مجھے وہ رام ولاس پاسوان یاد تھا ، جو ٨٠ – ٩٠ کے درمیاں اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کے حق کے لئے آواز اٹھایا کرتا تھا . مجھے اس کی چیخ پسند تھی . اور میں سوچتا تھا ، جب تک ایسے لوگ ہمارے درمیان ہیں ، مسلمانوں کا کوئی بھی کچھ بگاڑ نہیں سکتا . مگر وہ موسم کا سائنس داں نکلا . مجھے اس کے چہرے سے وحشت ہونے لگی اور میں نہیں بھولا ، کہ جو رسم اس نے شروع کی ، پھر سیکڑوں اس رسم میں شامل ہو گئے . اس نے سیاست کی اخلاقیات کو ذبح کیا پھر مذبح گھر میں ہزاروں شکاری آ گئے . آج چراغ اسی راستے پر ہیں . میں رام ولاس کے نام سے اس قدر زخمی تھا کہ مردہ خانہ میں عورت لکھتے ہوئے بھی ، میں اس کے خیالوں سے دور نہیں جا سکا . وہ ایک کمزور ، مفاد پرست ، خود غرض شکاری ثابت ہوا اور اسکا مجھے افسوس ہے .
مردہ خانہ میں عورت سے یہ اقتباس دیکھئے …
پارلیمانی اجلاس کے ساتویں دن گاڑی سے اترتے ہی کلاّ پاسبان سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔اس کی داڑھی بڑھی تھی۔ رنگ کالا تھا۔ لمبا تھا اور زیادہ تر سفاری سوٹ میں ہوتا تھا۔ وہ ان لیڈروں میں سے ایک تھا جو وقت کے ساتھ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں کرتا تھا۔ ملک کی سا لمیت اور جمہوریت کی باتیں کرتا تھا اور ایک خاص طبقہ کے درمیان وہ مقبول ترین لیڈروں میں سے ایک تھا۔مسیح سپرا نے پاسبان کے ہاتھوں کو گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔
’ آپ نے کمال کردیا۔‘
’ کیسا کمال۔‘
’ اس دن جوآپ نے تقریر کی۔‘
’ ارے یار‘ پاسبان مسکرایا۔’قیدیوں کی تکلیف سننے کے لیے کہاں جاؤگے، ظاہر ہے جیل میں؟ وہاں ان کے پسینے کی بدبو بھی سونگھوگے۔ یہ اقلیت بھی قید میں ہیں اور صدیوں سے سسٹم انہیں قید کرتا رہا ہے۔ انہیں روشنی سے زیادہ پیار کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ پرانی عمارت ڈھادی گئی؟ بنیاد کیا تھی؟ محافظ ہی دشمن بن جائیں تو…..‘
’ آپ اتنا سوچتے ہیں۔‘
’ سوچنا پڑتا ہے اور بولنا توآپ کو بھی چاہیے۔ ایک سسٹم لگاتار ان کوصاف کرنے پر مجبور ہے اور یہ سہارا چاہتے ہیں۔ سیاست میں آنے کا مطلب کیا ہے؟ سیاست میں ہمارے کون ہیں۔ یہی محدود اقلیت والے۔ ان کے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ اتنی زحمت تو اٹھانی ہوگی۔‘
’ لیکن اقلیتوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔‘
’ سوچنا تو ہوگا۔ اقلیتیں محض ووٹ بینک بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو اپنی مضبوطی کا احساس کرانا ہوگا۔مسیح سپرا کے لیے یہ ایک بے حد خاص دن تھا۔کلّا پاسبان کی باتوں نے اس پر اثر کیا تھا۔ مگر مجبوری تھی کہ پارٹی لائن کو دیکھتے ہوئے وہ زبان بندی کے لیے مجبور تھا۔ اس رات سیاسی مرڈر کے لیے اس نے ایک اور منظر لکھا۔ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدلیہ اور حکمراں طبقہ میں میل جول نہیں ہوسکتا۔ پھر اسی جج نے ناظم پورہ کے ان پولیس والوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، جن کے قتل کے شواہد موجود تھے۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا اور مسیح سپرا نے اس منظر کو اسی طرح لکھا جس طرح یہ پیش آیا تھا۔ناظم پورہ پولیس والوں کی رہائی کے بعد جب دوبارہ پریس کانفرنس ہوئی تو جج بھٹا چاریہ سے پریس والوں نے کئی طرح کے سوال پوچھے، لیکن بھٹا چاریہ کے پاس ہرسوال کا جواب موجود تھا۔
’ جب پولیس والے بے گناہوں کو لیے جارہے تھے…..؟‘
’ میں وہاں نہیں تھا۔‘
’ وہ اقلیت تھے اور خوفزدہ اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے…..‘
’ میں وہاں نہیں تھا۔‘
’ کچھ دن پہلے آپ نے ایک پریس کانفرنس کی تھی….‘
’ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اور آپ بھی یاد رکھیے کہ آئین اور عدلیہ پر سوال اٹھانا بھی جرم ہے۔آپ کو اس کی سزا مل سکتی ہے۔‘
’ کیا پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔‘
’ پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لیے ہوتی ہے۔‘
’ کیا وہ بے قصور تھے یا بے گناہ؟‘
’ وہ مجرم تھے۔‘
’ کیا اقلیت میں ہونا مجرم ہونا ہے۔؟‘
’ مجرم کوئی بھی ہوسکتا ہے۔‘
’ لیکن شواہد موجود ہیں۔۔ فوٹیج موجو د ہے۔ تصاویر موجود ہیں۔‘
’ ثبوت کوئی بھی نہیں۔‘
’ ثبوت تو تصویریں ہیں۔‘
’ تصویروں کوثبوت نہیں مانا جاسکتا۔‘
’ اچھا، ایک سوال اور……جو مجرم جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں۔‘
’ پھر وہ مجرم نہیں رہتے۔‘
’ سیاست بدل رہی ہے یا دنیا؟‘
—-
وہ دیر تک ان وحشیوں کو دیکھتا رہا جو نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔سپرا کو خبر ملی تھی کہ رجنی سنگھ نے پارٹی چھوڑدی اور خاموشی سے بی مشن کو جوائن کرلیا۔ جوائن کرتے ہوئے اس نے بیان دیا کہ پارٹی اپنے اصولوں سے الگ ہوکر کمزور پڑ گئی ہے…. اور آہستہ آہستہ پارٹی کمزور ہوجائے گی۔کلا پاسبان نے بیان دیا تھا کہ ملک کی جمہوریت اور ملت کو قائم رکھنے کے لیے سب کو ایک ساتھ ہوکر چلنا ضروری ہے۔سپرا ان بیانوں کی حقیقت جانتا تھا۔ مگر اس وقت اس کے ذہن میں وحشی ناچ رہے تھے۔ کچھ دیر کی آوارہ گردی کے بعد وہ گھر آگیا۔ریحانہ نے خاموشی سے پوچھا۔
’ تمھارے چہرے پر تین طرح کے تاثرات ملتے ہیں۔‘
سپرا ایکدم سے چونک گیا۔’وہ کیا۔؟‘
’ پہلا تاثر۔بغیر ہتھیار کے خود سے جنگ کررہے ہو۔
’ دوسرا؟‘
’ خرگوش اور لومڑی میں فرق کرنا بھول گئے ہو۔‘
’ مطلب۔؟‘
’ کنفیوز ہو۔‘
’ اور تیسرا۔؟‘
’ ٹھگ بننے جارہے ہو۔‘
’ ٹھگ… امیر علی جیسا…..‘ سپرا نے چونک کر دیکھا۔
’ امیر علی کیوں۔ دنیا میں صرف ایک ہی ٹھگ ہے کیا…..؟‘
’ میں ٹھگ کیسے ہوگیا؟‘
ریحانہ زور سے ہنسی…..’تمھارے اندر جو کشمکش چل رہی ہے، اس کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا….. اور کشمکش یہ ہے کہ سیاست سے الگ ہوتے ہو توپبلشر کو ٹھگوگے…..‘
’ مائی گاڈ۔‘
—
ایک اور بغاوت ہوئی تھی۔ کلا پاسبان نے اپنی الگ پارٹی بنالی تھی۔
۱۹۹۱ کے بعد آنے والی ہر تبدیلی پر سپرا کی نگاہ تھی۔ وہ سیاست کا کوئی ماہر کھلاڑی نہیں تھا، مگر آہستہ آہستہ سیاسی چہروں کو قریب سے شناخت کرنے لگا تھا۔ پارٹی دفتر میں اس کی طلبی ہوئی تھی اور سپرا جانتا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ سنایا جاسکتا ہے۔ سپرا کو میجر جو جو کی یاد آئی جو کہا کرتے تھے کہ زندگی کے ہر فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔ شروع میں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ زندگی کو ناکام بنا دے گا۔ پھرہزار نئے راستے کامیابی کے کھل جاتے ہیں۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں اسے میجر جوجو کا چہرہ نظر آیا…..یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اورپھر کہاں چلے جاتے ہیں۔