دریائے نیل کے کنارے آباد مصری تہذیب اپنے بادشاہوں اور ان کی چھوڑی گئی بڑی یادگاروں کی وجہ سے مشہور رہی ہے۔ مانیس سے لے کر قلوپطرہ ہفتم تک تین ہزار سال تک حکومت کرنے والے اندازے کے مطابق 170 فرعون گزرے ہیں، جن کے 34 الگ خاندان اور ادوار رہے ہیں۔ قلوپطرہ ہفتم کے بعد مصر روم کے قبضے میں چلا گیا اور فراعین کا سلسلہ 30 قبلِ مسیح کو اختتام پذیر ہوا۔ فراعین میں سب سے زیادہ جانے جانا والا نام رعمسیس دوئم کا ہے۔ یہ کون تھے؟
رعمسیس نے مصر میں 66 برس حکومت کی۔ نوے سال سے زیادہ عمر پائی۔ موت کی وجہ گھنٹھیا اور شریانوں کا سخت ہو جانا بنا۔ ان کا دور قدیم مصر کا سنہرا دور تھا۔ ان کے سو کے قریب بچے ہوئے۔ دریائے نیل کے سیلابوں کی وجہ سے بہترین فصل دیکھی۔ نچلا بیٹھنا یا پھر انکساری ان کی خاصیت نہیں تھی۔ 1279 قبلِ مسیح میں اقتدار سنبھالا۔ شمال اور جنوب میں عسکری مہمات شروع کر دیں۔ یادگاروں سے سلطنت کو بھر دیا۔ اس قدر کامیاب حکمران رہے کہ ان کے بعد آنے والے فراعین میں سے نو نے اپنا نام ان کے نام پر اختیار کیا۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے بعد جب قلوپطرہ حکمران تھیں، ان کا نام مصر میں سب کو یاد تھا اور احترام سے لیا جاتا تھا۔
خودنمائی اور بلاجھجک اپنی پروموشن ان کے دور کی یادگار ہے جس کی وجہ سے آج بھی ان کو ہر جگہ جانا جاتا ہے۔ پیسہ اور وقت بچانے کے لئے اپنے سے پچھلے فراعین کی یادگاروں پر بھی اپنا نام لکھوا دیا۔ اس کے علاوہ بہت کچھ نیا بنوایا بھی جس میں وادی نیل میں پہاڑی جگہ پر ابو سمبل نام کی عبادت گاہ بھی ہے جس میں پہاڑوں کے پتھر میں اپنا بڑا مجسمہ ترشوایا۔
مصر کے شمال میں بحیرہ روم میں اپنے پڑوسیوں کے قریب ایک نیا دارالحکومت بسایا جس کا نام اپنی منکسر مزاج طبیعت کے مطابق پی رعمیسیس آ ناختو (عظیم فاتح رعمسیس دوئم کا گھر) رکھا۔
ان کی ایک بڑی شاندار یادگار جدید الاقصر کے قریب ہے۔ یہ ان کے دفن ہونے کی جگہ نہیں بلکہ ان کے نام پر بنائی جانے والی عبادت گاہ تھی، تا کہ ایک دیوتا کے طور پر ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یہ رعمیسیم کہلاتا ہے۔ کرکٹ کے چار سٹیڈیم جتنا بڑا۔ ایک مندر، ایک محل اور دوسری عمارتیں۔ اس میں دو صحن تھے جہاں پر داخلی دروازوں میں ان کے سات ٹن اور آٹھ سے نو فٹ اونچے مجسمے نصب تھے۔ یہاں پر داخلے کے بعد کوئی رعمسیس کی شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان کو تراشنے کی ایک اور وجہ اگلے وقتوں میں اپنے ہونے کا احساس دلانا بھی تھا۔ یہ ان مقاصد کو بخوبی پورا کرتے ہیں۔
اینٹونی گورملے جو ایک مجسمہ ساز ہیں، ان کے مطابق، “اگر آپ اس کو ٹیکنیکل اصطلاحات میں نہیں بھی جانتے تو اس کو دیکھنا کس قدر حیران کُن ہے۔ کتنے ہی لوگوں نے کتنی ہی محنت سے ایک مجسمہ مل کر بنایا ہو گا۔ اس کی تراش خراش کی مہارت آسان نہیں ہے۔ یہ گرینائٹ سے بنے ہیں اور ان کو ریت کی رگڑ سے تراشا گیا ہے۔ گرینائٹ سے زیادہ سخت پتھر مشکل سے ہی ملے۔ وقت، محنت، افرادی قوت ۔۔۔ یہ اکٹھا ہو کر کیا کچھ کر دیتے ہیں۔”
اینٹونی گورملے کا نکتہ بہت اہم ہے۔ ایک مسکراتا مجسمہ کسی ایک آرٹسٹ کا کمال نہیں، یہ ایک پوری سوسائٹی نے بنایا ہے۔ اضافی فصل پیدا کرنے والے کسانوں سے لے کر سرحدیں محفوظ کرنے والے فوجیوں، اس پر محنت کرنے والے محنت کش اور فنکار، اس سب کو یکجا کرنے والے بیوروکریٹ ۔۔۔ یہ سب انجینیرنگ اور لاجسٹکس کا بڑا اور پیچیدہ پراجیکٹ ہے۔ آرٹ سے زیادہ کسی موٹروے کے منصوبے جیسا۔
ساتھ لگی تصویر میں لگے مجسمے میں اسوان سے پتھر کاٹا گیا۔ یہ اس طرح کاٹا گیا کہ ایک بلاک کی صورت میں ہو۔ پورا پتھر بیس ٹن وزنی ہو گا۔ اس کو پھر ابتدائی صورت دی گئی، لکڑی کی سلیڈ پر لادا گیا۔ مزدوروں کی بڑی ٹیم نے اس کو کھینچا۔ لکڑیوں سے بنے بیڑے پر اس کو دریائے نیل کے ذریعے الاقصر تک منتقل کیا گیا۔ دریا سے نکالا گیا۔ رعمسیم تک افرادی قوت کے ذریعے لایا گیا۔ اس کو کرنے کے لئے مزدوروں کو تربیت دی گئی۔ اس سب کو کوآرڈینیٹ کیا گیا۔ اگر کام کرنے والے غلام بھی تھے یعنی کہ ان کو تنخواہ نہیں دینا تھی، پھر بھی ان کو کھانا پلانا اور رہائش تو دینی تھی۔ اس سب کے لئے پڑھی لکھی، ریاضی جاننے والی، مینجمنٹ کو سمجھنے والی بیوروکریسی کی مشین چاہیے تھی۔ یہی بیورکریسی کی مشین تھی جس نے مصر کو عالمی تجارت اور افواج کو منظم کرنے میں مدد کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رعمسیس پراپیگنڈہ کے بھی ماسٹر تھے۔ جہاں کامیاب نہیں بھی ہوئے، وہاں پر بھی کہانی بنا کر کام چلا لیا۔ عسکری محاذ پر ہمیشہ کامیاب نہیں رہے لیکن آفیشل نتائج ہمیشہ ایک ہی رہے۔ یعنی “رعمسیس کے لئے عظیم فتح”۔ مصریات کی ماہر کیرن ایکسل کا کہنا ہے۔ “ ان کو اس بات کا بہت اچھے طریقے سے علم تھا کہ کامیاب ہونے کے لئے کامیاب نظر آنا کتنا اہم ہے۔ لوگوں کو ایک مضبوط بادشاہ نظر آنا چاہیے۔ اور وہ ہر جگہ پر نظر آتے تھے۔ قادیش میں وہ جنگ نہیں جیتے۔ ہٹائیٹ کے خلاف جنگ کو برابری کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے لیکن آتے ساتھ ہی انہوں نے سات مندروں میں اپنی “غیرمعمولی کامیابی” کی کہانی لکھوائی۔ اور یہ کہ انہوں نے اکیلے ہی کیسے ان کو شکست سے دوچار کیا۔ یہ سب پراپیگنڈا تھا لیکن وہ اس کا استعمال کرنا اچھی طرح سمجھتے تھے”۔
رعمسیس نے نہ صرف اپنی رعایا کو اپنے عظیم ہونے کا یقین دلایا بلکہ آنے والی دنیا کو۔ مصر کی تاریخ کے بارے میں ان کی بنائی گئی کہانیاں اس قدر حاوی رہی ہیں کہ مصر کے دور کو ان کے دور کے حوالے سے جانا جاتا رہا ہے۔
ان کا مجسمہ اکھاڑنے کی کوشش میں 1799 میں ٹوٹ گیا۔ 1816 میں اس کو آثارِ قدیمہ کے ڈیلر بیلزونی نے اٹھا کر دریائے نیل کے ذریعے ٹرانسپورٹ کروایا۔ قاہرہ سے سکندریہ اور پھر لندن بھجوا دیا گیا۔ جب یہ لندن پہنچا تو اس کو دیکھ کر یورپ میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ عظیم قدیم تہذیب صرف یونان میں ہی نہیں رہی۔
رعمسیس نے اپنا دور طاقت کی داستان سے بنایا تھا۔ طاقت سے مصر کی ریاست کی بالادستی قائم کی تھی۔ تجارتی نیٹورک اور ٹیکس کے نظام بنائے تھ۔ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عظیم یادگاریں بنانے میں خرچ کیا تھا تا کہ ایسی وراثت چھوڑ جائیں جس کو کوئی بھلا نہ پائے۔ ہمیشہ کی عظمت پا لیں۔
شیلے ایک شاعر ہیں۔ انہوں نے اس مجسمے کا برطانیہ پہنچنے کا سنا۔ اس سے متاثر ہوئے لیکن ان کو یہ بھی پتا تھا کہ مصر کے ساتھ رعمسیس کے بعد کیا ہوا۔ یہاں کی بادشاہی کا تاج لیبیا اور پھر نوبیوں کے پاس چلا گیا۔ اس کے بعد فارس اور مقدونیہ میں۔ رعمسیس کے اپنے مجسمے یورپی اٹھا کر لے گئے۔ کچھ نپولین فرانس میں لے گئے۔ رعمسیس کا اصل نام اوزیمانڈئیس تھا۔ شیلے نے رعمسیس کو دیکھ کر جو نظم لکھی، وہ ان کی شان و شوکت پر نہیں بلکہ اس سے بالکل برعکس ہے اور اس سب کی بے ثباتی پر ہے۔ اس نظم میں رعمسیس کا مجسمہ حاصل کردہ عظمت کی دوڑ کے بے کار ہونے کی علامت پر ہے۔ شیلے کی نظم میں
میرا نام اوزیماڈئیس ہے، بادشاہوں کا بادشاہ
میرے کام دیکھو، رنجیدہ اور مایوس ہو
کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، ہر شے مرجھا جائے گی
ایک عظیم کھنڈر بن جائے گی، برہنہ اور کھوکھلا
تنہائی اور ریت، جو ہر طرف بکھرے ہوں گے
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے