کالم ایک صحافتی اظہار یہ ہے ۔۔"کالم "کے لغوی معنی قطار، کھمبا ،ستون، مینار اور صفحہ کا حصہ ہیں ۔۔انگریزی میں یہ لفظ فوج سے آیا ہے یہاں فوج کے ایک نظم کے ساتھ کھڑے ہونے یا چلنے کو کالم کہا جاتا ہے۔۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری کا شمار خود بڑے صحافی اور صحافت کی اساتذہ میں ہوتا ہے ۔۔۔وہ اپنی کتاب "اردو کالم نویسی" میں کالم کی تعریف اور وضاحت انتہائی آسان الفاظ میں یوں کرتے ہیں ۔
" روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات انسانوں کے غیر متوازن رویوں یا غیر معتدل بچوں پر کالم نگار ہلکے پھلکے، قدر شگفتہ انداز میں روشنی ڈالتا ہے اور کہیں کہیں صورتحال کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح کا حربہ استعمال کرتا ہے ۔۔۔دور حاضر کی اردو صحافت میں خبر ،اداریہ اور فیچر کے ساتھ ساتھ کالم کو بھی اخبار کی کلیدی ضرورت اور اہمیت حاصل ہے۔دور حاضر کا اخبار کالم کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے ۔۔
کالم کے اسلوب سے متعلق یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کالم مزاحیہ بھی ہو سکتا ہے اور سنجیدہ بھی ۔۔۔یہ کسی ایک مخصوص موضوع پر بھی ہوسکتا ہے اور اس میں مختلف اخلاق و آداب اور دوسرے امور پر کسی قسم کی بحث ،دلائل اور مشورے بھی ہو سکتے ہیں۔۔
یہاں تک کا علم کا تعلق ہے۔ اس کی عمر ایک دن ہوتی ہے۔۔لیکن جن کالموں میں ادبیت پائی جاتی ہے وہ قاری کو تا دیر مسحور کئے رکھتے ہیں ۔۔دور حاضر میں کالم کی صنف نے بہت مقبولیت حاصل کی ہے اس کی وجہ ایک وجہ تو اس صنف کا مزاج ہے جو بے تکلفی سے عبارت ہے اور جس سے اس کی مطالعلگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔۔دوسرا سبب اس صنف کے دامن کی وسعت ہے۔۔جس میں ہر موضوع کو "جائے بیان" مل جاتی ہے ۔اردو ادب میں مختلف اثرات کا لازوال شاہکار موجود ہیں ۔شاعری افسانہ نگاری مکتوب نگاری تنقید نگاری وغیرہ کے ذریعے فنکاروں نے اپنے فن کے جلوے دکھائے ہیں ۔اسی طرح ادب کے افق پر کچھ فنکار ایسے بھی نمودار ہوئے جنہوں نے کالم نگاری کو مافی
الضمیر کی ادائیگی کا وسیلہ بنایا ۔اور اس کے ذریعہ سماج کے مختلف مسائل اور ادب کی گوناں گوں جہات پر لکھنے کی روایت قائم کی ۔۔ فیصل آباد اس حوالے سے بڑا بد قسمت رہا کہ ایوب خان ،ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق نے یہاں کے مالکان اور کارکنان صحافیوں کو مراعات نہیں مگر تمام مالکان ان معیاری صحافت کے حوالے سے اپنی کوئی خاص پہچان پیدا نہ کر سکے۔۔
اخبارات میں کالم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ۔۔روزانہ اخبارات میں سے بہت سے مستقل کالم چھپتے ہیں ۔اور ان کالموں کے قارئین بھی مستقل ہیں ۔۔جو انہیں روزانہ پڑھتے ہیں ۔۔فیصل آباد بھی ایک اہم صحافتی مرکز ہے یہاں سے شائع ہونے والے اخبارات میں بھی کالم شائع ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔فیصل آباد سے متعلق کالم نگاروں میں حسن نثار،رفعت سروش ، ۔ شبیر احمد قادری ،ریاض احمد پرواز ، یوسف سپرا ،ڈاکٹر غلام حسین زاہد ،پروفیسرغلام شوق، رانا طارق سرور، علی اختر ،اعجاز تبسم، ریاض احمد قادری ، رانا ریاض احمد ،احمد شہباز خاور ، ملک یٰسین ، اظہار احمد گلزار ، اشرف اشعری اور رانا محمّد گلزار خان کپور تھلوی کے نام نمایاں ہیں
قبلہ والد گرامی رانا محمّد گلزار خان کپور تھلوی ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ایک درد دل رکھنے والے صاف گو ، اور جری تخلیق کار تھے ۔۔۔،رانا محمّد گلزار کپور تھلوی ایک سرکاری ملازم تھے اور ملازمت کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے اپنا تعلق جوڑے رکھا ۔۔۔۔فکری طور پر وہ ایک کہانی کار اور کالم نگار تھے ۔۔۔رانا گلزار کپور تھلوی کو کالم نگاری کی طرف مائل کرنے کا تمام کریڈٹ روزنامہ " ڈیلی بزنس رپورٹ " کے ایڈیٹر اور مالک عبد الرشید غازی کو جاتا ہے ۔ جنہوں نے ان کو اخبار میں کالم لکھنے کی طرف مائل کیا ۔۔وہ ڈیلی بزنس رپورٹ کے دفتر میں آ کر فارغ وقت گزارتے تھے ۔کیوں کہ ان کا محکمہ ڈیلی بزنس رپورٹ کے دفتر کے سامنے تھا ۔۔وہیں سے انھوں نے کالم نگاری شروع کی ۔۔' کہانی کار تو پہلے ہی تھے ۔۔۔۔۔۔
رانا محمّد گلزار خان کپور تھلوی کے کالم شگفتہ اور لطیف پیراے انداز میں گندھے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ کالم ہلکے پھلکے انداز میں سفر کرتے ہیں مگر ان کے باطن میں ایک ایسی فکر رواں دواں تھی ، جس کا اندازہ کالموں کے ان موضوعات سے ہوتا ہے جو ان کے کالموں کے اندر کی صورتحال کو اجاگر کرتے ہیں ۔۔ان کے یہ کالم ڈیلی بزنس رپورٹ میں تسلسل سے شائع ہوتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اظہار خیال کے لئے معاشرے کے چھوٹے سے مگر اہم موضوعات کو منتخب کیا ۔۔رانا صاحب کا قلم۔ ۔۔۔۔قلم کے بجائے ایک ایسا نشتر ہے جو معاشرتی ناہمواری کے پودے کو کاٹ ڈالنے میں مصروف رہا ۔۔انہوں نے اپنی تحریروں میں سماج کے مکروہ چہرے پر بے انتہا تھپڑ رسید کیے ہیں ۔۔۔ان کے کالم محض کالم ہی نہیں بلکہ ٹوٹتی بکھرتی قدروں کے نوحے ہیں ۔۔سماجی معاشرتی زوال کے مرثیہ ہیں ۔۔۔ماحول میں بکھری ہوئی فضائی، سماجی، روحانی اور معاشی آلودگی کے کرب ہیں۔۔
رانا محمد گلزار خان نے کالم روشنائی سے نہیں بلکہ اپنے خون جگر سے لکھے ہیں ۔۔۔رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی کا مقصد صرف ایک ہوتا تھا کہ کس طرح لوگوں کی معیار زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے ۔ اور کس طرح لوگوں کے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کیا جا سکتی ہیں ۔۔ان کے موضوعات برائے راست عوام کی زندگی سے متعلق ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی جنون کا وہ مسافر تھا جو خود بخود نہیں سمٹتا تھا بلکہ اسے دیکھ کر لمحے سمٹ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی کاری اور افسانہ نگاری کے حوالے سے رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی کا نام ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا ۔۔
موت کا سیلِ رواں ہر جان دار کو خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتا ہے ،یہی قضا و قدر کا فیصلہ اورفطرت کا اصول ہے لیکن کچھ ابد آشنا انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دم سے ہمارا وجود زندہ رہتا ہے ۔۔جن کو دیکھ کر ہم زندہ رہتے ہیں ۔۔جن کی خوشبو سے ہمارا دل و دماغ معطر رہتا ہے ۔۔ جو موت کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ موت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور ان کی نیکیوں،انسانیت کی بے لوث خدمت اور دردِ دِل کے اعجاز سے لوح ِجہاں پر ان کا دوام ثبت ہو چکا ہے ۔ایسی سراپا رحمت و برکت ہستیاں جب دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو اُن کے چلے جانے کے بعد ہمارا وجود اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ ہمارے رفتگاں کی یادیں جب تک ہمارے دِلوں میں موجود ہیں وہ زندہ رہیں گے اور موت اُن کی ہمہ گیر مقبولیت اوردائمی فیض رسانی کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوسکتی۔
کیسے کہوں کہ سانس سے میں زندہ ہوں
جب کہ سانس سے پہلے تیری یاد آتی ہے
اللہ پاک ان کی تربت پر اپنی کروڑ ہا رحمتوں کا نزول کرے اور ان کو درجات کی بلندی سے نوازے ۔۔۔آمین۔ ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
“