رمضان میں ہزاروں، لاکھوں ٹن کھجوریں استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ان کی گٹھلیاں جمع کرکے محکمہ زراعت یا فوج کے طیاروں، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چولستان، تھل، تھر اور دوسرے ریتلے علاقوں میں بکھیر دی جائیں تو قوی امکان ہے کہ بے شمار نخلستان وجود میں آجائیں۔
یہ تجویز پہلے بھی دی تو کہا گیا پانی کے بغیر پودے کیسے اگیں گے؟ دیکھ بھال کے بغیر پھل پھول نہیں سکیں گے۔ ایسے اگنے والے درختوں سے اچھا (خوش ذائقہ) پھل نہیں ملے گا۔ بس سٹرس خاندان کی کھٹی جیسا پھل ہوگا۔
گٹھلیوں سے خود بخود پودے اگیں گے یا نہیں ؟
میرا مشاہدہ ہے کہ گٹھلیوں سے پودے اگ آتے ہیں۔ ایسے خود رو پودوں کی کھجوریں میں نے کھائی ہیں۔ لاہور تک میں گھر میں ہی بے احتیاطی سے پھینکی ہوئی گٹھلیاں کسی گملے میں جاپڑیں تو اگتے ہوئے دیکھا ہے۔
یہ درست ہے کہ چکوال، ساہیوال وغیرہ میں پودے کم یا بہت کم اگیں گے۔
بہاولپور، ڈیرہ اسماعیل خاں، رحیم یار خاں، بھکر، خیرپور وغیرہ میں زیادہ یا بہت زیادہ ۔
صحرا میں گٹھلیاں ریت میں دبی رہیں گی، جب بارش ہوئی، مطلوبہ نمی ملی تو اُگ آئیں گی، ساری نہیں تو کچھ ضرور۔۔۔
ایک فی صد بھی اگیں تو کروڑوں گٹھلیوں سے لاکھوں پودے تو اُگ ہی آئیں گے۔ایک آدھ بارش کافی ہوگی۔ صحرائوں میں پانی نہ ہونے کے باوجود بے شمارجھاڑیاں، گھاس، اور درخت بھی ہوتے ہیں ( چولستان میں اگے کھجور کے درخت تصویر میں دیکھ سکتے ہیں ) یہ گہری جڑوں کے ذریعے زمین سے یا فضا سے نمی حاصل کرتے ہیں۔
اب یہ سوال کہ ان پر پھل نہیں آئے گا یا اچھا، خوش ذائقہ نہیں ہوگا۔
اکیلے درخت پر واقعی پھل نہیں آتا۔ ان میں بھی نر، مادہ ہوتے ہیں۔ مادہ درخت نر کے زرِگل سے بارور ہوتے ہیں۔ یہ کام ہوا کر دیتی ہے۔ اسے پیوند کی مثل سمجھیں۔
کم اچھا پھل بھوک تو مٹاتا ہے۔ اگر وہ بھی نہ ہو تو ہزاروں درختوں کے ماحول اور موسم پر اچھے اثرات تو ضرور ہوں گے۔ لینڈ سکیپ بھی خوب صورت ہوگا۔
ماہرین اس تجویز کو بہتر اور زیادہ عملی بنا سکتے ہیں۔
گٹھلیوں سے بڑی بڑی نرسریاں بھی بنائی جا سکتی ہیں ، جن میں کھجور کے پودے(جنہیں ’’بچے‘‘ کہا جاتا ہے) اُگا کر انہیں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
بہر حال یہ کام کسی ادارے یا تنظیم کے کرنے کا ہے۔ صحرائی، نیم صحرائی علاقہ بیشتر سرحد پر ہے، جہاں فوج موجود ہے۔ فوجی جوان ’’ورزش ‘‘ کے طور پر بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی تنظیمیں ، سکاؤٹس، محکمہ زراعت یا کوئی سرکاری ٹاسک فورس بھی یہ کام سنبھال سکتی ہے۔
بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یارخاں ، احمد پور شرقیہ، یزمان، بھکر، لیہ جیسے شہروں اور قصبوں کی مساجد کے امام صاحبان نوجوانوں کو تیار کرکے گٹھلیاں جمع کرنے اور صحرائی اور نیم صحرائی علاقے میں پھینکنے کی مہم چلا سکتے ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کے سٹوڈنٹس یا یوتھ ونگ بھی اس تجویز کو اپنا سکتے ہیں.