*ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم*
نعت خوانی کے مقدس ذوق کو سات عشرؤں سے اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے ممتاز نعت خواں اور دانشور رانا دلدار احمد قادری نے 16/ جون 2014ع بمطابق 17/ شعبان المعظم 1434 ہجری بروز سوموار کوچ کے لیے اپنا رخت سفر باندھ لیا ۔۔۔۔۔۔1940ع کو ھندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک گاؤں شاہ پور میں رانا نیاز احمد خاں ولد چودھری مولا بخش کے گھر جنم لینے والے اس نابغہ روزگار دانشور اور بے مثل نعت خواں نے اپنی خوبصورت آواز اور لحن داؤدی کی بدولت اپنے شہر اور علاقہ میں اپنی ڈھاک بٹھائی ۔۔۔۔۔۔چک 66 ج – ب دھاندرہ کی ذیلی آبادی اسلام پور ، جھنگ روڈ فیصل آباد کے ایئر پورٹ سے ملحقہ شہر خموشاں کی زمین نے نعت خوانی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔۔۔۔ان کی رحلت سے آسمان نعت خوانی ایک ایسے عاشق ؤ صادق نعت خواں سے محروم ہو گئ جس نے اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے سات عشروں سے زائد گراں قدر خدمات انجام دیں ۔۔۔۔
نعت پڑھنا، نعت سننا اور نعت لکھنا یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے۔۔ قرآن و سنت پر عمل کرنا ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔۔نعت پڑھنا، لکھنا اور نعت سننا یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔۔ اللہ تعالی کی ذات جسے چاہتی ہے اسے" ورفعنالک ذکرک" کے عمل میں مصروف کر لیتی ہے ۔ورنہ توصیف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سننے، پڑھنے اور لکھنے کے لیے کسی میں بھی ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی کھوئی ہوئی معراج کو پا لیتا ہے ۔۔۔۔
نعت ایک ایسا جام ہے کہ جس کا چشمہ نعت خواں کے دل کے اتھاہ گوشے سے پھوٹتا ہے اور عاشقان رسولؐ کی تشنگی کو بجھاتا ہے۔ نعت کا اک اک شعرپیارے نبی سے محبت و عقیدت کی جھلک دیتا ہے۔
رانا دلدار احمد قادری کا شمار ان عاشقان نعت اور عاشقان مدینہ میں ہوتا تھا جنہوں نے ساری زندگی آقائے دو جہان سرکار مدینہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور توصیف و ثنا کے ترانے پڑھنا اپنے لیے باعث اعزاز و افتخار سمجھا ۔۔۔۔ انھوں نے بنی نوع انسان سے ٹوٹ کر محبت کی اور زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔۔
رانا دلدار احمد خان قادری نے اپنی ذاتی محنت ،لگن اور انسانیت سے پیار کی بدولت جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی ،اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔۔۔ایک ایسے یگانہ روزگار فاضل کا ہماری محفل سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔۔وہ اپنے عہد کے نابغہ تھے ۔۔ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے ،وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔
اس عہد کے سب چاند چہرے دائمی مفارقت دے گئے، کیسے کیسے آفتاب و مہتاب زیر زمین چلے گئے ۔۔ کتنے بلندو بالا آسمان زمین نے نگل لئے ۔۔۔اجل کے اس چاک کو سوزن تدبیر سے رفو کرنا ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ساری زندگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور توصیف و ثنا کے ترانے پڑھنے والا سچا عاشق ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔۔۔نعت خوانی کی دنیا میں سات عشروں سے زائد اپنی خوبصورت آواز سے قلوب و اذہان کی تطہیر و تنویر کا سامان بہم پہنچانے والی ہستی اپنے لاکھوں مداحوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں جا بسی ہے۔۔یہ دنیا ہم سے اتنی دور ہے کہ ہم اپنی بقیہ زندگی صرف یاد رفتگان میں گزارنے پر مجبور ہیں ۔۔۔
رانا دلدار احمد قادری نے 1970 ع میں پی- اے َ- ایف لائل۔ پور ( فیصل آباد) سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور سن 2000 میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے یہیں سے ریٹائر ہوئے ۔۔۔
انھوں نے اپنا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا تھا ۔۔بچپن ہی سے آپ کے والدین نے آپ کے دل و دماغ میں دین متین کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی ۔۔ان کے والد رانا نیاز احمد خان نے انہیں چھے سات سال کی عمر میں ا اپنے گاؤں چک 241 ر – ب ، چنچل سنگھ والا میں پنے ہمسائے میں رہائش پذیر ایک درویش صفت امام مسجد پیر سید علی محمد شاہ سے قرآن پاک پڑھنے کی غرض سے ان کی شاگردی میں دے دیا تاکہ یہ قرآن مجید کی تعلیمات کو پڑھ اور سمجھ سکیں اور ساتھ ساتھ احادیث کے تراجم کو بھی اچھی طرح سمجھ سکیں ۔۔۔پیر سید علی محمد شاہ کی نگاہ کیمیا نے رانا دلدار احمد قادری کے قلب و روح میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کا شغف بھی پیدا کر دیا ۔۔۔۔پیر سید علی محمد شاہ بہت عالم باعمل انسان تھے اور وہ چک 241 ر – ب ،چنچل سنگھ والا کی مسجد کے پیش امام تھے ۔شاہ صاحب کا وصال 110 سال کی عمر میں ہوا ۔۔تقویٰ و پرہیزگاری اور ربی خوف، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبّت میں ہر وقت مستغرق رہنا شاہ صاحب پر اللہ پاک کا خاص انعام رہا ہے ۔۔۔۔۔چچل سنگھ والا کی جامعہ مسجد سے ملحق ان کا مزار پر انوار ہے ۔۔پیر سید علی محمد شاہ کی قربت اور فیضان نظر سے رانا صاحب کی باطنی اور روحانی تربیت کا آغاز ہوا ، جس نے آنے والی زندگی کے لیے سنگ میل کا کام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پیر علی محمد شاہ کی چٹک ،حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے رانا دلدار احمد قادری کے قلب و روح میں نعت خوانی کا شغف راسخ ہو گیا جو مرتے دم تک انھوں نے حرز جان بنائے رکھا۔۔۔
جوں جوں وقت آگے بڑھتا چلا گیا ، رانا دلدار احمد خاں قادری کا فن نعت بھی نکھرتا چلا گیا ۔۔شوق و عقیدت کے راستے پر چلتے ہوئے ان کا تعلق بے شمار مذہبی ، دینی اور علمی شخصیات سے بڑھتا چلا گیا ۔۔۔انھیں شخصیات میں سے رانا دلدار احمد قادری کا تعلق خاطر اپنے علاقہ رسالہ والا کی ایک ایسی شخصیت سے ہوا، جن کے ساتھ رانا صاحب نے چالیس سال کا عرصہ مضبوط بنیادوں پر گزارا ۔۔ان کی دوستی ،رفاقت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ لوگ دونوں کی دوستی کی مثالیں دیتے تھے ۔۔۔۔اس ہستی کو لوگ پیر سید مشتاق حسین شاہ کے نام سے جانتے ہیں ۔۔
پیر سید مشتاق حسین شاہ کے آستانہ عالیہ ولی آباد شریف رسالے والا فیصل آباد سے رانا صاحب کا تعلق تا دم۔ مرگ رہا۔۔۔ رانا صاحب ان کے منظور نظر تھے اور سادی زندگی اپنا رابطہ آستانہ سے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ان دونوں دوستوں نے اپنی زندگی میں معرفت کی تلاش کے لیے پیر آف دیول شریف راولپنڈی والے پیر عبدالمجید صاحب کے دست مبارک پر بیعت کرکے اپنی دوستی کو مزید مستحکم کرلیا ۔۔۔پھر ان دونوں دوستوں نے اپنے علاقہ کے نگر نگر ،گاؤں گاؤں جا کر تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا ۔۔دونوں دوست دین متین کی تبلیغ عبادت سمجھ کر کرنے لگے ۔۔۔لوگوں کو معرفت الہی اور اللہ تعالی کے احکامات ، امر بالمعروف اور نہی المنکر کی تبلیغ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ۔۔۔۔۔سید مشتاق حسین شاہ قرآن مجید کے حافظ تھے اور بصارت سے محروم تھے ۔۔ رانا دلدار احمد قادری اور سید مشتاق حسین شاہ کے خیالات سوچ اور فکر کے زاویے ایک ہی مرکز پر آ کر ٹھہرتے تھے۔۔اس لئے ان کے خیالات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔۔رانا دلدار احمد قادری اپنی بائیسکل پر شاہ صاحب کو بٹھا کر تبلیغ کے لیے نکل پڑتے اور پھر احکام الہی پورا کرکے واپس لوٹتے ۔۔۔۔۔۔
ان دونوں شخصیات کو سید عبدالمجید آف دیول شریف سے روحانی فیض ملا ۔۔رانا دلدار احمد قادری نے نعت خوانی کو اپنی زندگی کا نصب العین اور منزل سمجھ کر حرز جان بنا لیا جبکہ سید مشتاق حسین شاہ نے اپنے گاؤں میں اپنا آستانہ قائم کرکے اپنے دست حق پر بعیت کرنے کا سلسلہ شروع کر لیا ۔۔سید مشتاق حسین شاہ صاحب کی زندگی میں بے شمار افراد ان کی حلقہ مریدی میں شامل تھے ۔۔۔۔آج کل سید مشتاق حسین شاہ کے بیٹے سید غلام محی الدین شاہ ان کی خلافت کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ان کے مریدین ان کے دست پر بیعت یافتہ ہیں ۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری کے فرزندِ اکبر' رانا ریاض احمد خان اور ان کی فیملی کے بیشتر افراد پیر سید غلام محی الدین شاہ کے دست حق پر بعیت یافتہ ہیں ۔۔جو انھیں معرفت الہی کے رموز ، ربی خوف اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منازل کا راستہ بتاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔
ان کی پڑھی ہوئی منقبت "کربل وچ ذبح کیتا سید شبیر نوں، تیراں نال پچھیا نوری تصویر نوں" ہر سال دس محرم کو آستانہ ولی آباد شریف رسالے والا ، فیصل آباد میں منعقدہ محفل میں پیش ہوتی تھی۔ان کی پڑھی منقبت کے بغیر محفل مکمل نہیں ہوتی تھی ۔۔
رانا دلدار احمد قادری کی زندگی محنت و جدوجہد کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔۔۔۔اپنی پی۔ اے۔ایف کی ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی سے واپسی پر اپنے والد اور تینوں چھوٹے بھائیوں رانا عزیز احمد ، رانا منور حسین اور نصراللہ خان کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے
رانا دلدار احمد قادری کے بڑے بیٹے رانا ریاض احمد خاں اپنے والد کے اس عظیم روحانی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور نعت خوانی کی محافل میں جذب و شوق کے ساتھ حاضر ہو۔ کر نعتیں پڑھتے ہیں ۔۔ان کی آواز میں اپنے والد رانا دلدار احمد قادری جیسا سوز اور شیرینی ہے۔۔ رانا ریاض احمد کے تمام چھوٹے بھائی بھی اپنے والد رانا دلدار احمد قادری کے اس عظیم مشن نعت خوانی کو دل سے پسند کرتے ہوئے اپنے والد کی پیروی میں اس مقدس فریضہ کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں ۔۔۔یہ تمام بھائی رانا ریاض احمد خان سے لے کر رانا افضال احمد ساغر ، رانا اصغر علی خاں ،رانا محمّد سلیم خاں ، رانا شکیل انجم اور رانا فیاض دلدار اور ان کی بہنیں بھی اس پاکیزہ مشن کو اپنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔جب کبھی رانا دلدار احمد قادری کے گھر کوئی محفل برپا ہوتی ہے تو ان کے تمام صاحبزادگان باری باری نعت خوانی کر کے اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کرتے ہیں ان کا گھرانہ ایک نعت اکیڈمی کی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ رانا صاحب نے خود بھی شوق کی بنا پر نعتیں پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی شوق کی بنا پر پڑھنے کی نصیحت وصیحت کی تھی ۔۔جس پر ان کی اولاد عمل پیرا ہے ۔۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری ساری زندگی کمرشل نعت خوانی کے خلاف رہے اس لئے لوگ ان کو بلا جھجک اپنی محفل میں بلا کر اپنی محافل کو زینت بخشتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا دلدار احمد قادری کا شعبہ نعت خوانی ہے ۔۔آپ کو اللہ تعالی نے لحن داؤدی سے نوازا تھا۔۔ آپ نے ساری زندگی اپنے ہمسائے میں مسجد " المعروف مائی دی مسیت" میں فجر کی اذان دی ۔۔اور تا دم مرگ یہ سلسلہ جاری رہا ۔۔آپ کی آواز میں سوز اور رقت کے ساتھ ساتھ شرینی اور مٹھاس ہوتی تھی کہ لوگ بے اختیار بستروں سے نکل کر مسجد کا رخ کر لیتے تھے ۔۔۔۔اس کے علاوہ دیگر نمازوں کی اذان دینے میں بھی آپ پیش پیش رہے ۔۔شاید ہی کبھی آپ کہیں گئے ہوں تو کسی دوسرے شخص نے اذان دے دی ہو ۔۔۔۔تکبیر اولی میں نماز پڑھنے والوں میں آپ کا اسم گرامی سب سے پہلے لیے جاتا تھا ۔۔۔۔۔ایسے سادہ ، منکسر المزاج ، خلیق ، حلیم ، سراپا اخلاص و اخلاق شخص میں نے اپنی زندگی میں کم دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہر وقت خوف خدا کو پیش نظر رکھنا ، لوگوں کی دل آزاری سے بچنا رانا دلدار احمد کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
ہمارے نزدیک نعتیہ کلام کی ادائیگی بہت معتبر ہے جسے سن کر اول روح و بدن با ادب ہو جائیں۔۔ دل میں سوز و گداز پیدا ہوکر رقت طاری ہونے لگے ،جو دل میں حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری کو ہوا دے کر دھیمی دھیمی آنچ سی لگا دے ۔۔جسے سن کر آپ کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی نسبت رکھنے والی ہر شے سے والہانہ محبت محسوس ہونے لگے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تڑپ پیدا ہو جائے۔۔ جسے سن کر بے ساختہ آپ کے لب حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ثنا خوانی کرنے لگے ۔۔اور یہ تمام کیفیات ہمیں رانا دلدار احمد قادری کی پر سوز آواز میں آقائے دو جہان سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت و ثنا کرتے ہوئے محسوس ہوتی تھیں ۔۔ساری زندگی سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کے ترانے پڑھنے والی زبان کی آواز میں بلا کیسے حلاوت اور سو نہ آئے ۔۔۔وہ تو دل کی دنیا بدل دینے والے ایک سچے عاشق نعت اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ۔۔۔وہ نعتوں کی ادائیگی ، ان کے طرز بیان کے لئے اپنے پڑھنے والی نعتوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ ان کے نزدیک ایسی نعتیں جہاں بے ساختہ اظہار کے بجائے بناوٹ ہو ،اور محبت میں ڈوب کر پڑھنے کے بجائے فن میں ڈوب کر ادائیگی کی فکر ہو اور اس سے بڑھ کر جہاں کلام کے با ادب الفاظ سے زیادہ دھن اور سوز سے زیادہ ساز پر دھیان ہو تو ایسی نعتوں کا انتخاب کرتے وقت رانا دلدار احمد قادری احتراز کرتے تھے ۔۔ان کے نزدیک نعت کا ایک ایک شعر پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کی جھلک دے اور نعت خوانی کرتے وقت پتہ چلے کہ کس نے محبت کے تقاضوں کی کتنی پاسداری کی ہے ۔۔۔رانا دلدار احمد قادری ایک سچے عاشق رسول ،خوش الحان نعت خواں کے نزدیک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادائیگی بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔۔وہ کہا کرتے تھے کہ گانوں کی دھنوں پر نعت کے سر بنانے سے بہتر ہے کہ ایسا نعت خواں گانا گا کر گزارا کر لے ۔۔۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری نعت خوانی کے شعبہ کے ایسے سچے نگینے تھے جو ہمیشہ کمرشل اپروچ کے سخت مخالف رہے ۔۔۔انھوں نے ہمیشہ نعت خوانی کو عقیدت و الفت کا دوسرا نام دیا ہے اور تمام عمر اسی پر وہ کاربند رہے ۔۔۔۔
محترم چچا رانا دلدار احمد خاں قادری ، جن کی ساری زندگی آقائے دو جہاں سرور کون و مکاں صل اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدحت کے ترانے گاتے ہوئے گزری ۔۔کل ان کی برسی تھی تو ان کی یاد شدت سے آئی ۔۔
سات عشروں سے نعت خوانی کرتے ہوئے گزار دی ۔۔۔اپنی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ انھوں نے نعت خوانی کو عقیدت و الفت کے ساتھ خوب نبھایا ۔۔۔آج کے پروفیشنل نعت خوانوں کی طرح وہ نوٹوں کی چمک دیکھ کر نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ نعت کو عشق و عقیدت کے طور پر پڑھا کرتے تھے ۔۔۔ایک سچے عاشق نعت ،عاشق مدینہ اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر آپ کی پوری زندگی بسر ہوئی ۔۔۔۔
رانا دلدار احمد خاں قادری نے اپنی پڑھی گئی نعتوں کے حوالے سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی و نفاست ، حسن اخلاق ،اسوۂ حسنہ، جلال و جمال، معجزات و کمالات، اختیارات و تصرفات، جود و سخا، عفو ودرگزر، لطف و عطاکے علاوہ فراقِ حبیب (ﷺ)، ہجرِ دربارِ رسول(ﷺ) ، آپ سے استغاثہ و فریاد ، احساسِ گناہ، شفاعت طلبی، اصلاحِ معاشرہ، انقلابِ امت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔۔ان کی شیریں آواز سے ادا ہونے والی ساری نعتیں ہمارے مشامِ جاں کو معطر کرتی چلی جاتی ہیں ۔
میرا ان کے ساتھ عزیز داری کے علاوہ نیازمندی کا تعلق بھی تھا ۔۔اکثر محفل نعت میں