راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا بڑا خوبصورت مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اطہر پرویز:
“بیدی کے یہاں مشاہدے اور ‘غور و فکر’ نے بڑا کام کیا ہے۔ وہ اپنے کردار کی روح میں جا کر بس جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی روح ان میں حلول کر گئی ہے۔ اس لیے انہیں علیحدہ سے کوئی تقریر نہیں کرنی پڑتی۔” (1)
راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں سادگی کے ساتھ ساتھ استعاراتی اور اساطیری پہلو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بھولا ، چھوکری کی لوٹ اور تلا دان میں انھوں نے بچوں کی نفسیات کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ دیہاتی ماحول کی منظر کشی کی ہے۔ بھولا ایک ایسے بچے کا کردار ہے جسے کہانیاں سننے سے بڑی دلچسپی ہے اور بوڑھے دادا سے ہر رات کہانیاں سنتا ہے۔ ایک دن صبح کو کہانی سننے کی فرمائش کرتا ہے جس پر اس کے دادا یہ کہتے ہیں کہ دن کے وقت کہانی سننے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔
بیدی نے بچے کی ذہنی کیفیات کی بڑی سچی تصویر پیش کی ہے ۔ رکھشا بندھن کے روز اس کا ماموں راکھی بندھوانے آتا ہے لیکن اس روز دیر ہو جاتی ہے اور بھولا اپنے تئیں یہ سوچ لیتا ہے کہ اس کا ماموں کہیں راستہ نہ بھول گیا ہو۔ جس کہانی میں بیدی نے پہلی بار استعاراتی انداز پوری طرح استعمال کیا اور ساتھ ہی اساطیری فضا کو ابھار کر پلاٹ کو اس کے ساتھ تعمیر کیا وہ ‘گرہن’ ہے۔اس میں ایک گرہن تو چاند کا ہے اور دوسرا گرہن اس زمینی چاند کا ہے جسے عرف عام میں عورت کہتے ہیں اور جسے مرد اپنی خود غرضی اور ہوس ناکی کی وجہ سے ہمیشہ گہنانے کے درپے رہتا ہے۔ وارث علوی لکھتے ہیں:
“گرہن ‘اور دانہ و دام، کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ بیدی شروع ہی سے ایک پختہ فنکارانہ ذہن لے کر ادب میں آئے تھے۔۔۔۔ بیدی کی سنبھلی ہوئی فنکارانہ نظر حسن اور بدصورتی دونوں کو زندگی کی ایک حقیقت اور فن کے موضوع اور مواد کے طور پر قبول کرتی ہے۔”( 2)
بیدی کے افسانوں میں تصنع نظر نہیں آتا بلکہ نیچرل انداز ملتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا اپنے گرد و پیش کا گہرا مشاہدہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان کی رائے ہے:
“وہ حقیقت کو معمہ بنا کر پیش کرنے کے عادی نہیں تھے۔ ان کے یہاں حقیقت کتنی ہی تلخ ہو، سیدھی سادی ہوتی ہےاور سیدھے سادے انداز میں بیان کی جاتی ہے۔ انہوں نے ادب اور زندگی کے تعلق کو متحرک ، لچکدار اور سیال صورت پایا۔ اسی لیئے انھوں نے کسی میکانکی انداز میں اسے پیش نہیں کیا۔” (3)
راجندر سنگھ بیدی نے فسادات سے متعلق بہت کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا اس میں ان کی فکر کی گہرائی جھلکتی ہے۔ ان کا افسانہ “لاجونتی” اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی لکھتے ہیں:
“انھوں نے فساد کے موضوع پر لکھا تو وہ فساد کے سلسلے میں لکھے جانے والے اکثر افسانوں کی طرح سطحی اور واقعاتی نہیں ہے۔ ان کا افسانہ “لاجونتی” فساد کے سلسلے میں کامیاب تخلیق ہے۔ یہ افسانہ جذبات اور حقیقت کی ایک ایسی امتزاجی تصویر ہے جس کی تخلیق صرف بیدی کے حساس اور حقیقت بین قلم سے ممکن تھی۔” (4)
راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لمس کا بغور مطالعہ کیا جائےتو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ہر لمحہ کچھ نیا رونما ہونے والا ہے لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ابھی کچھ نمودار ہونے والا ہے۔ وہ سکون کی کیفیت میں ایک ہجوم کی شکل میں کھڑے ہیں اور کچھ نمودار ہونے کا بڑا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
یہ افسانہ مکمل طور پر ایک معاشرے کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ جس طرح ایک معاشرے میں لوگوں کا طرز حیات ہےلوگوں کی مختلف واقعات کے دوران پیدا ہونے والی کیفیات کو بے نقاب کرتا ہے۔جب ایک معاشرے میں ایک جگہ پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے تو اسے کس طرح منتشر کیا جاتا ہے۔ اس افسانہ میں دکھایا گیا ہے کہ جب لوگ ایک جگہ پر ہجوم میں کھڑے ہوں تو ان کو منتشر کرنے کے لئے لوگوں نے یوں آواز لگائی: “سانپ آیا! سانپ آیا”
اس افسانے میں ایک جگہ کچھ طلباء کو دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنا جیومیٹری کا پرچہ دے رہے ہیں ان طالب علموں میں سے ایک طالب علم اس محنت طلب کام سے جی چراتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ اس محنت طلب کام کا ہمیں کیا فائدہ ہے۔ جو یہ خواہش کرتا ہے کہ وہ ہجوم میں موجود ہو اور ہجوم کی رونق اور چہل پہل سے مستفید ہو۔یہ طالب علم اصل میں ان ہزاروں لوگوں کی عکاسی کر رہا ہے جو محنت طلب کام سے جی چراتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی دنیا کی رونق اور چہل پہل اور مسرت میں گزارنا چاہتے ہیں۔
اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو راجندر سنگھ بیدی نے اپنے اسلوب کو چار چاند لگا نے کے لئے الفاظ کی تکرار کی ہے۔ الفاظ کی تکرار سے اس کے افسانے “لمس” میں رونق اور دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ الفاظ کی تکرار مختلف جگہوں پر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
“پھر پیپل، کلیپ، کلیپ، کلیپ، کلیپ لاتعداد تالیاں ایک ساتھ بجا رہے تھے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قہ قہ قہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ ہنسنے لگے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ “لمس” فکری اور فنی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو پڑھنے سے ایک عام قاری بھی محظوظ ہوتا ہے۔
کوکھ جلی راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ افسانہ ایک معاشرے میں ہونے والے واقعات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس افسانے میں مصنف کے کردار ہزاروں لوگوں کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ماں کا کردار ان سب ہندوستانی ماؤں کی عکاسی کررہا ہے جن کے خاوند شراب نوشی کے عادی ہوتے ہیں اور انہیں کس طرح زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس افسانے میں بیٹے کا کردار ان ہزاروں بیٹوں کی عکاسی کر رہا ہے جو شراب نوشی کے عادی ہوتے ہیں اور رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔جبکہ ان کی مائیں اس وقت تک بے چینی کی حالت میں رہتی ہیں جب تک ان کے بیٹے گھر نہیں آ جاتے۔
اس افسانے میں جو خاوند کا کردار ہے وہ ہندوستان کے سب خاوندوں کی عکاسی کررہا ہے جو خود تو شراب نوشی کرتے ہیں لیکن وہ اپنی بیویوں کو پریشان نہیں کرتے ۔ اس افسانے کا پہلا کردار ایک ماں کا ہے جو اپنے بیٹے کے انتظار میں بے چین ہے جس کا بیٹا سگریٹ نوشی کا عادی ہے اور وہ رات کو دیر سے گھر آتا ہے جس کی ماں بے چینی سے دروازے پر دستک سننے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ جب بیٹا گھر آتا ہے تو پھر ماں کی بے چینی ختم ہو جاتی ہے۔ ماں اپنے بیٹے کو بعض اوقات گالیاں بھی نکالتی ہے۔ بیدی نے ماں کی گالیاں کچھ اس انداز میں بیان کی ہیں:
“اجڑ گئے” تو گھمنڈی کو ماں کی یہ گالی بہت پسند آتی ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ ماں ایک دم سے گھر اجاڑ دیتی ہے اور پھر اگلے ہی لمحے وہ بسا لیتی ہے۔ دراصل اس میں مصنف یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ ماں کبھی بھی اپنے بیٹے کو دل سے برا بھلا نہیں کہتی بلکہ بعض اوقات وہ غصے میں آ کر ایسے الفاظ بول جاتی ہے ۔ اس افسانے میں وہ یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اگر کسی ماں کا بیٹا چاہے جتنا ہی برا ہو تو ماں اپنے بیٹے کو برا نہیں کہتی۔ پھر بھی ماں اپنے بیٹے کے لئے یہ الفاظ بولتی ہے:
“میں صدقے میرے لال”
اس افسانے میں جو گھمنڈی کا کردار بیان کیا گیا ہے وہ دراصل ان ہزاروں بیٹوں کی عکاسی کر رہا ہے جو خود تو شراب نوشی اور سگریٹ کے عادی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ماؤں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آتے ہیں ۔ گھمنڈی جو خود شراب نوشی اور سگریٹ نوشی کا عادی ہے ۔ جب وہ رات کو دیر سے گھر آتا ہے تو وہ اپنی ماں سے بولتا ہے کہ آپ کو سو جانا چاہیے تھا آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں۔
افسانہ کوکھ جلی میں راجندر سنگھ بیدی نے عورت کے خاوند کا حلیہ کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
“وہی کٹا ہوا سا ہونٹ جس میں سونے کے کیل والا دانت دکھائی دے رہا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں بھی اس دانت کو ڈھانپنے سے قاصر ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے افسانے “جب میں چھوٹا تھا” کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ مصنف کی آپ بیتی ہے۔اس افسانے کے ذریعے راجندر سنگھ بیدی ہمیں ہندوستان کے معاشرتی خدوخال سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ بچپن کے مشغلے اس افسانے میں بیان کر رہا ہے۔ وہ ان مشغلوں سے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ انسان کو ہر لحاظ سے آزادی ہونی چاہیئے تاکہ وہ اپنی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کر سکے۔ اس کی یہ آزادی ہر طرح کی آزادی ہے۔ یعنی یہ ملکی آزادی بھی ہو سکتی ہے اور معاشرتی آزادی بھی۔ سیاسی اور سماجی آزادی بھی ہو سکتی ہے، روٹی اور کپڑے کی آزادی بھی ۔ وہ مکمل طور پر آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا قائل ہے۔
اس افسانے کے ذریعے راجندر سنگھ بیدی نے ہندوستان کی معاشرتی عکاسی کی ہے ۔ وہ ہندوستان کے بچوں کے بچپن کے کھیلوں اور شرارتوں کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
“جب ہم بچے پرتھوی بل کے کھلے آنگن میں کبڈی ، بارہ گناں اور شاہ شٹاپو کھیلتے ہوئے تھک جاتے اور دماغ ایک نیا کھیل ایجاد کرنے سے عاجز آجاتا تو ہم ندی میں نہانے کے لئے چلے جاتے۔”
راجندر سنگھ بیدی نے اس افسانے کے ذریعے ہندوستان میں بچوں کی پیدائش کی خوشی میں ہونے والی مختلف رسومات کا بھی ذکر کیا ہے اور بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے یہ بتاتے ہیں کہ لوگ بچوں کے نام رکھوانے کے لیے اس کے باپ کے پاس آتے ہیں۔ اگر اس افسانے کے موضوع کی طرف دیکھا جائے تو یہ ایک روائتی موضوع ہے ،کیونکہ ہندوستان کے لوگ جب بھی اپنے بچوں کو کوئی کہانی سناتے ہیں تو وہ کچھ ان الفاظ میں کہانی کی ابتدا کرتے ہیں:
“جب میں چھوٹا تھا تو”
عموماََ ہندوستانی معاشرے میں جب بھی بزرگ کہانی کی ابتدا کرتے ہیں تو وہ یہی الفاظ دہراتے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستانی معاشرے میں لوگ شروع سے ہی اپنے بزرگوں کی کہانیوں کو سنتے آ رہے ہیں اور اس افسانے میں بھی اس روایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر ہم فنی لحاظ سے اس افسانے کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کہانی بیان کرنے پر مکمل مہارت رکھتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی منظر کشی کرنے پر بھی مکمل مہارت رکھتے ہیں ۔ وہ ایک جگہ پر کچھ اس انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
“ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی جس کے دونوں کناروں پر ایک ذخیرہ تھا۔”(4)
اس فقرے کو پڑھنے سے ہماری آنکھوں کے سامنے گھر اور ندی کا منظر فوراََ واضح ہو جاتا ہے۔ الفاظ کے بیان میں بھی مصنف مکمل مہارت رکھتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ مصنف جدھر چاہتا ہے الفاظ کو پکڑ کر ادھر لگا دیتا ہے۔ مصنف نے اس افسانے میں کچھ ہندی الفاظ کا استعمال کر کے اپنے افسانے کی زبان میں دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو راجندر سنگھ بیدی کہانی کو سمجھانے اور بیان کرنے پر مکمل مہارت رکھتے ہے۔راجندر سنگھ بیدی کا فکر وفن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ وہ بعض تحریروں میں اپنے آپ کو شامل کر کے ایک آپ بیتی کا گمان بھی کرواتے ہیں۔ ان کی تحریریں ادبی قارئین سے ہٹ کر ایک عام قاری کے لیے بھی ہیں، ایک عام قاری بھی ان کے فکر و فن سے بہت جلد آشنا ہو جاتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی لسانی تشکیلات سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کے کردار آزاد ہیں۔ وہ کبھی بھی واعظ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ہیں نہ ہی ان کے ہاتھ میں کوئی چھڑی ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنے کرداروں کو ہانکتے پھریں۔ انہوں نے سماجی اونچ نیچ کو دل سے محسوس کیا اور سماجی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔ میری رائے میں راجندر سنگھ بیدی افسانہ نہیں لکھتے بلکہ افسانہ انہیں لکھتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...