رمضان رکشے والا
ــــــــــــــــــــ
۔
رکشے پر اے۔سی لادے وہ میرے فلیٹ کے نیچے کھڑا تھا۔ سر میں کب سے یہ بلاک تلاش کر رہا تھا، اوپر سے آپکا فون۔ اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔
کوئی بندہ ملے گا ادھر، یہ اے سی تھوڑا بھاری ہے، اس نے پھر میری طرف دیکھا۔
میں نے آگے بڑھ کر دوسری جانب سے کارٹن کو ہاتھ ڈال دیا۔
لفٹ سے دوسری منزل پر میرے فلیٹ تک کارٹن کو گھسیٹتے ہوئے ہم دونوں ہانپنے لگے۔
یہاں ادھر ہی رکھ دو، میں نے اس سے کہا۔
روزہ ہے تمہارا؟ میں نے کیژوئلی پوچھا
وہ جھجک گیا، نن ۔ ۔ نہیں جی ، وہ نہیں ہے۔
اچھا، پھر پانی پی لو، میں نے اندر کی طرف اشارہ کیا۔
نہیں جی، ٹھیک ہے۔ آپ بس یہاں رسید پر دستخط کر دیں۔
نہیں نہیں تم اندر آجاؤ، ادھر ہی اندر میں دستخط بھی کردونگا۔
اچھا جی، وہ سر جھکائے اندر آگیا۔ کافی شرمندہ شرمندہ سا۔
پانی لاؤ ٹھنڈا، میں نے ملازمہ سے کہا۔
ملازمہ حسب معمول جام شیریں میں ٹھنڈا پانی ڈال کر لے آئی۔
وہ جی، مجھے شوگر ہے، تو سادہ پانی دے دیں بس۔
اوہ، اچھا۔ میں نے ملازمہ کو کہا، جاؤ اور سادہ پانی لے آؤ۔
اور ہاں یہ جام شیریں والا ادھر دے دو، میرے لیے، میں نے گلاس اپنے سامنے رکھ لیا۔
اس نے ایک دم سر اٹھا کر مجھے دیکھا، اور کافی سکون میں نظر آنے لگا۔ اب وہ اتنا شرمندہ بھی نہیں لگ رہا تھا۔
بس سر، گرمی بہت ہے، اور پھر شوگر ہے، بچوں کے پیٹ کے لیے کرنا پڑتا ہے روزے سے حالت بگڑ جاتی ہے، وہ اب اپنی بات سنانے لگا، ملازمہ اس کے لیے ٹھنڈا سادہ پانی کا گلاس لے آئی تھی۔
ہاں بالکل، گرمی بہت ہے۔ اب میرے جیسے گھر بیٹھے نہیں رکھتے روزہ، گرمی کی وجہ سے، آپ تو پھر کام کرتے ہو، آج درجہ حرارت 47 تھا شائد، میں نے کہا اور اپنے گلاس کو ایک سائیڈ پر کھسکا کر رسید پر دستخط کیے اور اسکی جانب بڑھا دی۔
اس نے سلام کیا اور رخصت ہو گیا۔
ملازمہ دروازہ بند کر کے مڑی تو میں نے جام شیریں کا گلاس اسکی طرف بڑھایا، یہ فریج میں رکھ دو، افطار کے لیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“