جن سے روشن ہو دل کی دنیا
وہ آدمی ماہتاب ہوتے ہیں
میرے والد گرامی قبلہ رانا محمّد گلزار خاں مرحوم کے ایک عزیز دوست ماسٹر بھا بشیر احمد جو ایک ہی گاؤں اور ایک ہی محکمہ سے تعلق ہوتے ہوے ساری زندگی محبّت و اخلاص اور احترام کے لازوال رشتہ سے منسلک رھے۔ ۔میں چھوٹا تھا تو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ماسٹر بشیر کس شعبہ کے "ماسٹر" ہیں۔ ۔۔کیوں کہ ہمارے ہاں صرف اسکول میں پڑھانے والے ہی کو ماسٹر کہا جاتا رہا ہے۔۔پھر جب میں اپنے ابّا کے ساتھ ان کے محکمہ جاتا تو ابّا نے بتایا کہ بھا بشیر بسوں ،گاڑیوں کے بہت منجھے ہوے مکینک ہیں۔ ۔اس طرح ایک ہی گاؤں ، ایک ہی محکمہ اور پڑوس میں رہنے کی وجہ سے میرے ابّا گپ شپ کے لیے ماسٹر بشیر کو ڈھونڈھ ہی لیتے تھے۔ ۔۔۔۔۔ایسے ہی، میں اپنے ابّا کے دوستوں کا دوست بن گیا تھا۔۔ابّا جان مجھے اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ ۔یہی وجہ ہے کہ ابّا کا کوئی اکا دکا دوست اگر بقید حیات ہے تو مجھے ان کو دیکھ کر ، ان سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ ۔کیوں کہ مجھے اپنے جنّتی ابّا کی خوشبو ان لوگوں کے وجود سے آتی تھی ۔ ۔۔میرے ابّا کا کوئی دوست اگر نظر آ جاتا ہے تو میں باغ باغ ہی نہیں " گلزار گلزار " ھو جاتا تھا اور میرا پورا وجود خوشی سے سرشار ھو جاتا تھا ۔۔۔کیوں کہ یہی میرے عظیم باپ نے مجھے تربیت دی ہے۔ ۔۔ ایسے بے لوث محبّت کرنے والے لوگ اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں ۔۔بھا بشیر ، بھا نذیر ، بابا منشی ، آپاں بالاں ،بابا طفیل ، ماسی صغراں ، بھا اقبال اور فقیر حسین مرحوم اس قبیل سے منسلک تمام کرداروں نے اپنی اپنی جگہ پر ہمدرد اور بھائی چارے کی فضا قائم کرتے ہوۓ خدمت گزاری کی ایک ابدی مثال قائم کر دی ۔۔۔
مائی نوراں، بھا بشیر کی دادی سے لے کر ماسی صغراں کی بھٹھی تک۔۔۔ان کی بھٹھی کے اوقات کے بعد شام ڈھلتے ہی نوجوانوں کا ہجوم لگ جاتا جو رات گئے تک لگا رہتا ۔۔۔اگرچہ ہم نے ماں نوراں کو نہیں دیکھا مگر بزرگوں کی بتائی باتیں سن کر میں اسی زمانے میں گھومتا ، چلتا پھرتا محسوس کر رہا ہوں ۔۔۔وہ تمام کردار چلتے پھرتے ، روتے مسکراتے ، خوش گپیاں لگاتے نظر آ رہے ہیں ۔۔۔۔
جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں
(حبیب جالب )
بھا بشیر احمد اور میرے والد بزرگوار رانا محمّد گلزار خان دونوں نے جی – ٹی- ایس کے محکمہ میں بتیس چونتیس سال اپنی خدمات سر انجام دیں ہیں ۔۔۔۔اسی وجہ سے بھا بشیر احمد ، میرے والد گرامی رانا محمّد گلزار خان کے عزیز ترین دوستوں میں شامل تھے ۔۔۔۔میں نے اپنے ابا کے ساتھ بھا بشیر کو گھنٹوں تاش کھیلتے اور گپ شپ لگاتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ماسٹر بشیر احمد موٹر گاڑیوں کے بہت منجھے ہوۓ مکینک تھے ۔۔۔۔محکمہ والے ان کے فن کو مانتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جب بھی کبھی اپنے ابا کے ساتھ ان کے محکمہ میں گیا تو ماسٹر بشیر احمد کسی نہ کسی گاڑی کی مرمت کرنے میں مصروف ہوتا ۔۔۔۔۔۔میں اپنے ابا کو اکثر ملنے ان کے محکمہ میں چلا جایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔میرے ابا نے اس محکمہ میں بتیس سال بطور بس کنڈیکٹر ی کر کے ہمیں ایک با عزت مقام پر پہنچایا ۔۔۔۔محنت و اخلاص اور جدوجہد کی جیتی جاگتی تصویر جس کی ہمت اور محنت کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔کنڈیکٹری کوئی آسان نوکری نہیں تھی ، راتوں کے جگراتے بھوگنے پڑتے ہیں ۔۔لیکن انھوں نے اپنی صحت کی پروا کیے بغیر ہمارے سکھ کے لیے کچھ اس طرح " چوسراں تیسراں " لگائیں کہ کبھی کبھار ہمیں شک ہونے لگ جاتا کہ شاید وہ نہ تھکنے والی کوئی مشین ہیں ۔۔۔
سارا سارا مسافروں کے چہروں پر لکھی ہوئی تحریریں پڑھ پڑھ کر ابا آپ ہمارے لیے ایک دلچسپ اور دلکش تحریر بن گیا تھا ۔۔۔۔ایسی تحریر جو کسی کتاب سے نہیں ملتی ۔۔۔زندگی کو سلیقے اور سہپن سے گزارنے والی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے پروار کی جھولی کی جھولی میں زمانے کی خوشیاں ڈالنے کا جتن کرتے ہوۓ جب کوئی ان کو یہ کہہ دیتا ۔۔۔۔۔" ابا ! آپ اتنی محنت نہ کیا کریں ۔۔۔چوسر کے چکر میں نہ پڑا کریں ۔۔۔اب آپ کی صحت پہلے جیسی نہیں ۔۔تو سن کر بہت اداس دل سے کہتا ۔۔بھلیو ۔۔میں سب یہ کس کے لیے کرتا پھرتا ہوں ۔۔میں اپنی زندگی میں سب ادھورے رہ جانے والے خواب تمھاری آنکھوں میں دیکھنا چاہتا ہوں "۔۔۔۔
ماسٹر بشیر احمد ، میرے ابا کا حد درجہ احترام کرتے تھے ۔۔۔۔۔آج چپکے سے دونوں عظیم پیاری ہستیوں کی یاد شدت سے آئی تو سوچا، یادوں کو قلمبند کر دینا چاہیے ۔۔۔۔۔میرے ابا جی 6/ اکتوبر 1996 کو اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی جانب سدھار گئے لیکن ان کی رحلت کے بعد بھی ماسٹر بشیر احمد نے میرے ساتھ تعلق استوار رکھا ۔۔میرے ابا کی طرح میرے ساتھ پیار اور احترام کیا ۔۔۔۔۔۔مجھے جب بھی اپنے گاؤں 87 گ ب جانا ہوتا ، میری مصروفیات میں ایک مصروفیت یہ بھی ہوتی کہ میں نے ماسٹر بشیر احمد کو بھی ملنا ہے ۔۔۔۔جب ماسٹر بشیر سے ملاقات ہوتی تو میرا پورا وجود خوشی سے سرشار اور نہال ہو جاتا ۔۔۔۔ماسٹر بشیر ہمارے گھر کے ایک ایک فرد کے احوال پوچھتے جاتے اور خریت سن کر بار بار دعا دیتے ۔۔۔۔اور میرے ابا کو یاد کرتے ہوۓ کہتے کہ آج اگر بھائی گلزار ہوتا تو وہ وہ آپ کی خوشیاں دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ۔۔۔۔اس کی باتیں سن کر میری آنکھیں نم ہو جاتیں ۔۔۔۔۔کہ ایسے درد مند لوگ موجود ہیں جو دوسروں کو اپنی دعاؤں میں شامل رکھنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں ۔۔۔
درد مند اور پیکر اخلاص ؤ مروت انسان ماسٹر بھا بشیر احمد بھی 9/ جنوری 2020 ع نئے سال کے ابتدا میں ہی دار فنا سے دار بقا کی طرف سدھار گئے ۔۔۔۔۔۔۔اس طرح ایک اور محبّت کرنے والا میری فہرست سے کم ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ایسے نیک طینت ، سراپا خلوص ؤ وفا لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہوتے جا رہے ہیں ۔۔۔ اللہ کریم ان عاشق صادق بندوں کو جنّت الفردوس میں بلند مقام دے اوران کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمانا ۔۔۔۔۔آمین۔
تمہارے بعد باقی اور تو سب ٹھیک ہے لیکن
جہاں دل تھا کبھی پہلے، وہاں اب درد رہتا ہے