راجندر سنگھ بیدی کی زبان و بیان کے بارے میں کچھ نقادوں کا خیال تھا کہ اُن کی زبان میں پنجابیت کے عناصر در آئے ہیں جس کی وجہ سے پڑھتے وقت ان کی نثر میں ناہمواری اور کھردرے پن کااحساس ہوتاہے۔
ہمیں یہ بات نشان خاطر رکھنی چاہیے کہ ہمارے نقاد جب یہ بات کہہ رہے تھے ،اُس وقت اُن کے نزدیک ایک طرف توپریم چند کی سادہ ، اکہری اور عربی فارسی کی مانوس تراکیب کے باوجودہموار نثر کی ایک توانا روایت موجود تھی اور دوسری طرف کرشن چندر کی رومانیت میں ڈوبی ہوئی ملائم ،لطیف اور رواں دواں نثر کی مثالیں بھی تھیں جو یقیناً ان کے پیش نظررہی ہوں گی۔لہذٰا، اس تناظر میں دیکھا جائے تو بیدی کی پنج آبوں کی سرزمیں سے اُپجی ہوئی زبان میں اکھڑ پن بھی ہے اور کھردرا پن بھی موجود ہے۔ لیکن جب وہ اپنے افسانوی ادب میںپنجاب کی دیہاتی زندگی کے بشری محاکات کو بیان کرتے ہیں یا پھر ٹھیٹھ پنجابی کرداروں کے مکالمات بیان کرتے ہیں تو یہی عوامل ان کی نثر میں سقم پیدا کرنے کے بجائے امتیازی اوصاف بن کے اُبھرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نثر میں غضب کی تہہ داری اور ماورائیت موجود ہے ،جسے سمجھنے کے لیے قاری کو اپنی قرأ ت کے دوران ٹھہرٹھہر کرآگے بڑھنا پڑتا ہے۔بیدی نے اپنے افسانوں میں الفاظ کا انتخاب اور اس کا دروبست بڑی ہی معنی آفرینی اور تخلیقیت کے ساتھ کیا ہے اور ایک نئے جہانِ معنی کی تلاش و جستجو کی جسارت بھی کی ہے۔أپ دیکھیںکہ کس طرح لوک گیتوں اور ہندودیومالاؤں کی پُر اسرار بلندیاں ،اُن کی نثر کو رومانیت اور جذباتیت کے دلدل میں گرنے سے بچالیتی ہیں۔
بیدی کے اسلوب کا جائزہ لینے سے پہلے ادب میں اسلوب کی ماہیئت اور معنویت پربھی ایک نظر ڈال لی جائے تو میرا خیال ہے کہ بے محل نہ ہوگا۔یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ آل احمد سرور راجندر سنگھ بیدی کے اولیں مداحوں میں سے تھے۔لہذٰا، بات ان ہی کے قول سے شروع کی جائے تو بہتر ہوگا۔اُنھوں نے اسلوب کے سلسلے میں بہت پہلے لکھا تھا کہ:
”اگر واضح خیال ،موزوں اظہار کافی ہے تو اس میں ندرت، انفرادیت یا بانکپن کا کیا سوال ہے؟ یہیں شخصیت اور اسلوب کی بحث آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹائل ہی شخص ہے (Style is the man)۔ حالانکہ شخصیت اسلوب میں سیدھے سادے طریقہ سے جلوہ گر نہیں ہوتی۔ وہ الفاظ کی چھلنی میں چھن کر آتی ہے اور یہ الفاظ بھی ایک خاص سانچہ رکھتے ہیں، جو الفاظ ایک شحص استعمال کرتا ہے وہ ایک دور یا مزاج یا روایت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ انفرادی کے ساتھ اجتماعی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔“۱
ظاہر ہے کہ مذکورہ تعریف سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح کوئی بھی دو فرد اپنی عقل اور شکل کے اعتبار سے یکساں نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی ادیب یا فنکار فن وفکر کے لحاظ سے مساوی نہیں ہوسکتے ہیں ۔خواہ وہ سگے بھائی ہوں ،سگی بہن ہوں ،ہمعصر احباب ہوں یا کسی ایک تحریک سے وابستگی رکھنے والے مختلف فنکار، ان کے اسٹائل اور اسلوب یکساں نہیں ہوسکتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں جن اجزا اور عوامل کی کارفرمائی ہوتی ہے، آرٹسٹ کے فن پارے میں ان کی جلوہ نمائی ضرور ہوتی ہے۔ انسان جو کچھ سماج سے حاصل کرتا ہے وہ اسے اپنی ذات کی چھلنی میں چھان پھٹک کر بہتر طور پر سماج کو واپس کرتا ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ منٹو، کرشن چندر اور بیدی افسانہ نگار ہیں ان کی شکلیں بھی الگ ہیں اور اسلوب کا تیور بھی ایک نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اپنے تمام تربرتاؤ کے تیور کے ساتھ زبان کے استعمال سے، انہیں استعمال کرنے والے کی شناخت ممکن ہے۔ الفاظ اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں گویا وہ کسی فرد کے خدوخال ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جو الفاظ ایک شخص استعمال کرتا ہے وہ ایک دور یا مزاج یا روایت کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں یعنی وہ انفرادی کے ساتھ اجتماعی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔
پروفیسر محمد حسن نے اردو کے افسانوی ادب میں موجود اسلوب کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے پہلا اسلوب منٹو کا ہے۔ منٹوکے اسلوب پر زور دیتے ہوئے دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ منٹو کی زبان اپنی روزی کی گفتگو سے گہرا رشتہ رکھنے والی شہری زبان ہے جس میں پنجابی لہجے کے ساتھ بمبئیا اردو کی آمیزش ہے۔ دوسرا اسلوب انہوں نے کرشن چندر کی رومانوی نثر کی تابنا کی کو بتایا ہے جہاں روشنی اور دھوپ ہے۔ زندگی کی ناہمواری پر سخت طنز ہے اور یہ طنز واقعات کی زبان پیش ہوتا ہے۔ اچانک موڑ کاٹنے کا کرشن چندر کو شوق نہیں ہے بلکہ یہاں زندگی اپنے پورے توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ ابھرتی ہے۔ اسلوب کی رومانوی خوابناکی کے ساتھ ساتھ یہاں قصے کی فضا اور واقعات اور اس کے زیر زمیں تاثرات کا بہاؤ فیصلہ کن ہے۔ جبکہ راجندرسنگھ بیدی کے اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے محمد حسن نے لکھا ہے کہ ان کے اسلوب میں عام انسان کے اندرونی کرۂ ارض کی سیر ہے جس میں غیر فطری اور غیر معمولی کرداروں کی تحلیل نفسی کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ عام انسانوں کی باطنی زندگی کی چھوٹی موٹی مسرتوں اور حسرتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ گویا چیخوف اور گوگول کی کہانیوں سے قریب ہیں اور اس خصوصیت میں ان کا اگر کوئی ہمسر ہے تو صرف غلام عباس جن کی کہانیاں— ”آنندی“ اور ”دھنک“ یا ”اوورکوٹ“ اس کی مثالیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ غلام عباس تخئیل کے ذریعے بہت دور تک پرواز کرتے ہیں جبکہ بیدی باطنی زندگی کی لطافتوں اور نزاکتوں سے قریب رہتے ہیں۔ ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ اور ”لاجونتی“ اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ ۲
پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی بیدی کے اسلوب کے تعلق سے بنیادی سوال اٹھائے ہیں کہ آخر، بیدی کے یہاں الفاظ کس طرح برتے جاتے ہیں یعنی وہ انہیں کس طرح تخلیقی عمل سے گزارتے ہیں؟ کیا ان کی زبان استعاراتی ہے۔ ان جملوں کی ساخت کی کیا کیفیت ہے۔ کیا یہ ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں یا ان میں کفایت لفظی کے باعث کساؤ کا عالم ہے۔ کیا ان کی نثر تخلیقی رویے کے باعث شاعرانہ کیف وکم سے مملو ہے یا سپاٹ محض ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہر سوال کے جواب میں بیدی کے افسانوں کی مثالوں سے اٹھائے گئے مذکورہ سوالات پر قدرے وضاحت کے ساتھ مدلل بحث کی ہے اور اپنے موقف کا جواز پیش کیا ہے۔ اس تفصیل میں جانے سے پہلے بیدی کے اسلوب پر ان ناقدین کی آراءبھی قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں جن سے بیدی کے اسلوب اور زبان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بیدی کے اسلوب بیان پر بحث کرتے ہوئے اردو ادب میں موجود چند نمایاں اسلوبیات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس تناظر میں بیدی کے اسلوب کو خاطر خواہ طور پر سمجھا جاسکے۔ چنانچہ پروفیسر نارنگ کے مطابق اردو افسانے میںاسلوبیاتی اعتبار سے جو روایتیں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا جو اہم رہی ہیں، تین ہیں۔ ان میں پریم چند، منٹو اور کرشن چند کے نام ان کے نزدیک قابل ذکر ہیں۔ پریم چند کی ہندوستانی زبان جو ادنیٰ سی تبدیلی سے اردو اور ادنیٰ سی تبدیلی سے ہندی بن سکتی ہے، کی مثال پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ اس طرز کی اسلوبیاتی روایت کے پیروکار بیسیوں افسانہ نگار موجود ہیں۔ دوسرا اسلوب منٹو کی صاف اور حیرت انگیز طور پر ہموار زبان کا اسلوب ہے جو پریم چند کے یہاں اگر سونا تھا تو منٹو کے یہاں تپ کر کندن بن گیا ہے۔ پریم چند کے یہاں جو چیز ٹھیٹھ تھی منٹو کے یہاں اس کا ترشا ہوا روپ ملتا ہے۔ منٹو کا اسلوب الفاظ کے بے جا صرفے کی اجازت نہیں دیتا ہر چیز نتھری ہوئی اور حشووزاوئد سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کرشن چندر کے اسلوب میں الفاظ کی فراوانی ملتی ہے۔ ان کی زبان رومانیت کے تمام اوصاف سے مزین ہے لیکن زبان اور اسلوب کا جادو اور دلکشی زیادہ دور تک ساتھ نہیں چلتی ہے۔ تاہم کرشن چندر اور منٹو کے یہاں زبان اور اسلوب میں بے ساختگی اور روانی بدرجہ احسن موجود ہے۔ ان کے افسانوں میں اسلوب کہیں رکنے اور سوچنے پر مجبور نہیں کرتا ہے۔ افسانے کے مطالعہ کے دوران زبان کہیں اپنی موجودگی اور اسلوب کہیں بھی غیر مانوس اور بالکل مختلف ہونے کا احساس نہیں دلاتے ہیں۔
کرشن چند راور منٹو کے علی الرغم بیدی کے یہاں زبان اور اسلوب تھام تھام لیتے ہیں اور قاری کو رک کر انہیں اپنی پوری توجہ سے غور کرنا پڑتا ہے تبھی معنویت کے راز سربستہ کے امکانات اور گنجائشوں کی کلید ہاتھ آتی ہے۔ باالفاظ دیگر بیدی کے یہاں کرشن چند رجیسی رنگینی اور چاشنی اور منٹو جیسی بے باکی اور بے ساختگی نہیں ملتی ہے۔ لیکن ان باتوں سے بیدی کے اسٹائل کی عظمت کو کوئی باٹ نہیں لگتا ہے۔ بلکہ انہیں اپنے اسلوب کی انفرادی پہچان بنانے میں الٹے مدد ملتی ہے۔ کرشن چندر اور منٹو کی زبان ٹکسالی ہے اور مروجہ اشارے اور کنائے کے استعمال سے خیال سازی میں کوئی ندرت اور تازہ پن کا احساس نہیں ہوپاتا ہے جبکہ بیدی یہی آورد والے انداز بیان سے خیال جب الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر آتے ہیں تو استعارے اور علامات کے رموز اور اشارات میں انوکھا پن موجود ہوتا ہے اور قاری کو اس نادر خیال سے زندگی میں پہلی بار واسطہ پڑتا ہے اور وہ جتنی بار اسے پڑھتا جاتا ہے، اس پر معنویت اپنے دروازے وا کرتی چلتی جاتی ہے۔
بیدی کی زبان پر پنجابی لہجہ اور مقامی بولیوں کا بھی زبردست اثر ہے۔ بیدی کو اس مقامی بولی، لوک گیت اور کہاوتوں کی طاقت کا اندازہ ابتدا ہی میں ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں دھڑلے سے، بعض اوقات باالقصد اپنے کردار کی مقامیت اور پنجابیت نمایاں کرنے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔
کہتے ہیں موضوع اپنی ہیئت خود ساتھ لاتا ہے۔ خیال کسی نہ کسی فارمیٹ میں معرض وجود میں آتا ہے۔ بیدی کے موضوعات چونکہ اردو کے گنگا جمنی ادب میں مختلف تھے۔ ان میں پنجاب کے دیہات کی خوش بوتھی۔ رامائن مہابھارت اور گیتا کے مہاتم کی صفات موجود تھیں۔ لہٰذا اس تناظر میں بیدی کے یہاں خیال جن الفاظ کے قالب میں نمودار ہوئے وہ عام روش اور مرکزی دھارے سے بالکل الگ تھے۔ بیدی کی نہ صرف یہ کہ زبان ٹکسالی نہیں تھی بلکہ بیدی کے دماغ میں جو سوچ اور فکر سماتی ہے اس کا اظہار بھی ساختہ اور مسلمہ معیار سے مختلف ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ادب لطیف جیسے معیاری ادبی رسائل کے ایڈیٹروں کے ہاتھوں حزیمت بھی برداشت کرنی پڑی تھی۔ بیدی اس بات کو آغاز میں سمجھ نہیں پارہے تھے اور نہ ہی اردو کے معیاری رسائل اس بات کو سمجھتے تھے۔
دراصل، Geniusہمیشہ rule-breakerہوتا ہے۔ وہ بنے بنائے اصول وضوابط کو توڑتا ہے۔ قدیم آئیکون پر متواتر ضربیں لگاتا ہے اور نیا آئیکون تعمیر کرتا ہے۔ مثلاً اردو کے تنقیدی ادب میں کلیم الدین احمد نے تنقیدی کے بنے بنائے بتوں کو خاکستر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٹھیک اسی طرح بیدی نے افسانوی ادب میں یکے بعد دیگرے بتوں کو زمین بوس کرنے کا جب سلسلہ شروع کردیا اور اپنے خود کے trend setکیے تو ان ایڈیٹروں کو زبان واسلوب کی ایک نئی جہت اور اس کے وسیع امکانات اور گنجائشوں کا احساس ہوا اور وہ رفتہ رفتہ بیدی کے اسلوب سے مانوس اور قائل ہوتے چلے گئے۔
بیدی کا اسلوب دراصل اشاریت اور رمزیت کا حامل ہے۔ بیدی کبھی بھی کوئی بات سپاٹ نثر میں نہیں کہتے ہیں۔ ان کا انداز بیان مورخانہ یا صحافیانہ نہیں ہے۔ ان کا اسلوب تخلیقی ہے۔ ان کی زبان کی ناہمواری اسی تخلیقیت کی وجہ سے ہے۔ وہ تجرد زبان کے قائل نہیں ہے۔ ان کے یہاں خیال بڑے انوکھے اور نادر پیکر میں ڈھل کر آتے ہیں اور ان پیکروں کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں بیدی کو آورد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے باندی کی طرح کھڑے نہیں رہتے ہیں۔ وہ الفاظ کو زندگی بے پایاں زندگی کے تجربات کے کونے کھدرے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عبارتیں سکہ بند قسم کی نہیں ہوتی ہیں۔ ان میں نیاپن اور تازہ پھول جیسی خوشبو اڑ رہی ہوتی ہے۔ ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ سے اس عبارت کی معنوی تازہ کاری ملاحظہ کریں۔
”اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منھ پرے کرتی ہوئی بولی— ”اپنی لاج— اپنی خوشی— اس وقت تم بھی کہہ دیتے— اپنے سکھ مجھے دے دو— تو میں—“ اور اندو کا گلا رندھ گیا۔
اور کچھ دیر بعد وہ بولی— ”اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا—“
مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ وہ زمین میں گڑگیا—
یہ ان پڑھ عورت؟— کوئی رٹا ہوا فقرہ—؟
نہیں تو— یہ تو ابھی سامنے ہی زندگی کی بھٹی سے نکلا ہے۔ ابھی تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑرہے ہیں اور آتشیں برادہ چاروں طرف اڑ رہا ہے۔“
پروفیسر نارنگ نے بیدی کے قول کو نوٹ کرتے ہوئے اپنے مقالہ ”بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں“ میں لکھا ہے کہ منٹو نے بیدی کو ایک دفعہ ٹوکا بھی تھا کہ ”تم سوچتے بہت ہو، لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، بیچ میں سوچتے ہو اور بعد میں سوچتے ہو۔“ اس پر بیدی کا کہنا تھا کہ ”سکھ اور کچھ ہوں یا نہ ہوں، کاریگر اچھے ہوتے ہیں اور جو کچھ بناتے ہیں ٹھوک بجاکر اور چول سے چول بٹھا کر بناتے ہیں۔“ چنانچہ فن پر توجہ شروع ہی سے بیدی کے مزاج کی خصوصیت بن گئی۔ سوچ سوچ کر لکھنے کی عادت نے انہیں براہ راست انداز بیان سے ہٹا کر زبان کے تخیئلی استعمال کی طرف راغب کردیا۔ ”گرہن“ کے پیش لفظ میں انہوں نے خود لکھا ہے:
”جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اسے من وعن بیان کردینے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ حقیقت اور تخئیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔
مشاہدے کے ظاہری پہلو میں باطنی پہلو تلاش کرنے کا یہی تخیئلی عمل رفتہ رفتہ انہیں استعارہ، کنایہ اور اشاریت کی طرف یعنی زبان کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانے کی طرف لے گیا۔ ۳….لیکن وہ کہانی جس میں بیدی نے استعاراتی انداز کو پہلی بار پوری طرح استعمال کیا ہے اور اساطیری فضا ابھارکر پلاٹ کو اس کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا ہے ”گرہن“ ہے۔ لہٰذا، بیدی کے فن میں استعارہ اور اساطیری تصورات کی بنیادی اہمیت ہے۔
’ ’بیدی کے ہاں کوئی واحد واقعہ واقعۂ محض نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں لاکھوں دیکھے اور ان دیکھے واقعات کی نہ ٹوٹنے والی مسلسل کڑی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل میں چونکہ ان کا سفر تجسیم سے تخئیل کی طرف، واقعہ سے لاواقعیت کی طرف، تخصیص سے تعمیمکی طرف اور حقیقت سے عرفان حقیقت کی طرف ہوتا ہے۔ وہ بار بار استعارہ، کنایہ اور دیومالا کی طرف جھکتے ہیں۔ ان کا اسلوب اس لحاظ سے منٹو اور کرشن چندر دونوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ کرشن چندر واقعات کی سطح تک رہتے ہیں۔ منٹو واقعات کے پیچھے دیکھ سکنے والی نظر رکھتے تھے، لیکن بیدی کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ چلتے تو یہ بھی زمین پر ہیں، لیکن ان کا سر آکاش میں اور پاؤں پاتال میں ہوتے ہیں۔ بیدی کا اسلوب پیچیدہ اور گمبھیر ہے۔ ان کے استعارے اکہرے یا دہرے نہیں، پہلودار ہوتے ہیں۔
…..بیدی کے پہلو دار استعاراتی اسلوب کی وجہ سے ان کے کرداروں کے مسائل اور ان کی محبت و نفرت،خوشیاں اور غم، دکھ اور سکھ، مایوسیاں اور محرومیاں نہ صرف انہیں کرداروں ہی کی ہیں بلکہ ان میں ان بنیادی جذبات اور احساسات کی پرچھائیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں جو صدیوں سے انسان کا مقدر ہیں۔ یہ مابعدالطبیعیاتی فضا بیدی کے فن کی خصوصیت خاصہ ہے۔
….بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کے اولین نقوش ان کی ابتدائی کہانیوں میں ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔ ان کا پہلا کامیاب استعمال ”گرہن“ میں کیا گیا تھا لیکن اس وقت بیدی کو اپنی اس قوت کا احساس نہیں تھا۔ آزادی کے بعد ”لاجونتی“ کی کامیابی نے یقیناً انہیں مزید اس راہ پر ڈالا ہوگا خواہ ایسا لاشعوری طور ہی پر ہوا ہو۔
….پہلی بار پوری طرح یہ اسلوب ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ میں کھل کر سامنے آیا۔ اس کے بعد تو جیسے بیدی نے اپنے آپ کو پالیا۔ یا انہیں اپنے اسلوب کی بنیادوں کا عرفان ہوگیا۔ ”ایک چادر میلی سی“ لگ بھگ اسی زمانے میں لکھا گیا۔ اس میں اور اس کے بعد بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کی قوت شفا کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے موقف کے جواز کے طور پر کئی مثالیں دی ہیں جن میں سے دو ایک اقتباس مختصراً نقل کیے جاتے ہیں تاکہ نکتے کی خاطر خواہ وضاحت ہوسکے۔ یہ اقتباس دیکھیں:
”وہ سمجھتا ہے کہ اس بار کی تروتازہ حسین وجمیل دوشیزہ کے بدن پر قبضہ جمائے گا، بار بار اپنائے گا، بے ہوش ہو جائے گا۔ اور وہ نہیں جانتا وہ محض ایک تنکا ہے، زندگی کے بحرزخار میں صرف ایک بہانہ ہے تخلیق کے اس لامتناہی عمل کو ایک بار چھیڑ دینے کا، ایک بار حرکت میں لے آنے کا، اور پھر بھول جانے کا“ (لمبی لڑکی)
”موہن نے ہمیشہ عورت کو مایا کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ باہر سے اور اندر سے اور معلوم ہوتی تھی…. پھر جو عورت کپڑوں میں بھری پری دکھائی دیتی وہ دبلی نکلتی اور دبلی دکھائی دینے والی بھری پری اسے ہی تو مایا کہتے ہیں یا لیلا…. مایا جس کے بارے میں کہیں یہ ہاتھ نہ آئے گی وہی گردن دبائے گی، اور مایا کیا ہوتی ہے۔“۱ (ٹرمینس سے پرے)
پروفیسر وارث علوی نے ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ کے اساطیری اسلوب کا ذکر کیا ہے۔ جہاں اندو کے آرکی ٹائپ میں اس کا کردار اپنے قد سے بہت بڑا معلوم ہونے لگتا ہے اور تاریخ کے اولیں زمانے کی پر اسرار وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ یہ اقتباس دیکھیں:
”مدن کے لیے اندو روح ہی روح تھی۔ اندو کے جسم بھی تھا لیکن وہ ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا خواب کے تاروں سے بنا ہوا۔ آہوں کے دھوئیں سے رنگین، قہقہوں کی زرتاری سے چکاچوند جو ہر وقت اندو کو ڈھانپے رہتا تھا۔ مدن کی نگاہیں اور اس کے ہاتھوں کے دوشاسن صدیوں سے اس دروپدی کا چیر ہرن کرتے آئے تھے جو کہ عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے۔ لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان، گزوں کے گز کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا تھا۔ دو شاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے لیکن دروپدی وہیں کھڑی تھی۔ عزت اور پاکیزگی کی سفید ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی۔“
اسی طرح ”ایک چادر میلی سی“کے اسلوب کے ضمن میں وارث علوی کا خیال ہے کہ وہ منظر جس میں خارجی اور سماجی دنیا یعنی رانو، اس کا پریوار، اڑوس پڑوس کی عورتیں اور کوٹلہ گاؤں کا پس منظر بیان کیا گیا ہے وہ دراصل حقیقت پسندانہ اسلوب کے تحت بیان ہوئے ہیں۔
لیکن عورت ہونے کے ناتے رانو فطرت کی تخلیقی قووں کی آئینہ دار بھی ہے۔ اور اس کی زندگی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے فرد شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا، بطور فرد کے، ایک انسانی وجود کے، رانو اندر سے کیا ہے۔ اس کے جذباتی تقاضے اور احساسی رویے کیا ہیں۔ یہ جاننے کے لیے بیدی رانو کی فطرت کا مطالعہ عظیم فطرت کے آئینے میں کرتے ہیں۔ یہاں اسلوبی طریقہ استعاراتی ہے۔
ان سب کے علاوہ، بیدی اس ناول میں خلق کی گئی دنیا— خارجی اور داخلی دنیا، انسانی فطرت اور عظیم فطرت سے ماورا کائناتی طاقتوں (Metaphysics) کی روشنی میں زندگی کی لیلا کے مبہم اور پراسرار پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے مقامات پر فرد ٹائپ میں، ٹائپ پروٹوٹائپ میں اور پروٹوٹائپ آرکی ٹائپ میں گھلتا ملتا رہتاہے۔یہاں اسلوبی طریقہ کار اسطوری ہے۔
وارث علوی کے یہ الفاظ دیکھیں جسے انہوں نے مذکورہ نکات کو قدرے اختصار سے بیان کردیا ہے، بیدی کے اسالیب کے سلسلے میں غور طلب معلوم ہوتے ہیں:
”ناول کی پوری ڈیزائن میں اسالیب کے تینوں رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ ناول میں اسالیب بھی فطرت اور انسانی فطرت کی عنصری طاقتوں کی مانند موادکی وادیوں، پہاڑوں اور جنگلوں پر اپنی برہنہ جنگ کھیلتے ہیں۔ بیک وقت حقیقت نگاری کا سورج تمتماتا ہے۔ اساطیر کی دھند پھیلتی ہے اور استعارات کی دھنک کھلتی ہے۔“ ۴
بیدی کے سوچ سوچ کے لکھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جب وہ کسی عورت کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ہزاروں لاکھوں سال پرانی عورت ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی کنج کی بات کرتے ہیں تو برہمانڈ کی وسعت میں پھیلے ہوئے کسی دیولوک کا ذکر کررہے ہوتے ہیں۔ مثلاً ”دس منٹ بارش میں“ کے بین السطور میں پراشر کا ذکر واحد متکلم کے موجودہ دوست کا تو بیدی ذکر کرتے ہی ہیں ساتھ ہی اس سیکڑوں ہزاروں سال پرانے رشی پر اشرکا اشارہ بھی اس واقعے میں مضمر ہوتا ہے جو اپنی فطرت سے منچلے اور آوارہ طبیعت کی وجہ سے بارش میں بھیگتی شرابور ہورہی مچھیرن کی ناؤ میں مدد لینے کے لیے سوار ہوجاتے ہیں اور اپنی مراد پالیتے ہیں۔
جوگندرپال نے اسی وجہ سے یہ بات کہی ہے کہ بیدی کے افسانے کو جب کوئی قاری پڑھتا ہے تو اپنے ذہن میں تخلیقتے ہوئے پڑھتا چلاجاتا ہے۔ یعنی تلمیحات کے طور پر ویدوں اور پرانوں سے جابجا اشارے ملتے ہیں۔ انھیں سمجھنے کے لیے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس کے علاوہ، بیدی کی زبان اور عبارتوں سے کماحقہ لطف اندوز ہونے اور مفہوم کو گرفت میں لینے کے لیے لازمی ہوجاتا ہے کہ رموز واقاف کی انتہائی محتاط طریقے سے پابندی کی جائے۔ ورنہ مفہوم پلک جھپکتے میں خفت ہوجاتے ہیں، اور غیر تربیت یافتہ قاری کو اکتاہت محسوس ہونے لگتی ہے۔
بیدی کی زبان اور اسلوب سے پوری طرح معنویت اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری ہندو دیومالا کی کم از کم مبادیات سے ضرور واقف ہوجائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بیدی کے یہاں عام زندگی میں مجامعیت کرنے والے مرد اور عورت بھی شیوپاروتی اور رتی وکام دیو کے پیرائے میں بیان ہوسکتے ہیں۔ ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ کے مدن اور اندو کی اساطیری تاویل میں دیوی دیوتا پوشیدہ ہوسکتے ہیں جوکہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں سال پرانے دیولوک کے باسی ہیں۔ جن سے یہ دنیا بسی ہے۔ وارث علوی کے تاویلات کے مطابق ”وہ آج کے مرد اور عورت کے آرکی ٹائپ ہیں۔“ ان کا ملاپ تقدیس کا عمل ہوسکتا ہے جس میں یونی اور لنگ کی عقیدت مندانہ پرستش کی جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
بیدی کی وہ کہانی جس میں پہلی بار ہندودیومالا کے تناظر میں افسانے کا مکمل پلاٹ تیار کیا گیا تھا وہ ”گرہن“ ہے۔ اس افسانے میں اساڑھی کے کائستھوں میں جب ہولی بیاہ کرآتی ہے تو اس کی ساس اسے پیار سے ”چندارانی“ کہتی ہے۔ اس کا شوہر رسیلا ہوس کا غلام ہے اور تین چار بچوں کی پیدائش کے بعد ہولی جب کمزور ہوجاتی ہے تو ساس اس کا جینا حرام کردیتی ہے۔ وہ گرہن کی رات میں ان ظالموں سے نجات حاصل کرنے کے لیے وہاں سے بھاگ جاتی ہے لیکن اس کے گاؤں کا منھ بولا بھائی کتھورام اسے حاملہ ہونے کے باوجود اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
اس مختصر سے قصے کے پیچھے دیومالا کا اسطورہ یہ ہے کہ بقول پروفیسر گوپی چندنارنگ ایک آسمان کا چاند ہے اور ایک زمین کا چاند ہولی۔ چاند گرہن کی رات راہو اور کیتو آسمان کے چاند سے اپنا دیولوک کا قرض وصولنے کے لیے حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے گہنا دیتے ہیں۔ دوسری طرف رسیلا اور ہولی کی ساس اور اسٹیم لانچ پر ملنے والا کتھورام زمین کے چاند کو گہنانے کے درپے ہیں اور راہو کیتو کی طرح اس کی زندگی میں گرہن لگادینا چاہتے ہیں۔
مذکورہ اسلوب کی وضاحت افسانے کے حاشیے یا پاورق میں کہیں موجود نہیں ہے۔ سوم رس یا امرت جو سمندر منتھن کے بعد نکالا گیا ہے۔ وشنو اسے دیولوک میں دیوتاؤں کو تقسیم کررہے تھے جبھی راہو نام کا راکھسش اپنی صف سے اٹھ کر چھل سے امرت اور پانی الگ الگ کرکے بانٹنے والے وشنو بھگوان کو دھوکا دے کر امرت حاصل کرکے پی لیتا ہے۔ امرت پیتے ہی وہ امر ہوجاتا ہے۔ چاند اور سورج جنہیں اندر اور سوم بھی کہتے ہیں وشنو مہاراج کو بتادیتے ہیں۔ وشنو اسے سدرشن چکر سے دو ٹکڑے کردیتے ہیں۔ دوسرے حصے کا نام کیتو پڑتا ہے۔ اس وقت کسی نے انہیں مزید ٹکڑے کرنے سے روک دیا تھا ورنہ نہ جانے کتنے سارے راہو اور کیتو اس دھرتی پر ہوتے اور حسب معمول سال میں دوبار اپنا قرض وصول کرنے کے لیے چاند اور سورج سے بدلہ لیتے رہتے۔ ہولی کی سوچ میں یہ بات مضمر ہے کہ نیک دل ہندو اس دوران چھوڑ دو چھوڑدو دان کا وقت ہے کی آواز لگاتے ہیں۔ لیکن امرت کے بٹوارے اور سمندر منتھن کا ذکر کہانی میں کہیں نہیں ہے جس کو جانے بغیر افسانے سے کماحقہ طور پر مستفید نہیں ہوا جاسکتا ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے بیدی کی نثر کو استعاراتی اور تخلیقی نثر کہا ہے۔ ان کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے چند اقتباسات بھی نقل کیے ہیں جن سے ان کی نثرکے اسلوب کے محاسن والے تمام پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں۔ بیدی کے سپاٹ پن کی استرداد کرتے ہوئے پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ ان کے یہاں ہر موضوع ان کے ذاتی تجربے کی آنچ میں پگھل کے کہانی کا روپ دھارتا ہے، ایسے میں عمومی انداز تحریر داخلی تجربے کی عکاسی نہیں کرسکتا۔ افسانہ ”لاجونتی“ سے یہ اقتباس دیکھیں:
”لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح نازک سی دیہاتی لڑکی تھی، زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا ہوچکا تھا…. اس کا اضطرار شبنم کے اس قطرے کی طرح تھاجو پارہ ہوکر اس بڑے سے پتے پر کبھی ادھر کبھی ادھر لڑھکتا رہتا۔ اس کا دبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی۔ ایک صحت مندی کی نشانی تھی۔“
اس کے مزاج کی بے قراری کے لیے جو مماثلتیں تلاش کی گئی ہیں وہ کتنی دلکش ہیں۔ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، میں ایسی تخلیقی زبان کو استعاراتی کہتا ہوں۔ اس میں تخلیقی عمل کا بڑا جوکھم ہے اور اس انداز میں لکھنا کسی تخلیقی فنکار کے بس کی ہی بات ہوسکتی ہے۔ اگر واقعی اعلیٰ ادب مماثلتوں کی تلاش سے عبارت ہے تو اس معاملے میں بیدی کا امتیاز نمایاں ہے۔۱
پروفیسر وہاب اشرفی کا خیال ہے کہ بیدی کا استعاراتی اسلوب بہت ہی Picturesqueہے۔ انہوں نے اپنے اس موقف کے لیے جوحوالہ دیا ہے وہ ’لاجونتی“ کے یہ چند جملوں پر موقوف عبارت ہے۔ دھرتی کی یہ بیٹیاں مرد کو یوں سمجھتی تھیں جیسے بادل کا ٹکڑا ہو جس کی طرف بارش کے لیے منھ اٹھاکر دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیدی نے یہاں ایک بڑی نفسیاتی اور جنسی سچائی کو انتہائی چابکدستی سے پیش کردیا ہے۔ دھرتی آبیاری کے بعد ہی ثمر آور ہوسکتی ہے۔ مرد اور عورت کے جنسی معاملات کی یہی کیفیت ہے جہاں خواہ مخواہ کی لذتیت نہیں ہے بلکہ آفاقی سچائی کو فطرت کے بعض مظاہر سے تشبیہ دے کر مؤثر بنادیا گیا ہے۔ ایسے جملے اسی ذہن کی پیداوار ہوسکتے ہیں جن میں خلاقانہ صلاحیت بے پناہ ہوتی ہے۔ بیدی کے یہاں ایسے اظہار کی کمی نہیں ہے۔
بیدی کے یہاں افسانے کے موضوع کے اعتبار سے استعاراتی اور اشارات استعمال ہوتے ہیں۔ ”دس منٹ بارش میں“ یا ”جوگیا“ یا ”کوارنٹین“ کا اسلوب اور زبان کے تمام لوازمات کا التزام ان افسانوں کے پس منظر کے مطابق مشکل اور مستعمل ہوئے ہیں۔ بیدی نے انہیں بڑی ہم آہنگی اور مماثلت کے ساتھ افسانے کے کالبد میں ڈھالا ہے۔ بیدی کے اسلوب وزبان کے سلسلے میں یہ احتیاط اور ہنر مندی انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز بناتی ہیں۔
”دس منٹ بارش میں“ ہرشے اس قدر بھیگی بھیگی سی محسوس ہوتی ہے کہ افسانے کے دورانیہ میں گمان ہوتا ہے جیسے ہر طرف جل تھل جل تھل ہے اور ہلکی بارش تمام کچی دیواروں کو آج مسمار کردے گی یا جانور کیا انسان کیا نباتات اور کیا جمادات آسمان اور زمین کے بیچ موجود ہرشے اس بے وقت کی بارش میں بھیگ رہی ہے۔ بیدی کا یہ کمال فن تخلیقیت کا بہترین نمونہ ہے۔“
اسی طرح ”کوارنٹین“ میں پلیگ، چوہے اور کوارنٹین کے اطراف پوری انسانیت پلیگ کی گلٹیوںاور بخار سے بچنے کے لیے ہراساں اور پریشاں محسوس ہونے لگتی ہے۔ کہانی میں شروع سے آخر تک ایک جہنم سی آگ اور ہیبت طاری رہتی ہے۔ چاروں طرف موت کا سامان دکھائی پڑتا ہے۔ ایک نفسی نفسی کا عالم پڑھنے والے کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ یہ تخلیقی اسلوب کا معجزہ ہی ہے۔ ”جوگیا“ کا سارا ماحول رنگوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ خوش رنگ استعاروں سے اور محبت آمیز اشاروں سے پورا افسانہ رنگا ہوا ہے۔ جگل کو دنیا ہر روز اس رنگ میں رنگی ہوئی نظرآتی ہے جس رنگ کا لباس اس کی اپنی جوگیا اپنے تن سے لگالیتی ہے۔ یہ دیوانگی کی حدتک رنگوں میں ڈوبادینے والا افسانہ ہے۔ بیدی نے اس افسانے میں تمام اچھی بری دلی کیفیتوں کو رنگوں کے ذریعے منقش (depict) کردیا ہے۔ یہ اسلوب کا کرشمہ ہی ہے کہ کہانی کی ہیروئن کا نام تک جوگیا ہے جو کہ جوگ اورلفظ جوگن سے مشتق ہے اور افسانے کا منتہا اسی جوگیا رنگ پر ہوتا ہے۔ ہرچند کہ وہ اس دن ہلکے گلابی رنگ کی ایک خوبصورت ساڑی پہن رکھی ہوتی ہے لیکن انجام جدائی ہے اور اس جدائی یا ویراگ کا رنگ ’جوگیا‘ ہی ہوتا ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس قابل قدر ہے جہاں بیدی نے اپنی تخلیقی نثر سے احساس میں جادو ساجگادیا ہے۔
”جوگیا کا چہرہ سومنات کے پیش رخ کی طرح چوڑا تھا جس میں قندیل جیسی آنکھیں، رات کے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو روشنی دکھاتی تھیں۔ مورتی میں ناک اور ہونٹ زمرد اور یاقوت کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ سر کے بال کمر سے نیچے تک کی پیمائش کرتے تھیاس کا چہرہ کیا تھا پورا تارا منڈل جس میں چاند خیالوں اور جذبوں کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا تھا….“
پروفیسر سید محمد عقیل رضوی نے عصری آگہی کے بیدی نمبر میں شامل اپنے مضمون ”بیدی کی کہانیاں—ایک جائزہ“ میں لکھا ہے:
”بیدی نے اپنے افسانوں میں ایک خاص طرح کی زبان کا استعمال، اپنے فن کے اظہار کے لیے کیا ہے۔ حقیقتاً وہ سوشل ریلسٹ ہیں۔ اسی لیے وہ اردو کی افسانوی زبان کا ایسا motiveطرز نہیں اپناتے جس کا چلن افسانے کے لیے عام رہا ہے…. وہ واقعات کی اصلیت اور سماجی حقیقتوں کو صحیح طور پر پیش کرنے (Projection) کی دھن میں، زبان کی بناوٹ اور اس کے مسلمات کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ان کی عبارت میں گھیردار اطناب کے بجائے۔ حیرت انگریز اختصار اور طنز کی کاٹ ابھرتی ہے…. بیدی کے الفاظ، اپنی حقیقتوں کو اس طرح سے radiateکرتے ہیں کہ زبان کی بناوٹی چمک دمک ماند پڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔۵
انہوں نے اپنے اس موقف کو چند مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں جو انہوں نے اقتباسات نقل کیے ہیں، اس سے بخوبی صراحت ہوجاتی ہے اور مذکورہ بالا نکات نمایاں ہوجاتے ہیں:
”بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن سے خون پونچھ ڈالا۔ اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن سالم تھے۔ لیکن دل زخمی۔“
(لاجونتی)
”میں نے کوٹ کھونٹی پر لٹکادیا۔ میرے پاس ہی دیوار کا سہارا لے کر شمی بیٹھ گئی۔ اور ہم دونوں سوئے ہوئے بچوں اور کھونٹی پر لٹکے ہوئے گرم کوٹ کو دیکھنے لگے۔
(گرم کوٹ)
پروفیسر عقیل رضوی کاخیال ہے کہ ان جملوں میں نپے تلے الفاظ ہیں اور جملے کی اثر انگیزی آخری جملے میں نچڑ آئی ہے۔ وہ مزید براں رقم طراز ہیں کہ کہانیوں میں بیدی کی زبان پر زیادہ تر Non-intentionalموڈ طاری رہتا ہے۔ جس سے زبان میں بنوٹ نہیں داخل ہوتی اور جملوں میں کئی پرتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی زبان میں کہانی کی اکائی شاید زیادہ قائم رہتی ہے اور اس کا تسلسل بھی مجروح نہیں ہوتا ہے۔ بیدی کے یہاں چھوٹے چھوٹے جملے بھی کہانی کے موڈ اور اس کے تحیر کو نہیں بھولتے اور اس طرح ان کی کھردری ناتراشیدہ زبان، خود اپنا ایک حسن پیدا کرلیتی ہے جو حقیقتوں کا حسن ہے، جس میں زندگی کی کربناکیاں ہیں اور جو تکلفات کی حنابندی سے قطعاً بے پروا ہے۔
پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے بیدی کی زبان کی خامیوں کی بہت ہی جارحانہ طور سے نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا اعتراض ہے کہ بیدی کو زبان اور محاورے پر عبور حاصل نہیں ہے۔ ان کے یہاں استوار اور منضبط نثر نہیں ملتی۔ اکثر جملوں کی ساخت میں ناپسندیدہ پیچیدگی اور طوالت نظرآتی ہے۔ ان کے بیان کا تکلف اور مصنوعی پن پوری کہانی کی فضا سے غیر آہنگ ہوتا ہے اور اس لیے ابلاغ کے مقصد کو جھٹلادیتا ہے…. بیدی الفاظ کے دروبست کا کوئی سلیقہ نہیں رکھتے…. بیدی کے یہاں ان نقائص کی یہ کہہ کر حمایت کرنا کہ وہ پنجابی اردو لکھتے ہیں، محکم دلیل نہیں ہے۔ زبان کی خوبی کا بہرحال ایک معیار ہوتا ہے، جسے اہل زبان ہی متعین کرسکتے ہیں اور الفاظ کے بنیادی سانچوں اور عام بول چال میں آچکنے کے بعد ان کے تغیر وتبدل کا شعور ہر اس لکھنے والے کے لیے ضروری ہے جو عام انسانوں کی زندگی کے بارے میں لکھے۔ اور معیاری، مہذب اور تربیت یافتہ قارئین کے لیے لکھے۔“ ۶
پروفیسر اسلوب احمدانصاری کی زبان سے متعلق نکتہ چینی 1968سے پہلے سامنے آئی تھی تب بیدی کی زبان میں جو سقم تھا اسے خود بیدی نے تسلیم کیا اور انہیں دور کیا ہے۔ انہوں نے اس کے جواز کے طور پر عصمت چغتائی اور فیاض رفعت کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پنجابی کے الفاظ سے زبان enrichedہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ”مکتی بودھ“ کا افسانہ ”بولو“ اور ”صرف ایک سگریٹ“ اور ”ایک باپ بکاؤ ہے“ وغیرہ زبان کے اعتبار سے اچھے افسانے ہیں۔ ”حجام الٰہ آباد کے“ کی زبان بھی بیدی کے ”کوکھ جلی“ مجموعے کی زبان سے کئی درجہ بہتر ہیں۔ بیدی نے کئی فلموں بشمول ”مرزاغالب“ کے مکالمے لکھے ہیں ”دیوداس“ کے مکالمے لکھے اور یہ سب فلمیں باکس آفس پر کامیاب ہوئی ہیں۔ البتہ بیدی کا کوئی دیہاتی پنجابی کردار اپنی مقامی بولی میں مکالمہ ادا کرتا ہے تو یہ کوئی معیوب چیز نہیں بلکہ اسے تو افسانے کے محاسن میں شمار کیا جانا چاہیے۔
حوالہ جات:
۱۔ نثر کا اسٹائل کیا ہے، آل احمد سرور، نظر اور نظریے، ص48
۲۔ افسانوی ادب کی تدریس، ادبیات شناسی، محمد حسن، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، اشاعت 1989، ص127
۳۔ بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں، اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص406
۴۔ راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ، ص433
۵۔ اردوافسانے کی نئی تنقید، انجمن تہذیب نو پبلی کیشنز، الہ آباد، اشاعت2006، ص241
۶۔ بیدی کا فن، ادب اور تنقید، اسلوب احمد انصاری، سنگم پبلشرز، الہ آباد، اشاعت 1968، ص314
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔