کلکتہ، بمبئی، مدراس یہ تین مراکز تھے،جہاں پہلے پہل مغربی تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور آہستہ آہستہ لوگوں پر علم ، تحقیق کے نئے در وا ہونے لگے، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے، کہ لوگوں میں پہلی مرتبہ یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اب تک تو ہمارے ہاں جملہ حقوق حکمران طبقوں کے لئے محفوظ تھے۔ اور رعایا کے لئے محض فرائض۔ فرد کا کوئی مقام نہ تھا۔ یہ چیزیں مغربی تصورات کے ساتھ آنے لگیں۔ جب مغربی علوم کو ہندوستان میں متعارف کروانے اور ہندوستانی تہذیب و علوم کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں۔ یہ تحریک بڑے پیمانے پر پہلے کلکتہ سے شروع ہوئی تھی، جہاں انگریزوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے۔
اولین روشن خیال لوگوں میں ایک نام، راجہ رام موہن رائے ہے۔ جو ہماری جدید تہذیب کے پہلے نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک بنگالی نژاد پڑھا لکھا روشن خیال شخص تھا۔ ' راجہ رام ' کا خطاب اسے مغل بادشاہ نے دیا تھا۔ وہ فارسی عربی کا عالم تھا۔ اس نے تعلیم حاصل کی تھی پٹنہ سے۔ اور اس کا اخبار ' مرات الاخبار' فارسی میں نکلتا تھا۔ راجہ رام موہن رائے نے اس زمانے میں گورنرجنرل کے نام ایک عرضداشت بھیجی۔ جس مین لکھا، کہ ہمارا تعلیمی نظام کم و بیش گذشتہ دو ہزار سال سے قائم ہے، جو موجودہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ خاص طور پر سنسکرت کالج کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نے کہا تھا، کہ یہ ساری چیزیں تو ہم گوتم بدھ کے زمانے سے پڑھتے آرہے ہیں۔ اور اب سرکار انگلیشیہ کا فرض ہے۔ کہ وہ رعایا کو نئی تعلیم اور نئے خیالات حاصل کرنے کے مواقع کرے۔ جس کے لئے سنسکرت اور عربی کے مدرسے قائم کرنے کی بجائے انگریزی زبان اور مغربی علوم سکھانے کا بندوبست کیا جائے۔۔۔ اور خاص طور پر سائنس کی تعلیم دی جائے۔ کمسٹری، فزکس، میڈیسن وغیرہ پڑھانے کا بندوبست کیا جائے۔
راجہ رام موہن رائے وہ شخص ہے جو مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لئے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گیا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ، نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ دیکھے تھے۔۔ دوسری طرف مسلمان زعما کا رویہ بالکل متضاد اوربرعکس تھا۔ عین اسی وقت مسلمان علما نے 8 ہزار دستخطوں سے گورنر جنرل کو درخواست گزاری کہ ہمیں نئی کافرانہ تعلیم کی ضرورت نہیں۔ ہمیں وہی قدیمی عربی فارسی کی تعلیم کافی ہے۔ اور اس طرح مسلمانوں نے نئی تعلیم کے خلاف محاذ بنا لیا۔ جس پر سرسید احمد خان نے تائسف کا اظہارکیا۔ اب جو یہ کہا جاتا ہے کہ 'ہندووں کی سازش' کی وجہ سے مسلمان تعلیم سے محروم رہ گے، یہ بہتان غلط ہے۔
سرسید کی تعلیمی اسکیم یہ رہی، کہ انہوں نے صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی تعلیم و تدریس پرکوئی توجہ نہیں دی۔ مسلمان اشرافیہ کی سوچ میں صنعت وحرفت کی گنجائش ہی نہ تھی۔ چنانچہ علی گڑھ میں انجینئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم کے شعبے نہ کھولے گے۔
“