رجم
—————–
" میں کچھ نہیں سنوں گی ۔ خاموش ہوجاؤ تم "
وہ پھر بھی نہیں رکی تو میں جھلا گئی
" تم آخر کیوں یہ سب مجھے بتا کراس قصے کا گواہ بنا رہی ہو "
میں نے اسے بری طرح سے ڈانٹ دیا ۔ لیکن وہ روئے جا رہی تھی
" مجھ سے گناہ ِ کبیرہ جو سرزد ہو گیا ہے ،تم ایک بار سنو تو، سن لو نا مجھ سے
اس کا کچھ کفارہ تو ہو گا نا وہ پوچھنا ہے ۔۔ "
بری طرح سے رونے کی وجہ سے اس کا وجود کانپ رہا تھا ۔ مسلسل ہچکیوں کے درمیان وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہی تھی ۔۔
" دیکھو طاہرہ تمہارے بس میں اب صرف یہی رہ گیا ہے کہ تم ا اللہ اور اس کے رسول صلعم سے معافی مانگو ۔ سچے دل کے ساتھ ، ۔ اور اس کا ذکر کسی سے بھی مت کرو ۔۔ مگر تم ہو کہ ہر کسی کو بتاتی پھر رہی ہو ۔۔ "
" لیکن یہ گناہ ِ کبیرہ ہے اس کی سزا تو یہی ہے ناں کہ مجھے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے"
اس نے روتے ہوئے کہا
"ہاں رجم کی سزا ہے ، لیکن میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اس کے لیئے گواہ چاہئیں ، تم ہر کسی کو بتا کر گواہ پر گواہ بنائے چلی جا رہی ہو ۔۔۔ "
گواہوں کی غیر موجودگی سے گناہ کی ہییت تبدیل ہو جائے یہ کیسے ممکن ہے ۔۔ میں نے دل میں سوچا ۔
" میری معافی ہو جائے گی کیا "
اس نے بے یقینی سے پوچھا
" تم اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگتی رہو سزا اور جزا اس مالک کا کام ہے تم خود کو سزا دینا بند کرو ۔ توبہ اور معافی کے بعد یہ اللہ اور اس کے بندے کے بیچ کا معاملہ ہے ، اور اللہ معاف کرنے والا رحیم ہے "
" میں خود کو معاف کروں تو اللہ کے حضور پہنچوں ناں ۔۔ اور میں خود کو معاف کر ہی نہیں پا رہی "
"جب تم خود کو ہی معاف نہیں کر رہیں تو اللہ سے کیسے امید رکھو گی "
" تم بھی گواہ بن چکی ہو میں نے تمہیں خود بتا دیا ہے مجھ پہ سزا واجب ہو چکی ہے "
"میں نے تمہاری بکواس کا یقین نہیں کیا اور میں نے کونسا آنکھوں سے کچھ دیکھا ہے وہ چشم دید گواہ ہوتے ہیں " میں اسے تسلی دی"
"ایسے گناہ بھلا چشم دید کیسے ہو سکتے ہیں ، یہ تو چھپ کے کیئے جاتے ہیں "
اس نے مجھے تقریبا" آدھا پاگل کر دیا تھا ۔ ہر روز وہ اپنے پچھتاوے کے دلدل میں مزید اتر جاتی ۔
اس کی صحت کھانا پیا نوکری سب متاثر ہو رہے تھے ۔
"تم میری تکلیف ٹھیک سے سنتی تک نہیں ہو میں بتانا چاہتی ہوں کہ اس گناہ کے دلدل میں میں اتری کیسے"
" نہیں سننا مجھے کچھ بھی "
میں اس مسلسل بکواس سے عاجز آ چکی تھی
پھر وہ مجھ سے کٹ گئی ۔ ملتی نہیں تھی ، یہ بھی پتہ چلا کہ اس نے اور لوگوں سے اپنی خطا کا کفارہ پوچھنا شروع کر دیا ۔ ایک دن صائمہ نے مجھے دکھایا
" دیکھو یہ ہے وہ ڈرائیور، اس نے گاڑی چلانی سکھائی تھی طاہرہ کو، اور اس دوران پتہ ہے اس آدمی نے کیا کیا ۔۔۔۔ "
"تمہیں یہ سب کہاں سے معلوم ہوا "
میں نے اس کی بات کاٹی
" خود اسی نے بتایا "
اف میرے خدا طاہرہ نے یہ سب کس کس کو بتا دیا ، اب اسے مصالحے دار خبر بنا کرپھیلایا جا رہا تھا
" کیا اس قصے کو اب نشر ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا "۔
میں نے دکھ سے سوچا
طاہرہ جس جہنم میں جل رہی تھی اسے کوئی نہیں سمجھ رہا تھا ، اور اب یہ واقعہ تمام جاننے والوں میں گردش کررہا تھا ۔
ایک دن اچانک ملی تو ہچکیوں سے رو رہی تھی
" تم ٹھیک کہتی تھیں ، مجھے کسی کو بتانا ہی نہیں چاہیئے تھا ، سب نے مجھے تماشہ سمجھ لیا ہے میں دنیا کے لیئے ایک مذاق بن گئی ہوں "
"تم کسی کی بات مانتی ہی کب ہو" میں نے بے بسی سے اسے روتے ہوئے دیکھا ، بالکل تباہ حال لگ رہی ۔ ہڈیوں کا زندہ ڈھانچہ میلے کپڑے ۔ نون میم راشد کا مصرعہ میرے دماغ مین ناچنے لگا
کہ جیسے کسی شہر ِ مدفون پر وقت گذرے ۔۔۔
کہ جیسے کسی شہر ِ مدفون پر ۔۔۔
" تم اس واقعے کو بھول نہیں سکتیں "
" پہلے میں خود نہیں بھول رہی تھی اب لوگ مجھے بھولنے نہیں دے رہے "
اس نے نوکری پر جانا بھی چھوڑ دیا تھا ، وہاں دفتر کا وہی ڈرائیور اس سے بہانے بہانے سے آ کر بات کرنے کی کوشش کرتا اور اپنی ہی کی ہوئی کسی بکواس پر قہقہہ مار کر چل دیتا ۔
ایک دن آئی تو کہنے لگی
" تیرہ سال سے میرا شوہر مجھ سے دور ہے دوسری عورت کے ساتھ گھر بسا کر عیش کی زندگی گذار رہا ہے ، میرا اکلوتا بچہ جو میرا واحد سہا را تھا صرف بخار ہوا تھا اسے ، وہ بھی مر گیا ، کیوں کہ اس وقت میرے پاس نوکری بھی نہیں تھی کہ میں اس کا علاج ہی کرا لیتی ۔ پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری ، اپنے بچے کی موت کے بعد بھی میں زندہ رہی ، نوکری ڈھونڈی ۔ 13 سال تنہا گذارے میں نے ، میں اپنے شوہر سے جدا رہی ۔ میرا شوہر دنیا کا سب سے بڑا کتا تھا ، لیکن یہ ڈرائیور، یہ تو اس سے بھی بڑا کتا ہے ۔ 13 سال کا روزہ تھا میرے جسم کا ۔۔۔ اس حرام زادے نے میرا صبر ختم کر دیا میرے روزے کو ہی توڑ دیا اس نے ۔
تم کیوں گاڑی سیکھ رہی تھیں تمہارے پاس تو گاڑی ہے ہی نہیں " میں نے پوچھا
"میں قسطوں پر گاڑی لینے کا سوچ رہی تھی ساری تنخواہ کہاں خرچ کرتی اوریہ دفتر کی گاڑی پرمجھے چھوڑنے جاتا تھا ۔ کہنے لگا تمہیں سکھا دوں گا تم گاڑی خریدتے ہی چلا نا شروع کر دینا ۔۔۔ بس ۔۔۔ ایسے ہی اس اس کی باتوں میں آگئی ، جانے کب دماغ میں فتور آگیا پہلے اس کے پھر میرے ۔ "
وہ پھر رو رو کر ہلکان ہونے لگی ۔۔۔
" اس نے میرا صبر برباد کیا میرا روزہ توڑا ۔ اب یہ مجھے دیکھ کر ہنستا ہے میں اس کی وجہ سے نوکری پر نہیں جا سکتی ۔ "
" اتنی چھٹیاں کرو گی تو وہ تمہیں نکال دیں گے ، کھاؤ گی کہاں سے کرایہ کہاں سے دو گی گھر کا ۔ تم اپنی نوکری پر جایا کرو اور اس ڈرائیور کی کمپلینٹ کردو کہ تنگ کرتا ہے ۔ "
اس بار نئے ارادوں کے ساتھ ہمت باندھ کر رخصت ہوئی تھی لیکن وہ نوکری نہیں کر سکی ۔
کچھ مہینے گذرے تو پتہ چلا طاہرہ مینٹل ہسپتال میں ہے ۔ شدید دکھ ہوا ، میں اسے دیکھنے ہسپتال گئی ۔۔۔ اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اسے دیکھ کر خوف آیا ۔
" یہ کیا کر لیا تم نے خود کو۔۔ یہاں کیسے آ گئیں ۔۔۔ "
" اب ٹھیک ہوں ۔ میرے بارے میں بھائی کو کسی نے بتا دیا تھا اس نے مجھے بیلٹوں سے بہت مارا ۔ میراسر بھی پھٹ گیا تھا مجھے کچھ یاد نہیں ہے کہ مجھے کیا ہو گیا تھا ۔ لیکن اب میں ٹھیک ہوں ۔ سنبھل رہی ہوں ۔ تم میری یہ بالیاں رکھ لو اور مجھے کچھ پیسے دے دو"
" بالکل ہی دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا "
میں نے اس کی بالیاں واپس دیں اورکچھ رقم اسے دیتے ہوئے تسلی دی
" تم نے ہمیشہ میری مدد کی ہے لیکن پلیز یہ بالیاں ۔۔۔ "
" نہیں نہیں یہ تمہارے کانوں میں بہت اچھی لگتی ہیں ۔ "
میں نے وہ بالیاں اس کے کانوں میں واپس پہنا دیں ۔
کچھ عرصہ اس سے رابطہ رہا ۔ لیکن پھر اچانک ہی غائب ہو گئی
ایک دن فون آیا " میرا بھائی مر گیا ہے ۔ اس کے کفن دفن کے لیئے پیسے نہیں ہیں ۔ کچھ انتظام کر دو میں پیسے لینے آ رہی ہوں "
یہ آخری فون تھا اس کے بعد وہ جانے کہاں کھو گئی ۔۔۔
کافی عرصے بعد خبر ملی کہ زندہ ہے اور کسی فلاحی ادارے میں رہ رہی ہے ۔۔ لیکن اب وہ کسی سے بھی ملنا نہیں چاہتی ۔ نہ ہی کسی سے بات کرتی ہے ۔ بس ایک طویل چپ کے گھیرے میں قید ہو کے رہ گئی ہے ملنے کو کوشش کی اس نے سختی سے انکار کر دیا
اس نے گویا خود کو خود ہی سنگسار کر لیا تھا
لوگ تو شاید اس کی خطا معاف بھی کر دیتے ۔۔۔
انہوں کونسا اپنی آنکھوں سے اسے گناہ کرتے دیکھا تھا ۔
لیکن ۔۔۔ وہ خود جو اپنے گناہ کی چشم دید گواہ تھی ۔
سو ۔۔۔
پہلے پتھر سے آخری پتھر تک ۔۔۔
اس نے خود کو خود ہی سنگسار کر لیا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔