(قرآن و احادیث ِ نبوی ﷺ کی روشنی میں)
یہ رحمت ہے خدا کی، اپنا جو عرفان بخشاہے
ہماری بخششوں ہی کیلئے رمضان بخشا ہے
اتاریں سب کتابیں آسمانی اس مہینے میں
جو قرآن ِ مجسم ہیں ، انہیں قرآن بخشا ہے
ہے کفارہ یہ روزہ سب گناہوں کا، تو پھر مانو
خدا نے روزے داروں کو علی الاعلان بخشا ہے
ثواب و اجر روزے کاہے کیا؟یہ تو خدا جانے
کُھلیں گے در خزائن کے یہ اطمینان بخشاہے
وہ سحری ہو یا افطاری، ضیافت جسم و جاں کی ہے
سجاکر نعمتوں سے رب نے دستر خوان بخشاہے
ہراک نیکی کا ہے ستر گنا اجر و ثواب اس میں
ہماری بخششوں ہی کے لئے رمضان بخشا ہے
ہے اس میں روزے داروں کے لئے دُہری خوشی مضمر
خدانے اپنی خوشنودی کا بھی سامان بخشاہے
ہے ڈھال ایسی بچاتی ہے برائی اور دوزخ سے
نہیں لُٹ سکتا جو سرمایہ ء ایمان بخشاہے
جہاد ِ نفس کا مقصد نری پرہیز گاری ہے
کٹھن منزل سہی پر راستہ آسان بخشاہے
ہے مالا مال اس کا پہلا عشرہ بھی تو رحمت سے
یہ عشرہ اس نے اپنی شان کے شایان بخشا ہے
جلا سکتی نہیں مومن کو بے شک آگ دوزخ کی
ہماری منتظر جنّت ہے،یہ ایقان بخشا ہے
جودروازے ہیں کھل جاتے ہیں جنّت اور رحمت کے
خدانے یوں بھی بخشش کا بڑا سامان بخشا ہے
جو روزے دار کے ہے منہ کی خوشبو رب کو بھاتی ہے
خدانے مرتبہ صائم کو عالی شان بخشا ہے
بہت سی نعمتیں یہ ساتھ اپنے لے کے آتاہے
خدانے تیس روزہ خوب یہ مہمان بخشا ہے
جو سچ پوچھو تو یہ سردار ہے سارے مہینوں کا
خزینوں کو لٹانے کے لئے سلطان بخشاہے
دعا افطار تک سارے فرشتے کرتے رہتے ہیں
خدانے صبر کا بھی تو اسے عنوان بخشاہے
سحرسے رات تک اور رات سے پھر دن نکلنے تک
برستی ہیں مسلسل رحمتیں،ہر آن بخشاہے
یہ روزہ کیا ہے؟سچ پوچھو زکوٰۃ اپنے بدن کی ہے
طہارت کے لئے جاں کی بڑا سامان بخشا ہے
جوروزے دار ہے،اس کی دعائیں رد نہیں ہوتیں
ذراسوچو تو رب نے کیا ہمیں ایقان بخشاہے
ہمارے دل کی آنکھیں کھول دی ہیں اِس مہینے نے
بصیرت دل کو بخشی،روح کو وِجدان بخشاہے
نوازشات کی برسات ہے،کیا بات ہے مولا
گنہگاروں کو بھی تونے بہرعنوان بخشاہے
اگر چاہیں خزانے لوٹ لیں ہم دوجہانوں کے
نہیں تنگی کوئی،اُس نے کھلا دامان بخشاہے
عبادت ہے،ریاضت ہے،مزے بھی رتجگے کے ہیں
تہجّد میں بھی لطف و کیف کاسامان بخشاہے
وہ سحری ہو یا افطاری، نری برکت ہی برکت ہے
ہماری عید کی تمہید ہے،کیاخوان بخشاہے؟
کھلیں حمداً کثیراً طیباً کہتے ہوئے کلیاں
بہاریں آئیں تو صحرا کو نخلستان بخشا ہے
چلو اشکوں سے دھولیں داغ اپنے سب گناہوں کے
جو ہے غفّار،اس نے یہ مہ ِ غُفران بخشا ہے
بجھے گی پیاس اب آ نکھوں کی دیدار ِ الہیٰ سے
کہ روزے داروں کو رب نے دَر ِ ریّان بخشا ہے
ہم اشکوں سے بجھا سکتے ہیں بے شک آگ دوزخ کی
یونہی تو آخری یہ عشرہ ءرمضان بخشا ہے
مری تسبیح ِ روز و شب ہے،جس کے دانے دانے کو
خدانے اعتبار ِ لولو و مرجان بخشا ہے
ابھی سے تھام دامان ِ نبیء رحمت ِ عالم
محمد کو خدا نے حشر کامیدان بخشاہے
خداکے در پہ دھرناہے، یقیناً اعتکاف اپنا
جو مانگو گے،وہ دے گا،جس نے یہ رمضان بخشاہے