کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ناسا کے سائنسدان باعتماد طریقے سے یہ کیسے بتارہے ہوتے ہیں کہ فلاں سیارہ جو زمین سے اتنی نوری سالوں کے فاصلہ پر ہے، اس کے کرہ ہوائی میں فلاں فلاں گیسیں موجود ہیں، اس سیارے پر پانی پایا جاتا ہے، سیارے کی بناوٹ میں فلاں فلاں عناصر موجود ہیں۔ ہمارا سورج زیادہ تر ھائیڈروجن و ھیلیم گیسیوں پر مشتمل ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج تک ہمارا کوئی خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے باہر ہی نہیں گیا جو کئی اربوں کھربوں کلومیٹر دور ان سیاروں کی ان تفضیلات سے آگہی دے سکے اور نہ ہی ہم سورج پر قدم رکھ سکے ہیں اور نہ ہی رکھ سکتے ہیں کہ اسکی کمپوزیشن کو جانچ سکیں۔ مریخ، چاند اور دیگر ہمار ے نظام شمسی کے سیارے، انکے چاند بھی کن اجزاء سے بنے ہیں، انکی معلومات بھی ہم زمین پر بیٹھے بیٹھے باآسانی معلوم کرسکتے ہیں۔ تو آئیے آپکو ہم بتاتے ہیں کہ اسطرح کی مفید معلومات کیسے سائنسدان معلوم کرتے ہیں اور وہ کونسا جینئس سائنسدان تھا، جنہوں نے اپنی ذھانت کہ بل بوتے اتنی اہم معلومات کو حاصل کرنے کا طریقہ دنیا کو بتایا تاکہ انسان کی خلائی کھوج میں اضافہ ہوسکے۔
ماہرین فلکیات ستاروں ، سیاروں اور دیگر اشیاء کی بناوٹ اور ساخت کہ وہ کن مادوں سے مل کر بنے ہیں، انکو طے کرنے کے لئے جو عام طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ سپیکٹروسکوپی (طیف پیمائی) ہے۔ آج ، اس عمل میں ایک گراٹنگ Grating (باڑ، جنگلے) کی طرح کے ساتھ ایسے آلات استعمال ہوتے ہیں جو طول موج کے ذریعہ کسی شے سے روشنی پھیلاتے ہیں۔ اس روشنی کے پھیلاؤ کوسپیکٹرم (طیف) کہا جاتا ہے۔
کوئی بھی خلائی سیٹیلائٹ، راکٹ ، اسپیس شٹل یا خلائی اسٹیشن میں نصب یہ ریموٹ سینسنگ ڈیوائس، رامن اسپیکٹروسکوپی کے بنیادی تصورات کی عملی وضاحت سے نامعلوم مادوں کی کھوج کرتا ہے اور ایک ایسے آلے کے پیکیج کو تیار کرتا ہے جو ایک چھوٹے سیٹیلائٹ کی بڑے پیمانے پر اور سائز کی رکاوٹوں کے مطابق کام کرسکتا ہے۔ رامان سپیکٹروسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے شمسی نظام کے متلاشی مشنوں پر اس تکنیک کو استعمال کیا جاتا ہے ہے ۔ (اس عمل کی وضاحت نیچے بیان کی گئی ہے) جس میں زمینی چاند کی سطح کا مطالعہ ، زمین کے اوپری ماحول ، مریخ کی فضا ، مشتری کی فضا اور زحل کے حلقے شامل ہیں۔نیز اسی تکینیک کے استعمال سے دور دراز ستاروں اور انکے زیلی سیارے (جو غیر نظام شمسی کا حصہ ہیں) انکی کمپوزیشن، ساخت، کون کون سے مادوں سے ملکر وہ بنے ہیں اور وہاں زمین جیسے حالات ہوسکتے ہیں، ان سب باتوں کو ہم صرف اس روشنی سے جان سکتے ہیں، جو یہ ستارے، سیارے اور دیگر خلائی اجسام ، زمین کی طرف پھینک رہے ہوتے ہیں۔ عنصر – اور عناصر کا مجموعہ – کے پاس ایک انوکھا فنگر پرنٹ ہوتا ہے جسے ماہرین فلکیات کسی دیئے گئے شے اور مادےکے سپیکٹرم میں تلاش کرسکتے ہیں، جب روشنی اس پر پھینکی جائے اور وہ منتشر ہوکر واپس ملے۔ ان فنگر پرنٹس کی شناخت سے محققین کو یہ معلوم کرنے کی سہولت اور اشارےملتے ہے کہ یہ مادہ کس چیز سے ملکر بنا ہے۔
رامن اسپیکٹروسکوپی ایک دور دراز مقام سے سینسنگ کا طریقہ ہے جو کرہ ارض کے معدنیات اور کیمیائی مرکبات کی کثرت اور ان کی تقسیم کا نقشہ بنا سکتا ہے۔ رامن سپیکٹروسکوپی کو مختلف سیاروں کے ماحول کی کیمیائی ساخت کا مطالعہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس عمل کی سادہ سی وضاحت ایسی ہوسکتی ہے کہ ایک فاصلے سے کسی بھی سیارے/ستارے یا کسی شہاب ثاقب کی ساخت بتانے والی رامن تکنیک ،مادے پر روشنی بکھیرنے کی عمل کے لئے کم ایک پاور لیزر کا استعمال کرتی ہے اور خلائی جہاز میں ایک اسپیکٹومیٹر لوٹ کر رامان اسپیکٹرم وصول کرتا ہے۔ لوٹا ہوا اسپیکٹرکئی تعدد (فریکوئنسی) میں شفٹوں پر مشتمل ہوتا ہے ، اس واقعے کی لیزر لائٹ سے ان ایٹموں کی فنگر پرنٹس خصوصیات میں منتقل ہو جاتا ہے ، جو بننے والے مادے کی خصوصیت ہیں۔ رامان سپیکٹرم لائنوں کی شدت موجودہ مادے کی مقدار کے متناسب ہے۔اور اسطرح اس مادے کی بناوٹ کا آئیڈیا حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ، رامن اثر کی طیفی معلومات کے ساتھ ، کسی مادہ کی نشاندہی اور شناخت اور اس کے بناوٹی حجم کی تراکیب میں گاڑھے پن کا تخمینہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔بیس لائن ریموٹ رامن انسٹرومنٹ سسٹم میں 10 واٹ کرپٹن لیزر اور ایک RIRIS جوایک نمایاں طور پر حساس ڈیٹیکٹر ہوتا ہےاور اسکے ساتھ Cassegran آپٹکس کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جس کا ماس 200 کلوگرام ہے ، اور اس میں عمل میں 1 کلو واٹ بجلی کی کھپت ہوتی ہے۔
رامن منتقلی کی طرح رامن طیف Raman Spectra کی مدد سے کسی بھی مادے میں موجود مالیکیول کی ساخت، وہ کن ایٹموں سے مل کر بنا ہے، معلوم کرسکتے ہیں۔جب اس ان فرق کو گراف سے ظاہر کیا جائے تو گراف کی جو اونچائی peaks ہوتی ہیں وہ اونچے یا کم موجی اعداد کی طرف جاتی ہیں جس سے اس مالیکیول کے کیمیائی بانڈ کی لمبائی کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ اگر بانڈ کی لمبائی کم ہے تو طیف میں یہ منتقلی سیدھے ہاتھ پر منتقل ہوجاتی ہے ورنہ بالعکس ہورہا ہوتا ہے۔ اگر کسی مالیکیولوں کے اندر ایٹموں کے کیمیائی بانذز کی لمبائی میں تبدیلیاں ، کسی اندرونی یا بیرونی عوامل کی وجہ سے ہورہی ہوتی ہیں ، تو اس صورت میں موجی اعداد کی منتقلی پر یہ اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں۔
رامن سپیکٹروسکوپی ایک غیر تباہ کن کیمیائی تجزیہ کرنے کی تکنیک ہے جو مالیکولوں کےکیمیائی ڈھانچے ،انکی بناوٹ کے مرحلے اور کثیر نفسی یعنی ایک سے زیادہ شکل میں پایا جانا polymorphy ، کرسٹل بننے کی صلاحیت اور سالماتی تعامل کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ کسی مادے کے اندر کیمیائی بندھن کے ساتھ روشنی کی انٹرایکشن پر بھی مبنی ہوتی ہے۔ہر عنصر روشنی کو اس کے ایٹم سے مخصوص طول موج پر جذب کرتا ہے۔ جب ماہرین فلکیات کسی چیز کے سپیکٹرم کو دیکھتے ہیں ، تو وہ اس طول موج کی بنیاد پر اس طیف کی تشکیل کا تعین کرسکتے ہیں۔جس سے ایٹموں کے متعلق انکو اہم معلومات ملتی ہیں۔
رامن منتقلی Raman Shift ، دراصل لیزر بیم کے فوٹانز کی طو ل موج کی ایک ایسی منتقلی کو کہتے ہیں جب وہ الیکٹران کی ارتعاشی حرکت سے متعامل ہوں۔ یہ شفٹ مثبت اور منفی ہوسکتی ہے۔ رامن اسپیکٹرواسکوپی (طیف بینی) ایک ایسا طاقتور ٹول ہے جسکی بدولت ہم کسی بھی مادے میں بغیر اسکی ٹوٹ پھوٹ اور کیمیائی کمپوزیشن خراب کئے اس میں موجود مالیکیولوں کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ زیادہ تر مرئی روشنی اور زیریں سرخ Infrared فوٹانز کی لیز ر شعاع اسکے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ منتقلی طبعیات اور کیمیاء میں بہت کثرت سے استعمال جاتی ہے۔ اور یہ مشہور بھارتی نوبل انعام یافتہ طبعیات دان اور سائنسدان سر چندرا شیکھر رامن Sir C.V Raman سے منسوب ہے جنکو1930 کا طبعیات کا نوبل انعام اسی دریافت یعنی روشنی کا منتشر ہونے کی بنا پر دیا گیا تھا۔ امریکی کیمیکل سوسائٹی نے 1998 میں رامن اثر کو ایک قومی تاریخی کیمیکل نشانی کے طور پر نامزد کیا تھا جو اس کی اہمیت کے اعتراف میں مائعات ، گیسوں اور ٹھوس اشیاء کی تشکیل اور بناوٹ کا تجزیہ کرنے کے ایک آلے و طریقہ کار کے طور پر ہے۔رامان اسپیکٹروسکوپی (طیف پیمائی)کسی بھی مالیکیول کے ایٹموں کی کیمیائی اور ساختی معلومات دونوں فراہم کرسکتی ہے ، نیز ان ایٹموں کی شناختی خصوصیات رامان ‘فنگر پرنٹ’ کے ذریعے بغیر مالیکیول کی ساخت کو متاثر کیے ہوئے مادوں کی نشاندہی کرسکتی ہے، کہ کون کون سے عناصر اس مالیکیول کی بناوٹ میں شامل ہیں،۔
رامن منتقلی کی پیمائش دراصل اس توانائی کے فرق سے نکالی جاتی ہے جو کسی مادے پڑنے والی لیزر کی شعاعوں اور اس سے منتشر (اور شناحت ) ہونے والی روشنی کی شعاعوں کے حساب سے نکالی جاتی ہے۔ پھر اس فرق کوصرف اس مالیکیول کی ارتعاشی حرکت سے منسلک کیا جاتا ہے، جسکا مطالعہ کیا جارہا ہو اسطرح وہ لیزر کی طول موج سے آزاد ہوتا ہے۔ اس فرق سے ہم کسی مادے کے اندر موجود اس مالیکیول کی بناوٹ کے بارے میں جان پاتے ہیں۔ رامن منتقلی کو ہم موجی اعداد wavenumbers سے ظاہر کرتے ہیں۔ رامن اثر کے تحت روشنی کی طول موج میں تبدیلی جو اس وقت ہوتی ہے جب روشنی کے بیم کو مادے کے مالیکولوں کے ذریعہ منتشر کیا جاتا ہے۔ جب روشنی کی ایک بیم کسی کیمیائی مرکب کے دھول سے پاک ، شفاف نمونہ سے گزرتی ہے تو ، روشنی کا ایک چھوٹا سا حصہ پڑنے والی روشنی (یاآنے والی) بیم کے علاوہ دوسری سمتوں میں بھی ابھرتا ہے، اور وہاں پر منتقل ہوجاتی ہے۔ اس انتشار کو پھر کیلیولیٹ کیا جاتا ہے اور مادے کی کیمیائی بناوٹ کا ایک تجزیہ کیا جاتا ہے۔
“