ابھی صائمہ کے شادی کا پٹہ گلے میں نہ بندھا تھا اور وہ آزادی سے اپنے دوستوں مین گھوم پھر سکتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح رمضان اپنے وقت پر ہی آ گیا اور اس نے بھی اس بار سوچ رکھا تھا کہ روزے تو پورے رکھے گی لیکن ساتھ عبادات مین کچھ کثر نہ چھوڑے گی ۔ صائمہ اور اس کی ایک سہیلی ارم دونوں نے پہلے سے ہی اپنے اپنے قران شریف کے خوبصورت جُزدان سیئے۔ ان دنوں مقبول ترجمہ والا قران بہترین سمجھا جاتا تھا ، بس وہی اپنے اپنے لئے منگوائے۔ دونوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اس بار قران کو سمجھ کر ہی پڑھیں گی ۔
دونوں نے اپنی الماری مین لباس اس طرح ترتیب سے لٹکاے کہ ہر دن کی مناسبت سے رنگ پہنیں ۔ امی سے کہہ سن کر فیروزے کی انگوٹھیاں خرید لیں ۔ سارے خاندان میں ان کے روزوں کی تیاری کا چرچہ ہونے لگا۔ صائمہ دسویں جماعت میں تھی اور ارم فرسٹ ائر کی طالبہ تھی ۔ دونوں ایک ہی گھر میں اوپر اور نیچے کے مکان میں رھتیں تھیں ۔
خدا خدا کر کے رمضان کی گھڑی آن پہنچی ، باوضو ہو کر سحری کی اور نمازِ فجر ادا کر کے قرآن کا پہلا پارہ شروع کیا ۔ ابھی آدھا بھی نہ پڑھا تھا کہ سکول کی تیاری کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ سکول میں وقت ملتے ہی باقی ختم کر لیں گی لیکن قران کو بستہ میں رکھ کر لے جانا ، بے حرمتی تصور کر کے ارادہ بدل لیا۔
اب یہ طے پایا کہ گھر واپس آ کر سکول کا کام ختم کر کے قران کا باقی حصہ پڑہیں گی ۔ لیکن مسئلہ ایک اور بھی تھا کہ اگر قران عربی میں پڑھتں تو ترجمے کا وقت نہیں رھتا تھا۔ بہر حال ان دنوں اتنی لمبی پلاننگ تو نہیں کر سکیں ، سو سکول سے واپس آ کر بمشکل تمام افطاری تک ایک ایک پارہ ختم کیا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ کچھ نہ کچھ اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔
اب یہ ان کی روزمرہ پریکٹس بن گئی تھی لیکن ترجمہ کا شوق دل ہی دل میں پلتا رھا۔ وہ اپنی پاکٹ منی بھی روزانہ سکول سے واپسی پر کسی نہ کسی ضرورت مند کو دے دیتین ۔ شام کو افطاری کے وقت گھر میں جو بھی بھکاری اتا یہ اس کو ضرور پیٹ بھر کھانا دیتیں ۔
اپنے تئیں وہ دونوں بے انتہا خوش تھیں کہ وہ اللہ کے احکام پہ چل رہی ہیں۔ دسمبر کی چھٹیاں ہوئیں اور ارم کا چچا زاد، عمران ان کے یہاں رھنے آیا۔ وہ بھی انہی کا ہم عمر تھا لیکن اسے نہ روزے کا شوق تھا نہ کسی عبادات مین جی لگتا۔
ایک دن عمران نے ارم سے کہا کہ تم لوگوں نے اب تک جتنے بھی اعمال کئے ہیں وہ سب بے کار گئے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی قبولیت ناممکن ہے۔ اتنا سننا تھا کہ ارم کے ہوش اڑ گئے پھر بھی اس نے خود پہ قابو رکھتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیا گناہ ہم سے ہوا کہ الہہ تعالیٰ ہماری محبت و انسیت کا اجر ہمین نہ دے گا۔ عمران نے کہا کہ دیکھو سب سے پہلے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ خود نمائی کو پسند نہین فرماتا اور تم دونوں نے اپنے روزوں کا اتنا شور مچایا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ تم لوگ روزے رکھ رہی ہو۔ اور پھر یہ کہ تم لوگ نماز قائم کرتی ہو لیکن اپنے کپڑوں کی نمائش زیادہ مقصود ہوتی ہے ۔ کیا پڑھ رہی ہو یہ تو تمہیں معلوم نہیں بس سجدے کر لینے سے تو اللہ تعالیٰ تمہاری نماز قبول نہین کر لے گا نا۔ اور ایسی ہی کئی بے تکی باتیں کر کے عمران نے ارم کا دل توڑ دیا ۔ وہ بھاگی بھاگی صائمہ کے پاس گئی اور تمام صورتحال کہہ سنائی ۔ وہ بھی ڈر گئی۔ اب انہوں نے سوچا کہ ہم اپنے والدین سے یہ معاملہ ڈسکس کریں گے۔
جیسے ہی ارم کے والد آئے تو اس نے معاملہ ان کو پیش کیا۔ ارم کے والد نے انہیں سمجھایا کہ عمران ان بچوں میں سے ہے خود روزہ نہین رکھتے اور دین سے غافل ہیں اس لئے تمہیں دین سے روکنے کو ایسا کہہ رھا ہے ۔ اس مین خود نمائی کی کیا بات ہے کہ تم نے روزہ کا اہتممام کیا ، یہ تو ہمارے رسول پاکؓ کو بھی بے حد پسند تھا کہ روزے کا انتظام میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ باوضو رھا جائے ، نماز اور دیگر عبادات کو روزمرہ بنایا جائے۔ اسی طرح نماز انسان کا اللہ سے تعلق ہے ، کلمہ وہ خواہ کسی بھی زبان مین ادا کرے لیکن اس کے دل میں خدا کی برتری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رھا اور انہوں نے دسمبر کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قران کو ترجمہ سے بھی پڑھ ڈالا۔
یہ رمضان صائمہ اور ارم کی زندگی کا بہترین رمضان ٹہرا کیوں کہ اس کے بعد انہین عید واقعی پُرمسرت اور خوشیوں سے پُر ملی۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1824840781080237/