ماسکو کے مرکز میں دو پہلووں پر مشتمل اونچی چھتوں والے کمروں کی ایک بلند اور پر شکوہ مگر مہیب عمارت کی غالبا" چھٹی منزل پر ایک پہلو کے برآمدے کے دو طرفہ متنوع کمروں میں ایک جانب ایک بڑا کمرہ تھا جس میں کمرہ امتحان کی طرح میزیں کرسیاں لگی ہوتی تھیں۔ یہ ریڈیو وائس آف رشیا کے اردو، ہندی اور بنگالی حصوں کے اہلکاروں کے لیے مشترکہ دفتر تھا۔
دروازے سے دوسری قطار کی غالبا" تیسری نشست پر ایک صاحب بیٹھا کرتے تھے۔ میں اس دفتر میں نوآموز تھا۔ میری نشست کھڑکی کی جانب پہلی قطار میں چوتھی اور آخری ہوا کرتی تھی۔ دروازے کی سمت کی دوسری قطار کی غالبا" تیسری نشست پر بیٹھنے والے شخص کا نام وتالی تھا۔ بڑی اور گہری اداس سی آنکھوں والے، جن کے بال گھنیرے تھے جن کے بیچ میں سے وہ مانگ نکالے ہوتے تھے، یہ شخص زیادہ ہی خاموش طبع ھے مگر ان کی ہندی زبان پر گرفت کا عالم یہ تھا کہ مشکل سے مشکل لفظ کا ترجمہ بھی پل بھر میں ٹھک سے بتا دیا کرتے تھے اور پھر خاموش ہو جاتے تھے۔
ان دنوں میں تمباکو نوشی کیا کرتا تھا۔ تب تک برآمدے کا دروازہ کھول کر نیچے اترتی سیڑھیوں کے بڑے زینے پر کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر سگریٹ پینے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ بعد میں بی بی سی روسی سروس کے سابق اہلکار کوئی صاحب وائس آف رشیا کے سربراہ بنے، جنہیں لوگ ٹرمینیٹر کہا کرتے تھے، انہوں نے پوری عمارت کے اندر سگریٹ پینا یکسر روک دیا تھا۔
وتالی صاحب بھی سگریٹ پیتے تھے۔ ایک روز میں نے ان سے اپنے پراسٹیٹ کے مسئلے کا ذکر کیا تو وہ اپنے مخصوص سبھاؤ سے بولے،" آپ کا مسئلہ کوئی ایسا نہیں مگر میرا مسئلہ ناقابل علاج ہے" ۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ انہیں پراسٹیٹ کا سرطان ہے۔ مجھے اچنبھا ہوا کہ پھر بھی تمباکو نوشی کرتے ہیں مگر میں نے اتنے باعلم شخص کے سامنے اپنی ڈاکٹری بگھارنا مناسب خیال نہیں کیا تھا۔
پھر بہت عرصے بعد، جب وہ ایک روز آئے تو خاصے زرد تھے۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان دنوں عمارت میں داخل ہوتے ہی ستونوں والے ہال کے ایک ستون کے ساتھ، ایک میز پر کسی بھی مرنے والے کی سیاہ حاشیہ لگی تصویر بائیوگرافی کے ساتھ اور کچھ پھول رکھ دیے جاتے تھے۔ یوں سب آنے جانے والے اہلکاروں کو دنیا چھوڑ جانے والے کے بارے میں معلوم ہو جاتا تھا۔
غالبا" وتالی صاحب کی ہی خالی نشست پر ایک روز ایک اور صاحب آ کر بیٹھے۔ وہ وتالی صاحب کے برعکس چپ نہیں رہ سکتے تھے۔ کوئی بات کر دیتے، کوئی شعر پڑھ دیتے۔ شعر وہ " خالص اردو" کے پڑھا کرتے اور محاورے بھی اردو کے ہی بولتے۔ تراجم شاید "شدھ ہندی" میں کرتے ہوں۔ شروع میں مجھے ان کا بات بے بات بولنا کچھ چبھا مگر شناسائی ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ ہیں ہی مرنجاں مرنج۔ چپ بیٹھ نہیں سکتے۔
ان صاحب کا نام رام وادھوا تھا جسے وہ ودھوا بولتے تھے۔ ایک روز میں نے زیر لب مسکراتے ہوئے پوچھ لیا، "رام بھائی ( میں انہیں رام بھائی ہی کہنے لگا تھا ) یہ ودھوا تو رانڈ کو نہیں کہتے کیا؟" ناراض ہونا انہوں نے سیکھا نہیں تھا، بولے، "ارے بھیا واؤ کے نیچے زیر نہیں بلکہ اوپر زبر ہے" یعنی وہ واؤ بھی جانتے تھے اور زیر و زبر بھی۔
حاصل کردہ علم کے مطابق ماہر طبیعیات تھے۔ ہندوستان سے وظیفے پر ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں طبیعیات کی پی ایچ ڈی کرنے آئے تھے۔ میر پبلیکیشن میں سائنس کی کتابوں کے تراجم کرنے لگے جہاں انگریزی کی مترجمہ نتاشا سے ان کی شناسائی ہوگئی، پھر روس کے ہی ہو رہے تھے۔
بیچ میں ایک وقفہ آیا۔ معلوم ہوا کہ انہیں حیدرآباد دکن یونیورسٹی میں نئے شروع کیے گئے روسی زبان کے شعبہ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ شاید دل نہ لگا یا کسی اور وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر پھر ماسکو لوٹ آئے، تب تک وائس آف رشیا نے ایک تو "آؤٹ سورسنگ" شروع کر دی تھی۔ دوسرے ہندی اور انگلش کی مخلوط شکل ہنگلش کا بھی ایک ویب پیج شروع کر دیا تھا۔ آؤٹ سورسنگ سے وابستہ کئی مترجم اپنے گھروں سے ہی کام کرکے اپ لوڈ کر دیتے تھے۔ یوں رام بھائی بھی گھر پر ہی ہنگلش کے لیے کام کرنے لگے جو کہنے کو تو ہنگلش تھی مگر تھی انگریزی ہی۔
کبھی کبھار دفتر آتے تو کوئی مزیدار سی چیز بنا کر لاتے اور وافر مقدار میں لاتے تاکہ سب حصہ دار بن سکیں۔ کبھی تھوڑی چیز لاتے تو پہلے ہی آگاہ کر دیتے کہ دیکھو بھئی کم ہے بس چکھنے کے لیے۔ میں نے دو ایک بار غچہ دے کر چکھنے والی چیز بھی دو یا تین بار چکھ لی تھی، ایسا کرنے پر وہ مسکرا دیتے یا جعلی گھرکی دے دیتے تھے۔
روس میں بسنے والے ہندوستانیوں کی سب سے پرانی تنظیم جو نصف صدی پوری کر چکی ہے، کا نام "ہندوستانی سماج" ہے جس کے موجودہ اور فعال صدر میرے دوست کشمیر سنگھ ہیں۔ جس نے مجھے دو سال پہلے بتا دیا تھا کہ رام بھائی سرطان کے عارضے کا شکار ہیں اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ اب جب وہ کبھی اور بہت کم دفتر آتے تو لاٹھی پکڑے آتے مگر ان کی شکر مقالی میں کوئی فرق نہیں تھا، ویسی کی ویسی تھی اور وہ پہلے ہی کی طرح تازہ اور بلند گفتار ہوتے۔
وہ میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ ماں کی گود میں تھے کہ بھارت لے جائے گئے تھے مگر اردو سے ان کی محبت قائم رہی تھی، ویسے بھی دلی میں رہتے رہے تھے۔
دو برس پہلے جب ہندوستانی سماج نے اپنی جوبلی شاندار طریقے سے منائی تھی تو ہندوستانی سماج نام سے رسالہ جو انگریزی اور روسی زبانوں میں شائع کیا گیا تھا تھا انہوں نے ہی مدون اور مرتب کیا تھا۔ انگریزی حصے کی ادارت بھی انہی کی کوئی ہوئی تھی۔ مگر وہ اپنی مرض کے سبب اس تقریب میں شرکت نہ کر سکے تھے۔
ویسے بھی صدائے روس کو سپتنک میں ضم کر یا گیا تھا۔ دفاتر پہلے والی عمارت سے دور ایک نئے طرز کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے تھا اور منتقل کیے جانے کے چھ ماہ بعد ہی مارچ 2016 سے اردو ہندی سیکشن یکسر تمام کر دیے گئے تھے۔ یوں ہماری ملاقات بھی نہیں ہو سکی تھی۔ گذشتہ برس کی گرمیوں میں ہماری ایک اور رفیقہ کار پراگتی کے ہاں ایک محفل میں رام بھائی سے ملاقات ہوئی تب وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے بلکہ ان کی لاٹھی بھی کچھ مہین ہو چکی تھی۔ ان کی خوش مزاجی اور خوش گفتاری اسی طرح عروج پر تھی۔ کوئی ان سے ان کے مرض کا کوئی کیا پوچھتا جب وہ خود بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔
البتہ اسی برس سردیوں میں کشمیر نے بتایا کہ رام بھائی ہسپتال میں ہیں اور ان کا آپریشن ہونا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ ان کی عیادت کا پروگرام بنایا مگر معلوم ہوا کہ ان کا آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔ بعد میں کشمیر سے پوچھتا رہا تو وہ بتا دیتا تھا رام بھائی ٹھیک ہیں، بس علاج چل رہا ہے۔
ایک دو ماہ بعد استاد امجد علی خان کا پروگرام تھا۔ میں اور میری اہلیہ ہال کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ ہال کے دوسری طرف میں نے رام بھائی کو دیکھا جو چہرے سے خاصے کمزور لگے۔ میرا ارادہ تھا کہ نکلتے ہوئے ان سے ملوں گا۔ حال چال پوچھوں گا مگر پروگرام تمام ہونے کے بعد ہجوم میں وہ دکھائی نہ دیے۔
15 ستمبر کے روز کشمیر سنگھ نے، ریڈیو روس پر کام کرنے والے سابق ہندی، اردو، بنگالی اہلکاروں کے وٹس اپ پیج پر ان کی رحلت کی خبر دی۔ آج میب بھی ان کے آخری دیدار کو گیا تھا۔ کاسکٹ پر پھولوں کے ڈھیر تلے، منہ بند کیے خاموش، آنکھیں موندے، بوٹائی، اپ ٹرنڈ شرٹ اور کوٹ میں لیٹے رام بھائی کو دیکھ کر ایک ہوک اٹھی کیونکہ سامنے دیوار کے ساتھ ان کی ہنستی ہوئی بڑی سی تصویر تھی جس میں ان کی آنکھیں بولتی ہوئی لگتی تھیں۔
میں ان کی کریمیشن یعنی برقی بھٹی میں بھسم کیے جانے کے عمل میں جانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ ویسے بھی رام نام ست ہے۔ رام بھائی اور نہیں تو میرے جینے تک میرے ساتھ جیتے رہیں گے۔
رام کے ست نے مرنا ناہیں
آگ پڑا کوئی ہور رے مورکھ
آگ پڑا کوئی ہور
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...