سوار تو میں تھائی ایئر کے جہاز پر تھا مگر یاد پی آئی اے کو کر رہا تھا۔ ساری محبت کے باوجود اب کے میں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں اور قومی ایئر لائن سے اجتناب کیا تھا ۔ جب بھی پی آئی اے کا جہاز بنکاک پہنچا، تاخیر سے پہنچا اور ہر دفعہ معلوم ہوا کہ آسٹریلیا جانے والا جہاز جا چکا ہے۔ یہ تماشہ کئی بار، کئی شہروں میں ہوا۔ میکسیکو جانا تھا لاہور سے پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھا۔ حسب معمول تاخیر…. نیویارک پہنچ کر معلوم ہوا کہ میکسیکو والا جہاز اڑ چکا ہے۔ نیو یارک ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی خاتون انچارج نخوت سے بتا رہی تھی کہ میں تو پاکستان کبھی گئی ہی نہیں! شب بسری کےلئے کمرہ تب ملا جب خالص ”پاکستانی“ سٹائل میں بات کی۔ اسی طرح ایک بار پی آئی اے سے لندن پہنچے۔ اتنی تاخیر سے کہ واشنگٹن جانےوالا جہاز پرواز کر چکا تھا۔ محسن خان اور شبیر ڈاہر جیسے منجھے ہوئے بیورو کریٹ ساتھ تھے۔ طویل مذاکرات کے بعد پی آئی اے نے رات گزارنے کےلئے جس ہوٹل کا انتظام کیا اسکے کمرے راجہ بازار کے منجی بستر والے کمروں سے ذرا ہی بہتر تھے۔ قومی اسمبلی کو جو تازہ اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں انکی رُو سے گزشتہ تین ماہ کے دوران پی آئی اے کی چار ہزار تین سو سے زیادہ پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔ چنانچہ عافیت اسی میں ہے کہ محبت پی آئی اے سے کی جائے لیکن سفر کسی مہذب ایئر لائن سے کیا جائے۔
میلبورن پہنچ کر جان ناتواں کو صدموں پر صدمے اٹھانا پڑے۔ شہر میں وزیر اعظم اور لیڈر آف اپوزیشن دونوں آئے ہوئے تھے۔ میں نے ایک آسٹریلوی سے پوچھا کہ ٹریفک کتنے گھنٹوں کےلئے روکی جائےگی؟ اس نے سوال سن کر حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے بتایا کہ گزشتہ جمعرات کو صدر زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کراچی میں تھے تو اہل کراچی پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ سڑکیں کنٹینروں سے بند کی گئیں۔ کلفٹن سے ٹاور تک اور شاہراہ فیصل سے بلاول ہاﺅس تک اور میاں صاحب کے ہوٹل تک سب شاہراہیں مسدود تھیں۔ آسٹریلوی نے نئی حیرت سے دیکھا ”یقین نہیں آتا کہ یہ 2012ءمیں ہو رہا ہے! پاکستانی پارلیمنٹ اس غیر انسانی سلوک پر ایکشن کیوں نہیں لیتی؟“ اب کے میں نے آسٹریلوی کو حیرت سے دیکھا۔
بس ڈرائیور چینی تھا‘ اس سے پوچھا کہ کیا میلبورن میں مقیم ہزاروں چینیوں کیلئے کوئی ویلفیئر ایسوسی ایشن ہے؟ اسکے پاس بھی میرے لئے حیرت ہی تھی۔ اس کا جواب سیدھا سادا تھا۔ ”چینیوں کی ویلفیئر پورے شہر کی ویلفیئر ہی کا حصہ ہے“۔ مجھے سنگا پور یاد آ گیا جہاں چینی کا پڑوسی چینی نہیں ہو سکتا اور انڈین یا ملائے کا پڑوسی انڈین یا ملائے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کوئی نسلی یا لسانی گروہ شہر کے کسی حصے پر غلبہ نہیں پا سکتا۔ اگر یہ اصول کراچی میں اپنایا جاتا تو آج جو حالت ہو رہی ہے، نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے اب یہ اصول لاہور میں بھی پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ عجیب و غریب خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے مرکزی نائب صدر امیر مقام نے خادم پنجاب سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں صرف ایک لسانی گروہ کے مسائل پر بات چیت ہوئی۔ خادم پنجاب نے لاہور میں مقیم ایک ایسی ویلفیئر سوسائٹی کےلئے ایمبولینس کی منظوری دی جو صرف ایک لسانی گروہ کی نمائندگی کر رہی ہے کاش کوئی خادم پنجاب کو مشورہ دیتا کہ ایسے ہی کوتاہ اندیشانہ اقدامات کے نتیجے میں شہروں میں سہراب گوٹھ وجود میں آتے ہیں۔ خدا نہ کرے لاہور کا حال بھی کراچی جیسا ہو اور خدا نہ کرے کہ اے این پی کے سربراہ کا کوئی بھانجا بھتیجا لاہور میں بھی کسی روز لسانی سیاست کی دکان چمکا رہا ہو! یاد آیا کہ اس حساس مسئلے کی طرف کچھ عرصہ قبل جاوید ہاشمی نے بھی توجہ دلائی تھی۔ اس وقت ہاشمی صاحب نون لیگ ہی میں تھے۔
چینی سے مایوس ہو کر میں نے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک اور آسٹریلوی سے پوچھا کہ کیا کرسمس پر تمہارے تاجر بھی لوٹ مار کرتے ہیں، اس نے جواب دیا نہیں، وہ تو قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ ہمارے علماءکرام صرف رمضان میں نیک کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں، سارا سال نہیں، اور ان نیک کاموں میں سچ بولنا، وعدہ ایفا کرنا اور قیمتیں برقرار رکھنا، شامل نہیں ہوتا۔ یوں بھی جس رمضان میں پیشہ ور اینکر لاکھوں روپوں کا معاوضہ لیکر رونے کا ڈرامہ رچائیں گے وہاں منافقت سے کیسے جان چھوٹے گی۔ وینا ملک تو سحری کی پروگرام سے فارغ ہو گئی لیکن اس اینکر سے خلق خدا کی جان کیسے چھوٹے گی جو آٹھ لاکھ ماہانہ کے معاوضہ پر پی ٹی وی کا سربراہ بنا اور پھر، ایک روایت کےمطابق، سینیٹر بننے کے چکر میں سربراہی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کہتے ہیں کہ موصوف نے ریٹنگ بڑھانے کےلئے ”قیامت کے آثار“ پر جو پروگرام کئے تھے وہ معروف ترکی مصنف یحییٰ ہارون کی تصنیف کا سرقہ تھے۔ سب کچھ تو کمرشل ہو چکا تھا۔ ایک رمضان رہ گیا تھا وہ بھی ریٹنگ کے بھوکے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انا للہ
اوپر علماءکرام کا ذکر ہوا ہے اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عالم دین کا بھی ذکر ہو جائے۔ سیاست میں انکی ذہانت اور نکتہ آفرینی سب مانتے ہیں۔ نیا نکتہ انہوں نے یہ نکالا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اس عمر میں الیکشن کا پیچیدہ نظام کیسے سمجھیں گے؟ سبحان اللہ۔ نابغہ یوں ہی تو نہیں کہلاتے:
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی ایک معروف اداکارہ کا یہ جملہ بہت مشہور ہے کہ ”ایک تو میری عمر کم ہے، دوسرا میں بھولی بہت ہوں“۔ حضرت کی بھی عمر کم ہے اور بھولے بالکل نہیں ہیں۔ رسا چغتائی بھی اسی موقع پر یاد آ گیا:
ڈیرہ دارن کیا جانے
پیار کسی مغلانی کا
لیکن ایک خبر رمضان المبارک میں خوش آئند ضرور ملی ہے۔ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر قدیر خان نے ”تحفظ پاکستان“ کے نام سے نئی جماعت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ تاہم مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ تاسیس کے وقت جو حضرات ڈاکٹر صاحب کےساتھ تھے، کاش وہ غیر متنازعہ ہوتے‘ ان میں جناب حنیف عباسی کا نام دیکھ کر اہل کشف کا ماتھا ٹھنکا ہے۔ آپ جماعت اسلامی میں تھے جماعت نے الیکشن کا بائی کاٹ کیا تو عباسی صاحب ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر، باڑ پھلانگ کر، نون لیگ میں جا پہنچے۔ نون لیگ نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، بالکل اسی طرح جیسے پرویز مشرف کے جاتے ہی اسکے یار غار جناب زاہد حامد کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ حنیف عباسی ٹاک شوز میں بولتے گھن گرج کےساتھ ہیں اور خوب بولتے ہیں۔ نون لیگ کو ان کی فکر کرنی چاہیے۔
محسن پاکستان نے کہا ہے کہ انکے اثاثے قوم کی ملکیت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو، اگر ان اثاثوں کی تفصیلات بھی قوم کو بتا دی جائیں۔ آجکل پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان انٹرنیٹ پر بھارتی سائنس دان عبدالکلام کی کتابیں بہت پڑھتے ہیں۔ عبدالکلام کئی سال بھارت کے ایوان صدر میں رہے لیکن نکلے تو وہی دو ٹرالی بیگ ساتھ تھے جو لےکر اندر گئے تھے۔ محسن پاکستان کو جب پرویز مشرف نے نظر بند کیا تو نوائے وقت نے انکے حق میں ایک طویل مہم بہادری اور استقامت سے چلائی۔ ”امن کی آشا“ والے اس موقع پر منقار زیر پر رہے۔ اتفاق یا سوءاتفاق یہ ہوا کہ محسن پاکستان نے کالم نگاری شروع کی تو اسی ”امن کی آشا“ کے علمبردار اخبار میں۔ میر کیا سادہ ہیں لیکن سادہ تو ان دنوں کوئی بھی نہیںؒ کسی بزرگ نے کہا تھا:
اے زر! تو خدا نہ ای ولیکن بخدا
ستار عیوب و قاضی الحا جاتی!
سچ ہے کہ زمانے کی گاڑی روپیہ چلائے!
لیجئے بس رُک گئی ہے۔ چینی ڈرائیور مجھے بتا رہا ہے کہ یہاں اترنا ہے۔ میلبورن میں درجہ حرارت سات ہے۔ آپ کو گرمی اور مجھے سردی مبارک ہو!
http://columns.izharulhaq.net/2012_07_01_archive.html
“