کبھی کبھی انسان کی زندگی میں عجیب وغریب واقعات ہو جاتے ہیں، جو اُس کی زندگی کے رُخ کو یکسر موڑ دیتے ہیں۔ انسان چاہتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور ہی جاتا ہے۔ زندگی میں انسان کچھ بننا چاہتا ہے اور بن کچھ اور ہی جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ قدرت جب کسی انسان سے کوئی کام لینا چاہتی ہے تو اُس کے لئے ویسے ہی اسباب پیدا کر دیتی ہے۔ ہماری فلمی دنیا میں بھی کئی لوگ ایسے ہوئے ہیں جو زندگی میں کچھ اور ہی کرنا چاہتے تھے مگر قدرت نے اُن کو اِس روشنی بھری جگمگاتی دنیا میں پہنچا دیا، مگر انہوںنے یہاں بھی اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے کامیابی اور شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے۔
ایسی ہی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے فلمساز، اسکرین پلے رائٹر اور مکالمہ نگار رامانند ساگر۔
رامانند ساگر کے آباواجداد اصلاً پیشاور کے رہنے والے تھے۔ لاہور کے قریب گائوں ’’اصل گروکے‘‘ میں ۲۹؍دسمبر ۱۹۱۷ء کو جب رامانند ساگر کا جنم ہوا تو اُن کا نام چندر مولی رکھا گیا۔ ان کے والد دِینا ناتھ چوپڑا، تجارت کے سلسلے میں نقلِ وطن کرکے کشمیر آگئے تھے۔ حالانکہ وہ ایک کامیاب تاجر تھے، مگر ادبی ذہن رکھتے تھے اور شعر وشاعری کابھی شوق تھا۔ وہ تاجؔ پشاوری کے نام سے اشعار کہتے تھے اور پسند کئے جاتے تھے۔ ادبی ذوق رامانند ساگر کو اپنے والد تاجؔ پشاوری سے وراثت میں ملا تھا۔ رامانند ساگر ابھی بہت چھوٹے تھے کہ اُنہیں رشتہ کی ایک بے اولاد دادی نے گود لے لیا اور اُن کی پرورش والدین سے دُور رہ کر ہوئی، یہی وجہ تھی کہ وہ بچپن سے ہی بہت جذباتی تھے۔ اُنہوںنے صرف سولہ برس کی عمر میں پہلی کہانی ’’پریتم پرتیکشا‘‘ لکھی، جو شری پرتاپ کالج میگزین میں شائع ہوئی۔ اس وقت بہت کم لوگوں کو یقین آیا کہ یہ صرف سولہ برس کے لڑکے کی لکھی کہانی ہے۔ اِس کہانی میں بڑا درد تھا اور پھر انہوںنے مسلسل لکھنا شروع کر دیا۔ شروع میں وہ رامانند چوپڑہ کے نام سے لکھتے تھے۔ بعد میں رامانند بیدی اور پھر رامانند ساگر کے نام سے انہوںنے لکھنا شروع کیا اور آخر تک اِسی نام سے لکھتے رہے۔
رامانند ساگر کی ابتدائی زندگی بہت جدوجہد بھری تھی۔ انہوںنے ایک چپراسی کے طور پر کام شروع کیا، ٹرک کلینر بنے، صابن بیچا اور ایک سُنار کی دُکان پر بھی ملازمت کی۔ انہوںنے کبھی بھی محنت سے منہ نہیں موڑا، نہ کسی کام کو چھوٹا سمجھا، اور کسی بھی جائز کام کو کرنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی، اور اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ زندگی کی جدوجہد کے زمانے میں بھی وہ لکھتے رہے اور شائع بھی ہوتے رہے۔
رامانند ساگر کا فلموں سے سب سے پہلا تعلق تب ہوا، جب انہوںنے ۱۹۳۶ء میں ایک خاموش فلم Raiders of the Rail Road میں Clapper Boy کے بطور کام کیا۔ اس کے بعد ۴۰-۱۹۴۱ء میں فلم ’’کوئل‘‘ میں مرکزی کردار ملا اور فلم کرشنا میں ’’ابھی منیو‘‘ کا کردار ادا کرنے کا بھی موقع ملا۔ مگر یہ سب فلمیں دورانِ تکمیل ہی ڈبوں میں بند ہو گئیں۔ زندگی کی اسی جدوجہد کے زمانے میں انہوںنے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور پھر سنسکرت میں ڈگری حاصل کی اور دونوں مضامین میں گولڈ میڈل بھی حاصل کئے۔
رامانند ساگر نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز لاہور کے ’’ڈیلی پرتاپ‘‘ اور ’’ڈیلی ملاپ‘‘ اخباروں میں نیوز ایڈیٹر کے بطور شروع کیا تھا۔ انہوںنے تقریباً ۳۲؍مختصر کہانیاں لکھیں اور اسٹیج پلے اور قسط وار طویل کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ اُن ہی دِنوں ایک معروف رسالے ’’آداب مشرق‘‘ میں اُن کا ایک قسطوار طویل افسانہ ’’ایک ٹی۔ بی پیشنٹ کی ڈائری‘‘ شائع ہوکر مقبول ہو رہا تھا۔ اِس افسانے سے متاثر ہوکر مشہور ادیب کرشن چندر نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا اور بمبئی آکر فلموں کے لئے لکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ مشہور فلمساز وہدایتکار محبوب خان نے بھی رامانند ساگر کی تحریروں کو پڑھ کر اُنہیں فلموں کے لئے لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور ملک فرقہ واریت کے شکنجہ میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا۔ ایسے پُرآشوب دور میں رامانند ساگر تقسیم وطن کے وقت دہلی آگئے۔ اُس وقت اُن کے پاس صرف پانچ آنے اور چند کہانیوں اور افسانوں کا سرمایہ تھا۔ وہ ملک کی تقسیم اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی خونریزی اور انسان کی بربادی سے بے حد دل برداشتہ تھے۔ ایسے ہی دور میں انسان اور انسانیت کی ناقدری کے پس منظر میں انہوںنے ایک ناول ’’اور انسان مر گیا‘‘ تحریر کیا، جو بے حد پسند کیا گیا۔ یہ ناول انہوںنے اپنی بیوی لیلاوتی کو معنون کیا تھا۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا۔
دہلی آنے کے بعد انہوںنے کچھ دن اردو صحافت میں گزارے اور کرشن چندر وغیرہ کے مشورے پر ممبئی کے لئے روانہ ہو گئے۔ اداکار سجن کے ساتھ ملاڈ علاقے میں اُن کے ٹریسا وِلا میں رامانند ساگر نے رہائش اختیار کی اور پرتھوی راج کپور کے ’’پرتھوی تھیئٹر‘‘ کے لئے لکھنا شروع کیا۔ انہوںنے جنگ اور امن کے موضوع پر ایک ڈرامہ تحریر کیا جس کو پرتھوی راج کپور نے خود پلے کیا تھا۔
۱۹۴۹ء میں انہوںنے راجکپور کے لئے فلم ’’برسات‘‘ کی کہانی اور سکرین پلے تحریر کیا۔ فلم کامیاب ہوئی اور اس کے ساتھ ہی رامانند ساگر کو بطور کہانی کار شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد انہوںنے ایس۔ ایس۔ واسن کی تقریباً پانچ فلموں کی کہانی اور سکرین پلے لکھنے کا کام سنبھالا اور وہ کچھ عرصہ کے لئے مدراس چلے گئے۔ ان میں ایک فلم دلیپ کمار، وجینتی مالا کی ’’پیغام‘‘ بھی تھی۔ ۱۹۵۷ء میں فلم ’’پیغام‘‘ کے لئے رامانند ساگر کو بہترین مکالمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ پیش کیا گیا۔ یہیں سے ان کی فلمی زندگی کا سنہری دور شروع ہوا۔ اِسی زمانے میں انہوںنے فالی مستری کی فلم ’’جان پہچان‘‘ کی کہانی بھی لکھی۔
۱۹۵۰ء میں رامانند ساگر نے اپنا ذاتی پروڈکشن ہائوس ’’ساگر آرٹس‘‘ قائم کیا اور ۱۹۵۳ء میں فلم’’مہمان‘‘ بنائی۔ اس فلم کی نہ صرف کہانی، منظرنامہ اور مکالمے رامانند ساگر نے لکھے بلکہ پہلی بار ہدایتکاری بھی خود کی تھی۔ اس طرح ساگر آرٹس کے بینر سے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۴ء تک انہوںنے تقریباً پچیس فلموں کی تخلیق کی، اِن میں سے تقریباً پندرہ فلمیں باکس آفس پر کامیاب رہیں۔ اداکار راجندر کمار کے ساتھ اُن کی فلموں ’’آرزو‘‘، ’’ہمراہی‘‘، ’’گیت‘‘، ’’زندگی‘‘ اور ’’للکار‘‘ نے پردۂ سیمیں پر سلور جوبلی منائی۔ اسی طرح اداکار دھرمندر کے ساتھ ان کی تین فلمیں ’’آنکھیں، للکار‘‘ اور ’’چرس‘‘ بے حد کامیاب ثابت ہوئیں۔ فلم ’’آنکھیں‘‘ نے جاسوسی فلموں کی تاریخ میں ایک نئے دَور اور انداز کا آغاز کیا اور اس فلم نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ فلم ’’چرس، پیارا دشمن، بغاوت‘‘ اور ’’رام بھروسے‘‘ نے بھی سلور جوبلی منائی۔ اس طرح شہرت اور مقبولیت دونوں ہی رامانند ساگر کے حصے میں آئیں اور اپنی قابلیت اور شہرت کی وجہ سے ہی رامانند ساگر کو ۲۰۰۱ء میں حکومت ہند کی طرف سے پدم شری اعزاز سے نوازا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں ان کو ہندی ساہتیہ سمیلن، پریاگ کی طرف سے ’’ساہتیہ واچسپتی‘‘ یعنی ڈاکٹر آف لٹریچر کے اعزاز سے نوازا گیا اور ۱۹۹۷ء میں جموں یونیورسٹی کی طرف سے رامانند ساگر کو اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔
رامانند ساگر کی ایک خاص بات یہاں بیان کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ان کی کوئی فلم نمائش کے لئے پیش کی جاتی تھی تو وہ خود مختلف علاقوں میں عام آدمی کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھا کرتے تھے تاکہ فلم کے تعلق سے عام آدمی کے تاثرات اُن کو مل سکیں اور وہ آئندہ اپنی فلموں میں عوام کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھ سکیں۔ اسی طرح فلم ’’آرزو‘‘ کی نمائش کے بعد رامانند ساگر بنگال کے دورے پر تھے۔ ایک ٹورنگ ٹاکیز میں فلم ’’آرزو‘‘ چل رہی تھی۔ جب رامانند ساگر وہاں پہنچے تو وہاں کے منیجر نے بتایا کہ ایک شخص بلاناغہ ان کی فلم ’’آرزو‘‘ دیکھنے آتا ہے اور سنیما میں بیٹھ کر روتا رہتا ہے۔ میں اس سے پیسے بھی نہیں لیتا۔ اگر آپ تھوڑی دیر رُک جائیں تو میں اس شخص سے آپ کو ملوانا چاہوںگا۔ رامانند ساگر رُک گئے اور کچھ دیر بعد ہی ایک شخص بیساکھیوں کے سہارے کھٹ کھٹ کرتا ہوا وہاں آیا۔ یہ شخص نہ صرف خوبصورت تھا، بلکہ جوان بھی تھا۔ جب منیجر نے رامانند ساگر کو اس شخص سے ملوایا تو اُس نے ساگر صاحب کے پیر چھوئے اور درد بھری آواز میں بتایا کہ آپ کی فلم سے مجھے نئی طرح سے زندگی جینے کا حوصلہ ملا ہے۔ آپ نے میری اندھیری زندگی میں روشنی پھیلا ئی ہے اور اب میں اپنی محبوبہ سے بھی نظریں ملانے کے قابل ہو گیا ہوں۔ میں آپ کی فلم کا جیتا جاگتا کردار ہوں۔ آپ نے جو ایک معذور انسان کی زندگی کے مسائل کا حل اپنی فلم میں دیا ہے، اسی کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں۔ اس شخص نے ایک نوٹ پر یادگار کے طور پر رامانند ساگر سے دستخط لئے اور شکریہ ادا کیا۔ رامانند ساگر نے اُسے گلے لگایا اور وہ کھٹ کھٹ کرتا ہوا بیساکھیوں کے سہارے واپس چلا گیا۔
رامانند ساگر نہ صرف ایک نیک دل انسان تھے بلکہ وہ ہمیشہ وقت کے ساتھ چلنے والوں میں سے تھے۔ جس وقت وہ فلم چرس کی شوٹنگ کے لئے فرانس گئے تو وہاں انہوںنے ٹی۔وی سیریل کی مقبولیت کو پہچانا اور پھر ہندوستان واپس آکر انہوںنے ۱۹۸۵ء میں ہندوستانی ٹی۔وی اسکرین کو ’’وکرم بیتال‘‘ جیسا سیریل پیش کیا۔ اس کے بعد ’’دادا دادی کی کہانیاں‘‘ اور پھر ان کا طویل اور بے حد مقبول سیریل ’’رامائن‘‘ شروع ہوا۔ یہ ایک طرح سے پہلی فلمی فیملی تھی جو چھوٹے اسکرین پر اپنی دھاک جمانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد رامانند ساگر کے کئی ٹی۔وی سیریل ’’شری کرشنا‘‘، ’’الف لیلیٰ‘‘، ’’جے گنگا میّا‘‘، ’’گروکل‘‘ اور ’’آنکھیں‘‘ بڑی کامیابی کے ساتھ دکھائے جاتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے سیریل جنوبی ہند کی زبانوں میں ٹیلی کاسٹ ہوں۔ اس کے لئے انہوںنے اشوک نگر میں ایک ڈبنگ اسٹوڈیو قائم کیا۔ انہوںنے بڑودہ کے پاس غیرآبادی والے علاقے میں ایک بڑی سی جگہ خریدکر اس میں چھوٹے چھوٹے Hut اور Cottage بنائے، جہاں وہ سکون سے اپنی سکرپٹ پر کام کر سکتے تھے۔ وہاں انہوںنے اپنے کئی سیریلوں کی شوٹنگ بھی کی۔ ان کے اداکاروں اور تکنیکی لوگوں کو بھی وہاں کام کرنے میں بڑا مزا آتا تھا اور وہ خود بھی سب کا خیال رکھتے تھے۔ رامانند ساگر کو اکثر فرصت کے اوقات میں بھی وہاں قیام کرنے میں بڑی راحت کا احساس ہوتا تھا۔ ان کا ایک بڑا ٹی۔وی سیریل ’’سائیں بابا‘‘ کامیابی کے ساتھ کئی بار دکھایا جاتا رہا ہے۔ بالمیکی اور تلسی داس کے بعد سب سے مقبول رامائن رامانند ساگر نے ہی پیش کی ہے۔
رامانند ساگر نے نہ صرف اپنی فلموں سے بلکہ اپنی نجی زندگی اور ٹی۔وی سیریل کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو ایک مثالی سماج اور بہترین کردار بنانے کی ترغیب دی ہے۔
۱۳؍دسمبر ۲۰۰۵ء کی رات کو ایک لمبی بیماری کے بعد ۸۷؍ برس کی عمر میں رامانند ساگر نے اپنے خالق حقیقی کو لبیک کہا اور پوری فلمی دنیا کو ایک بہترین کہانی کار، منظرنامہ نگار اور مکالمہ نگار سے محروم ہونا پڑا۔ انتقال سے چار ماہ قبل ہی رامانند ساگر کا آپریشن ہوا تھا اور وہ تبھی سے صاحبِ فراش تھے۔ ان کے وارثوں میں اہلیہ لیلاوتی کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اُن کے انتقال سے نہ صرف فلمی دنیا نے بلکہ اردو دنیا نے بھی ایک دردمند مصنف کھو دیا ہے۔
“