سکندر مقدونی کے بارے میں ہمارے یہاں بہت سے غلط خیالات رواج پاچکے ہیں، پہلے ان کے حوالے سے مختصراً بات ہو جائے۔
متعصب یورپی اقوام نے گوروں کی کالوں پر برتری ظاہر کرنے کی خاطر اسے ”سکندراعظم“ کا خطاب دیا اور ہم نے بغیر سوچے سمجھے اس اصطلاح کو اپنالیا حالانکہ وہ ایک ایسا لٹیرا تھا جو مال و دولت کی ہوس میں مشرق کی سرزمین کو فتح کرنے نکلا تھا اور جس نے اپنے اس مذموم مقصد کے حصول کیلئے لاکھوں عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کیا، دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا، حالانکہ وہ بت پرست تھا اور خود کو اپالو دیوتا کا بیٹا قرار دیتا تھا، اسی طرح ایک غلط فہمی یہ ہے کہ قرآن کریم میں جس ذوالقرنین کا ذکر آیا ہے وہ سکندر تھا، حالانکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے ”ترجمان القرآن“ میں اور مولانا مودودی نے ”تفہیم القرآن“ میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ذوالقرنین سکندر نہیں ، سائرس اعظم تھا۔
اس وضاحت کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، یعنی سکندر کی راجہ پورس سے جنگ اور لاہور پر حملہ۔
یہ آج سے ساڑھے تئیس سو برس پہلے کی بات ہے ، اسلام کا سورج طلوع ہونے سے نو سو برس پہلے کی جب سکندر مقدونی فوج لیکر لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی غرض سے یونان سے نکلا، حریت پسندوں کی دھرتی پنجاب تک پہنچنے تک کہنے کو اس کی متعدد جنگیں ہوئیں لیکن حقیقتاً بڑی جنگیں دوسرے لفظوں میں اصلی لڑائیاں صرف دو ہوئیں، ایک ایران کے بادشاہ داراکے ساتھ اور دوسری دیس پنجاب کے بہادر حکمران راجہ پورس کے ساتھ، دارا کے ساتھ لڑائی ہوئی تو حالانکہ اسکے پاس بڑا لاو¿ لشکر تھا لیکن وہ (دارا) اپنی ماں ، بیوی ، بیٹیوں کو چھوڑ کر میدا ن جنگ سے بھاگ نکلا، اس کے بعد سکندر کیلئے ہر طرف فتح ہی فتح تھی، اب اسکے پاس پہلے سے زیادہ دولت بھی تھی، فوج بھی بڑی اور ہتھیار بھی زیادہ اور سب سے بڑھ کر اس کی شہرت اور رعب و دبدبہ ، نتیجہ یہ کہ سوائے چند ایک معمولی لڑائیوں کے وہ جہاں جہاں سے گذرا لوگ اسکے سامنے سجدہ ریز ہوتے گئے۔سکندر جب پنجاب پہنچا تو ٹیکسلا کا راجہ امبھی جو راجہ پورس کا مخالف تھا، دھرتی سے غداری کرتے ہوئے پورس کی مخالفت میں سکندر کے ساتھ مل گیا، ٹھیک اسی طرح جیسے بنگال میں میر جعفر اور میسور میں میر صادق نے بالترتیب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے غداری کی تھی، اسی طور راجہ امبھی راجہ پورس سے غداری کرکے اس یورپی لٹیرے کے ساتھ مل گیا۔
سکندر اور راجہ پورس کی طاقت کا موازنہ کریں تو وہ اسی طرح تھا جیسے امریکہ اور ویت نام۔ اس مقدونی لٹیرے کو امید تھی کہ جس طرح شمال کے علاقوں کے لوگ اس کے آگے سجدہ ریز ہوگئے تھے راجہ پورس بھی یہی کریگا، چنانچہ اس نے اسے اطاعت کا پیغام بھیجا، دیس پنجاب کے اس بہادر سپوت نے اسکا جو جواب دیا وہ سکندر کےلئے حیران کن تھا، بجائے سر اطاعت خم کرنے کے اس نے کہا کہ ہماری ملاقات میدان جنگ میں ہوگی، اس سب کا احوال یورپی مورخین آریاں اور پلوٹارک نے لکھا ہے۔
سکندر کیلئے یہ جواب بہت حیران کن تھا ویتنام امریکہ سے کہہ رہاتھا کہ وہ بجائے جھکنے کے اسکا مقابلہ کریگا، سکندر کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ دیس پنجاب کی دھرتی وہ دھرتی ہے جسکے باسی اور حکمران ہزاروں برس سے حملہ آوروں کے سامنے جھک جانے یا انکا خیر مقدم کرنے کی بجائے بہادری سے انکا مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں حالانکہ انگریزوں نے پنجابیوں سے انکی حریت پسندی اور مزاحمت کا انتقام لینے کی خاطر انکے بارے یہ جھوٹ گھڑا اور پھیلایا کہ یہاں کے لوگوں نے حملہ آوروں کا خیر مقدم کیا اور بہت سے لوگوں نے اس جھوٹ پر یقین بھی کرلیا، خیر مختصراً آخر کار دونوں کے درمیان جہلم کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں یونانی مورخین کے بقول راجہ پورس کو شکست ہوئی، لیکن انہی مورخین کے مطابق وہ میدان جنگ سے فرار نہیں ہوا بلکہ بہادری سے لڑا یہاں تک کہ ونسنٹ اے سمتھ اور دیگر مورخین کے مطابق یہ طویل قامت بہادر سر سے پاوں تک زخم زخم نیم مردہ حالت میں گرفتار ہوا، گرفتاری کے بعد بھی اسکی گردن نہیں جھکی بلکہ وہ سرافراز کھڑا رہا، سکندر اس کی بہادری اور شجاعت سے اس قدر متاثر تھا کہ اسے اپنے پاس بلانے کی بجائے خود چل کر اسکے پاس گیا، کچھ دیر وہ پنجابی مردوں کے حسن اور وجاہت کے اس شاندار نمونے کو ستائشی نظروں سے دیکھتا رہا، پھر اسے پانی کا گلاس پیش کیا گیا، اس کے بعد سکندر نے اس سے دریافت کیا:
” تم کیا چاہتے ہو، میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آوں
اسکے جواب میں اس نے باوقار انداز میں کہا:
”جیسے ایک بادشاہ کیساتھ پیش آیا جاتا ہے
اس عالم میں بھی اسکا سر بلند تھا۔
یوں یونانی مورخین کے مطابق راجہ پورس کو شکست ہوگئی، ایک لمحہ کیلئے مان لیا کہ شکست ہوئی ، شکست ہوئی لیکن لڑ کر۔اور انہی مورخین کے مطابق راجہ پورس کے خلاف جنگ میں سکندر کی فوج کی کمر ایسی ٹوٹی اور اسکا حوسلہ بقول یونانی مورخ پلوٹارک کے یوں کند ہوگیا کہ وہ مزید فتوحات کرنے کے قابل ہی نہ رہ گیا اور واپس لوٹ گیا۔لیکن پنجابی بہادروں سے ابھی اسکا ایک معرکہ باقی تھا، راجہ پورس سے جنگ کے بعد جب وہ لاہور پہنچا تو یہاں دیس پنجاب کی دھرتی کے حریت پسند سپوتوں نے پھر شجاعت اور دلیری سے اسکا مقابلہ کیا، اس کا احوال ایک غیر پنجابی مورخ سید محمد لطیف کی زبانی سنیے جو بیان کرتے ہیں۔
”تاریخ سے ثابت ہے کہ زمانہ حملہ سکندر” اعظم“ میں پنجاب کے لوگ اسلحہ جنگ کا استعمال خوب جانتے تھے، کیونکہ جب سکندر نے دریائے راوی سے عبور کیا تو یہاں کے لوگ لڑائی کی گاڑیوں پر سوار ہوکر اس سے لڑنے کو نکلے، یہ گاڑیاں قطار در قطار لگائی جاتی تھیں اور ایک کو دوسری کے ساتھ اس طرح باندھ دیا جاتا تھا جیسا کہ ریل کی ایک گاڑی دوسری کیساتھ باندھ دی جاتی ہے، گو ان گاڑیوں میں اور اس زمانہ جاہلیت کی گاڑیوں میں زمین و آسمان کا تغاوت ہوگا اور وہ گاڑیاں اس زمانہ ترقی یافتہ کے چھکڑوں سے بھی ہیت و صورت میں شایدبدتر ہونگی، غرض ان لڑائی کی گاڑیوں میں بہادر لڑاکے سکندر سے مقابلہ کرنے کو برآمد ہوئے، ہتھیار انکے پاس صرف برچھاو بھالا و کلہاڑی تھے، تیر و کمان کا ذکر مورخین نے نہیں کیا۔
یونانی مورخ لکھتے ہیں کہ ان لڑاکوں کو جب ایک دوسرے کو مدد دینی منظور ہوتی تو وہ بڑی تیزی اور چالاکی سے ایک دوسرے کی گاڑیوں میں اچھل کر چلے جاتے اور اس باب میں خاص مہارت اور مشق رکھتے تھے، یہ لڑاکے شکاری کتوں سے بھی کام لیتے تھے اور یقین کیا جاتا تھا کہ چار کتوں میں ایک شیر کا زور ہے۔
غرض تھوڑی ہی دیر مقابلہ کو ہوئی تھی کہ پنجابیوں کے اَسّیِ(80) آدمی یونانیوں نے قتل کئے اور پنجابی اپنے شہر میں آن گھسے“۔(سید محمد لطیف تاریخ پنجاب مع حالات شہر لاہور۔“ باب” شہر لاہور کی قدامت۔“ ص۵)۔
اسکے بعد لاہور کے لوگ جنگی تدبیر کے تحت قلعہ بند ہوگئے اور اس حالت میں لڑنے مرنے کیلئے تیار ہوگئے، تاہم سکندر پنجاب میں داخل ہونے کے بعد سے ہونے والی شدید مزاحمت سے حد درجہ پریشان ہوچکاتھا، جبکہ بقول پلوٹارک راجہ پورس کے ساتھ جنگ میں اسے پنجابیوں کی طرف سے جس زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اسکے نتیجے میں اسکی فوج کا حوصلہ کند ہوچکاتھا، سو اس نے لاہور کا محاصرہ کرنے کی بجائے یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں مصلحت جانی۔یہ سکندر کی راجہ پورس سے جنگ اور شہر لاہور پر دھاوے کی مختصر روداد تھی
کتنے شرم کی بات ہے کہ مشرف حکومت نے 2003ءمیں جہلم میں سکندر کی یادگار تعمیر کی، یعنی جس مقام پر اس سرزمین کی عزت اور یہاں کے باشندوں کی حفاظت کی خاطر لڑنے والے ایک مقامی بہادر راجہ پورس کی یادگار ہونی چاہیے تھی وہاں یونان کی حکومت کی خوشنودی کے حصول کی خاطر ایک ایسے یورپی لٹیرے کی یادگار تعمیر کی گئی جس نے ملکوں اور زمینوں کو فتح کرنے اور لوٹ کا مال یہاں سے یونان لے جانے کی ہوس میں لاکھوں مہ جبینوں کو بیوہ اور پھول سے بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کیا۔
ماہیا
کوئی پُرے دی ہوا وَگے
پورس نے ڈٹ جاندے اسکندراں دے اگے
ازہر منیر
جیوے پنجاب
جیوے پاکستان
“