزبات کو انگیخت کر کے اپنی شہرت کا بازار گرم رکھتے ہیں ..
فاعتبروا…..
رانا سعید دوشی کے مزید اشعار
دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
شہر کا شہر تعاقب میں نکل پڑتا ہے
میں سرِ آب جلاتا ہوں فقط ایک چراغ
دوسرا آپ ہی تالاب میں جل پڑتا ہے
پیاس جب توڑتی ہے سر پہ مصیبت کے پہاڑ
کوئی چشمہ میری آنکھوں سے ابل پڑتا ہے
رانا سعید دوشی کی ایک خوبصورت غزل
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا
میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا
نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبّت میں مارا جاؤں گا
رانا سعید دوشی