(Last Updated On: )
راجستھان کے شاعر سرفراز بزمیؔ جن کا معروف قطعہ
علامہ اقبالؔ سے منسوب ہو کر دنیائے ادب میں مشہور ہو گیا
اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ان اشعار کو پڑھنے کے بعد بیشتر افراد کا ذہن اس بات کی گواہی دے رہا ہوگا کہ یہ اشعار شاعر مشرق علامہ اقبال کے ہیں۔ اگر آپ گوگل پر ان اشعار کو سرچ کریں گےتو سرچ انجن پرسب سے پہلےجو تصاویر اور مواد آپ کے سامنے ظاہر ہوگا وہ بھی اس کلام کو علامہ اقبال کا ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہوگا۔لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور اس معاملہ میں گوگل کی تحقیق غلط ثابت ہوتی ہے۔ در اصل یہ اشعار علامہ اقبال کے نہیں بلکہ راجستھان کے شہر سوائی مادھوپور میں مقیم شاعرسرفراز بزمیؔ فلاحی کے ہیں۔دور حاضر کے معروف شاعر سرفرز بزمی کو کئی سال تک پتہ ہی نہیں چلا کہ ان کا یہ قطعہ علامہ سے منسوب ہوکر بر صغیر بلکہ پوری دنیا میں مشہور و مقبول ہوچکا ہے۔سرفراز بزمی حافظ قرآن ہیں اور انہوں نےجامعۃ الفلاح اعظم گڑھ یوپی سے عالمیت و فضیلت مکمل کی ہے۔ اس کے علاوہ بی اےاردو ، فارسی، تاریخ راجستھان یونیورسٹی جے پور سے اورایم اے انگریزی ایم ڈی ایس یونیورسٹی اجمیر سے مکمل کیا ہے۔ فی الحال وہ ایک سرکاری اسکول میں بحیثیت معلم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہندوستا ن اور پاکستان کے مختلف رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔
انٹرنیٹ کا استعمال عام ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے زور وشور سے مہمات کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ پر شاعری، افسانہ ادب اطفال اور دیگر اصناف سخن سے متعلق پیجز اور گروپس بننے لگے جن کے ذریعے اردو داں افراد نہ صرف اپنی تخلیقات شئیرکرنےلگے بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال، غالب اور دیگر جید شعراء کےدیوان کا انبار لگانے میں مشغول ہوگئےہیں۔ شروعاتی دور میں ایک طرف جہاں اس نعمت غیر مترقبہ سے مشہور و معروف شعراء کا کلام اور ان کی معروف و غیر معروف تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں وہیں دوسری جانب ہر آسان اور مذہبی رنگ و روپ میں ڈھلے اشعارکو علامہ اقبال اور مرزا اسداللہ خان غالب سے موسوم کیا جانے لگا۔ یہ معاملہ اس قدر تیزی سے بڑھتا گیا کہ خود اردو داں افراد بھی اس کاشکار ہوکر بغیر کسی تحقیق کےکسی بھی اچھے شعر کو علامہ اقبال کا نام دے کر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لائک اور کمنٹ وصول کرنے لگے۔ جس کی وجہ سے کئی شعراء کے کلام علامہ اقبال سے منسوب ہو گئے۔اسی طرح کا معاملہ راجستھان کے معروف شاعر سرفراز بزمی فلاحی کے ساتھ بھی پیش آیااور ان کا لکھا ہوا قطعہ علامہ اقبال سے منسوب کردیا گیا ۔ سرفراز بزمی کا یہ قطعہ جوعلامہ سے منسوب ہے کو انہوں نے 1987میں ایک مشاعرے میں پہلی بار پڑھا تھا یہ ان کی شاعری کا ابتدائی دور تھا۔ اس قطعہ کی پسندیدگی اور پزیرائی کا عالم یہ ہواکہ اس کی نسبت شاعر مشرق علامہ اقبال سے کر دی گئی۔
1993میں راجستھان اردو اکیڈمی کی جانب سے راجستھان کے قطعات ورباعیات گو شعراء پر جناب غوث شریف عارف کی ترتیب کردہ ایک کتاب شائع ہوئی اس میں مذکور قطعہ شائع ہوا۔پھر پتہ نہیں یہ کیسے پاکستان اور دوسرے ممالک چلاگیا اور علامہ سے کیسے منسوب ہوا کسی کو اس کا علم نہیں ۔ 2008 کے بعد چوں کہ سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا تھا اس لئے یہ قطعہ علامہ اقبال کے نام سے کافی وائرل ہوگیا جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔پاکستان کی مظفرآباد یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر فرہاد احمد فگار نے اس پر ریسرچ کیا تو انہیں اس بارے میں پتہ چلا پھر انہوں نے سرفراز بزمی سے رابطہ کرکے ساری تفصیلات حاصل کیں اور وہاں کے اخبارات میں اسے شائع کروایا۔
سرفراز بزمی کے اس قطعہ کے تعلق سے پڑوسی ملک میں بہت سارے مضامین شائع ہوئے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ان اشعار کے تعلق سے یہ غلط فہمی دور نہیں ہوپائی ہے۔ بزمی صاحب کا کلام ان کی سوچ اور فکر بہت عمدہ اور اعلیٰ ہے ہوسکتاہے اسی وجہ سے اردو داں افراد ان اشعار کو علامہ کا سمجھ بیٹھے ہوں۔ یہ تو ایک پہلو ہے لیکن نہ صرف سرفراز بزمی صاحب کے اشعار علامہ سے منسوب ہوئے ہیں بلکہ دیگر شعرا کے اشعار کو بھی علامہ اقبال سے منسوب کیا گیا ہے۔ اب یہ کام کون کررہاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ نادان اردو دوست جو بلا کسی تحقیق کے اس کام کو کار خیر سمجھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے واہ واہی لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اگر کسی نے ایک بار بھی کلیات اقبال کا مطالعہ کیا ہو یا کم از کم بانگ درا کا مطالعہ کیا ہو تو اس کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ علامہ اقبال کا لب و لہجہ کیسا ہے اور جیسے ہی کوئی جعلی شعر سامنے آتا ہے تو فوری سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ کلام علامہ اقبال کا نہیں ہے۔
سرفراز بزمی کے علاوہ کچھ اور شعراء کے مشہوراشعار ایسے ہیں جن کو بغیر کسی تحقیق کے علامہ اقبال سے منسوب کیا گیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
یہ شعر سید صادق حسین کاظمی کا ہے جو ان کی کتاب ’برگِ سبز‘ میں شامل ایک نظم کا حصہ ہے۔ ان کے ورثا نے یہ شعر ان کی لوح مزار پر بھی لکھ دیا ہے تاکہ ممکنہ حد تک اس شعر کے حوالے سے غلط فہمی کی اصلاح ہو۔
2۔خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر ظفر علی خان کا ہے۔
اسی طرح کا معاملہ شکوہ اور جواب شکوہ کے ساتھ بھی سوشل میڈیا پر دھوم مچاتا رہتا ہے۔ جن کی مثالیں کچھ اس طرح ہیں۔
شکوہ:
3۔بروز حشر بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں
وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے
جواب شکوہ:
4۔ان اعمال کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا
بال جبریل کے مصرعہ ’دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے‘ کے مفہوم کا حامل یہ شعر اقبال سے منسوب ملتا ہے:
5۔دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
بال جبریل ہی کے ایک مصرعہ ’بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی‘ کے مفہوم کا حامل یہ شعر ملتا ہے:
6۔کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے
تیری رحمتوں پر ہے منحصر میرے عمل کی قبولیت
نہ سمجھے سلیقہ التجا نہ مجھے شعور نماز ہے
7۔اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری
یہ شعروقار انبالوی کا ہے۔
8۔فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
یہ شعر بھی علامہ سے منسوب ہوکر بہت مشہور ہوا۔ بر محل اشعار اور ان کے مآخذ کتاب کے مؤلف خلیق الزماں نصرت نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ شعر شہیر مچھلی شہری کا ہے جو 1865 میں جونپور میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسے بے ڈھنگے اشعار علامہ سے منسوب ہیں جن کا یہاں تذکرہ کرتا شاعر مشرق کی شان میں گستاخی کے مترادف ہوگا۔
الغرض علامہ سے منسوب خود ساختہ جو بھی شعر دیکھیں اس کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اقبال کی شاعری کو اصلاح کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اس سے تحریک بھی حاصل کرتا ہے۔سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پرعلامہ اقبال کے کلام اور نام کے ساتھ ہونے والے پوسٹ مارٹم کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی چیز کی جانچ پڑتال، تحقیق اور تفتیش کیلئے دور حاضر میں سب سے بہترین ذریعہ سوشل میڈیا ہے لیکن ہماری نااہلی، کاپی پیسٹ کی عادت اوربلا تحقیق کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرنے کی ہوڑ نے گوگل کو بھی گمراہ کردیا ہے جس کی وجہ سے تحقیق و ریسرچ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہمیں غلط معلومات فراہم کرنے پر مجبور ہے۔
دور حاضر میں کلام اقبال کی آگہی پیدا کرنے اور عوام الناس کو کلام اقبال سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل علم، صحافیوں، سوشل میڈیا سے جڑےزافراد، اردو زبان و ادب کیلئے سرگرم افراد و تنظیمیں اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی تحریروں اور اشعار پر نظر رکھیں جو بغیر کسی سند کے علامہ اقبال سے منسوب کی جا رہی ہوں۔ اس کی روک تھام کیلئےمستند کتابوں اور ویب سائٹس وغیرہ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اگر اہل علم نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہمارا بہت ہی وقیع علمی سرمایہ جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے مغالطوں کی زد میں رہے گا اور ہم اس کی افادیت اور تاثیر سے محروم ہوتے جائیں گے اور آنے والی نسل کا بھی علمی و ادبی نقصان ہوگا۔