آج راجندر یادو جی کی برسی ہے ..
راجندر یادو کی موت ہندی ہی نہیں، اردو کے لیے بھی ایک بڑا نقصان
چوراسی برس کی عمر میں راجندر یادوہمارا ساتھ چھوڑ گئے ۔ انہیں ایک لمبی عمر ملی تھی۔ جس طرح انہوں نے ادب کی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دلی آنے کے بعد میرا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے اردو اور مسلمانوں کے لیے ان کے اندر کے درد اور جذبے کو قریب سے محسوس کیا ہے۔ راجندر یادو نے باضابطہ اردو زبان کی تعلیم لی تھی اور انتقال سے قبل تک انہیں اردو پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی تھی۔ ان کے رسالہ ہنس میں اردو کو خصوصی طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔ وہ ساری زندگی اردو سے قریب رہے۔ جب ہندی کے مشھور نقاد نامور جی نے اردو کی مخالفت میں ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘مضمون ہنس میں لکھا تو اردو کی حمایت میں اس وقت کے تمام بڑے لکھاڑی ایک منچ پر آگئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اردو اور پاکستا نی تحریروں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پھر کہتے تھے، فلاں تحریر میرے رسالہ میں دے دو۔ ہنس میں میری تحریروں کو بھی وہ مسلسل شائع کرتے رہے۔ بلکہ جب راجندر یادو نے ایک خصوصی شمارہ اصغر وجاہت کے ساتھ مسلمانوں پر شائع کیا تو اس میں ایک بڑی ذمہ داری مجھے بھی سونپی گئی۔ بعد میں وہ حصہ کتابی شکل میں راجکمل پرکاشن سے شائع ہوا۔ وہ بھاجپا کے سخت مخالف تھے۔ مجھے یاد ہے، جب بھاجپا دور اقتدار میں تھی۔ انتخاب ہونے والا تھا، تو پریشانیوں کے باوجود وہ مسلسل میٹنگس کررہے تھے۔ ایسی میٹنگس میں ہندی کے مشہورنقاد نامور جی کے ساتھ ہندی کے تمام بڑے ادیب بھی شامل ہوتے۔ میں بھی ان محفلوں میں شریک رہا۔ مجھے اس وقت کا انکا چہرہ اب تک یاد ہے۔ وہ کہا کرتے کہ بھاجپا کو روکنا ہے۔ یہ ہندستان میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہے۔ جس زمانے میں اسامہ بن لادین نے دہشت گردی کی نئی مثال قائم کی، انہوں نے ہنس میں ایک خطرناک اداریہ لکھا۔ اگر اسامہ دہشت گرد ہے تو پہلا دہشت گرد ہنومان جی تھے۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ نے اپنے کام کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔ ہنومان جی نے بھی لنکا میں آگ اسی ارادے سے لگائی۔ اسامہ امریکہ گیا تو ہنومان جی نے لنکا کا انتخاب کیا۔ دہشت گردی کی شروعات ہنومان جی سے ہوئی۔ اس اداریہ کا شائع ہونا تھا کہ ہندی ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے ان پر دنیا بھر کے مقدمے کردیئے۔ ہنس کے دفتر میں ان پر حملہ بھی ہوا۔ مجھے یاد ہے۔ شاید دن کے بارہ بج رہے تھے۔ ان کا فون آیا۔ ذوقی، کہاں ہو۔ جہاں بھی ہو جلدی آجاﺅ۔ میں ہنس کے دفتر گیا تو چاروں طرف پولس ہی پولس تھی۔ لیکن اس پولس چھاﺅنی میں بھی ایک آزاد بادشاہ اپنے قہقہے بکھیر رہاتھا وہ نڈر اور بیباک تھے۔ راجندر یادو چلے گئے۔ جمہوریت اور سیکولرزم کا ایک مضبوط ستون گرگیا۔ اب ادب میں ایسے کم لوگ ہیں جن پر آپ بھروسہ کرسکتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“