ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایسے چند ہی نغمہ نگار ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے معیاری نغموں سے ہمیشہ کے لئے اپنا نام درج کرا دیا ہے۔ نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں بھی ان چند میں سے ایک ہیں۔ حالانکہ انہوںنے بہت کم گیت لکھے ہیں، اور کم عمری میں ہی وہ اس جہانِ فانی سے چلے بھی گئے، مگر جو نغمے انہوںنے ہماری فلموں کو دئیے، ان میں شاعری کے معیار اور موسیقی کے پیمانوں میں الفاظ کی نشست وبرخاست بے مثال ہے۔ راجہ مہدی علی خاں کے لکھے ہوئے بیشتر نغموں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔
راجہ مہدی علی خاں غیرمنقسم ہندوستان کے پنجاب صوبے کے کرم آباد گائوں میں ایک زمیندار خاندان میں ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ننیہال لاہور کے پاس ایک گائوں وزیرآباد میں تھی، جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ راجہ مہدی علی خان کے نانا وزیر آباد گائوں کے ایک بہت بڑے اور بااثر زمیندار تھے۔ اس لئے بعد میں ان کے نام پر گائوں کا نام بدل کر کرم آباد رکھ دیا گیا۔ راجہ مہدی علی خاں کی والدہ ہیبے صاحبہ نہایت علم دار اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ لہٰذا راجہ مہدی علی خان کی گھٹی میں ہی اردو شاعری شامل ہو گئی تھی۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے بقول راجہ مہدی علی خاں کی والدہ ہیبے صاحبہ اپنے دور کی شاعرات میں سب سے بہتر شعر کہنے والی خاتون ہیں۔ راجہ مہدی علی خاں کے ایک ماموں مولانا ظفرعلی خاں کانگریس کے ایک اہم کارکن تھے اور دوسرے ماموں حامدعلی خاں ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے معاشرے میں کافی مقبول تھے۔ لہٰذا راجہ مہدی علی خاں کی پرورش خالص ادبی ماحول میں ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوںنے محض دس برس کی عمر میں بچوں کے لئے ایک رسالے کا اجراء کیا۔
راجہ مہدی علی خاں تقسیم وطن سے قبل ہی دہلی آگئے جہاں انہوںنے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہی وہ دور تھا جب اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو رہی تھی۔ سعادت حسن منٹو بمبئی چلے گئے اور وہاں مختلف فلمسازوں کے لئے فلمی کہانیاں اور ان کے ڈائیلاگ وغیرہ لکھنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد سعادت حسن منٹو کے کہنے پر ہی راجہ مہدی علی خاں بھی بمبئی چلے گئے۔
اس زمانے میں دینا ناتھ مدھوک، قمر جلال آبادی، پنڈت اِندر اور نیل کنٹھ تیواری پہلے سے ہی بطور نغمہ نگار اپنے قدم جمائے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی راجندر کرشن، مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی اور پریم دھون بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ایسے وقت میں اپنی پہلی ہی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے راجہ مہدی علی خاں نے اپنی فلمی نغمہ نگاری کی صلاحیت کا سکہ جما دیا۔ وہ نغمہ تھا… ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو…‘‘۔
گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لئے کئی معاملات میں بڑی اہم رہی ہے۔ اسی دور میں فلم انڈسٹری سے اردو کے کئی بڑے ادیب اور شاعر وابستہ ہوئے تھے اور وہاں کا ماحول ادبی لحاظ سے بڑا خوشگوار ہو گیا تھا۔ کمال امروہوی، سعادت حسن منٹو، وجاہت مرزا، امان اللہ خاں جیسے ادیب بھی فلمی دنیا میں اپنے قدم جما چکے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں ہمانشو رائے کے انتقال کے بعد دیویکا رانی بمبئی ٹاکیز کو سنبھال نہیں پائیں اور ان کے خاص لوگوں میں سے ایس۔ مکرجی، اشوک کمار، رائے بہادر چنّی لال، وغیرہ نے اپریل ۱۹۴۳ء میں الگ ایک کمپنی بناکر فلمستان کی بنیاد ڈالی۔ اِس نئی کمپنی کے لئے نئی ہیروئینوں، ہیرو، ادیبوں، گیت کاروں اور ہدایتکاروں کی تلاش شروع ہو گئی۔ نغمہ نگار پردیپ بھی بمبئی ٹاکیز چھوڑ گئے اور ان کی جگہ بھگوتی چرن ورما الٰہ آباد سے نریندر شرما کو لے آئے۔ ادھر ششدھر مکرجی نے گوپال سنگھ نیپالی کو شامل کر لیا۔ سعادت حسن منٹو بھی دہلی کی ملازمت چھوڑکر بمبئی میں فلمستان سے وابستہ ہو گئے۔
کچھ عرصے کے بعد منٹو نے راجہ مہدی علی خاں کو بھی بمبئی بلا لیا۔ ان دنوں منٹو کی کہانی پر فلمستان والے فلم ’’آٹھ دن‘‘ بنا رہے تھے۔ اس سے قبل منٹو کی ہی کہانی پر ۱۹۴۴ء میں ’’چل چل رے نوجوان‘‘ بن کر ریلیز ہو چکی تھی جس کے سبھی نغمے پردیپ نے لکھے تھے۔ فلم ’’آٹھ دن‘‘ کے گانے قمر جلال آبادی اور گوپال سنگھ نیپالی کو لکھنے کے لئے دئے گئے۔ اس فلم کے کچھ کرداروں کا انتخاب نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا سعادت حسن منٹو، راجہ مہدی علی خاں اور اوپندر ناتھ اشک نے وہ کردار ادا کئے۔ اسی زمانے میں فلم ’’شہید‘‘ کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ اس فلم کے ہدایتکار رمیش سہگل اور موسیقار غلام حید ر تھے۔ مرکزی کردار میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل کے ساتھ چندر موہن تھے۔ اس فلم میں سات گانے تھے۔ لہٰذا چار گانے راجہ مہدی علی خاں کو لکھنے کے لئے دئے گئے۔ باقی گیت قمر جلال آبادی اور نخشب جارچوی کے حصے میں آئے۔
راجہ مہدی علی خاں کے گانوں میں ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بے حد مقبول ہوئے اور ’’وطن کی راہ‘‘ والے نغمے نے تو دھوم ہی مچا دی۔ کشمیر سے کنیاکماری اور بنگال سے راجستھان تک اس گانے کی گونج سنی گئی۔ اس گانے کو سنتے ہی جوش آجاتا تھا۔ آج بھی قومی تہواروں کے موقع پر یہ گانا ضرور سنائی دیتا ہے اور صدابہار فلمی نغموں میں اس گانے کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس ایک ہی گانے سے راجہ مہدی علی خاں کی پہچان کامیاب نغمہ نگاروں میں ہونے لگی۔
۱۹۴۷ء میں فلمستان کی ایک دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ بھی زیرتکمیل تھی۔ اس فلم کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے۔ گیتا رائے کی آواز میں ’’میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا‘‘ گانا کافی مقبول ہوا تھا۔ اس کی موسیقی ایس۔ ڈی۔ برمن دا نے ترتیب دی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۵۰ء تک راجہ مہدی علی خاں نے تقریباً دس فلموں میں نغمہ نگاری کی۔ ۱۹۴۸ء میں ’’ودیا‘‘، ’’ضدی‘‘، ۱۹۴۹ء میں فلم ’’کمل‘‘ اور ۱۹۵۰ء میں فلم ’’بھائی بہن، مانگ، مغرور، مقدر، نردوش، سنگرام‘‘ اور ’’آنکھیں‘‘۔
۱۹۵۱ء میں فلم ’’مدہوش‘‘ ریلیز ہوئی جس میں موسیقار مدن موہن نے ’’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘‘ گانے کو ترتیب دے کر یادگار بنا دیا۔ اس فلم سے مدن موہن کے ساتھ راجہ مہدی علی خاں کی جوڑی بن گئی اور پھر کئی بہترین اور معیاری نغموں سے فلمی دنیا سرشار ہوئی۔ فلم ’’مدہوش‘‘ کے گیارہ سال بعد ۱۹۶۱ء میں فلم ’’اَن پڑھ‘‘ میں ایک بار پھر مدن موہن اور راجہ مہدی علی خاں ایک ساتھ ہوئے۔ اسی جوڑی نے فلمی دنیا کو کئی بے حد کامیاب نغمے دئے۔ ۱۹۶۲ء میں ’’اَن پڑھ‘‘، ۱۹۶۴ء میں ’’وہ کون تھی‘‘، ۱۹۶۶ء میں ’’دلہن ایک رات کی‘‘، اِن سبھی فلموں کا سنگیت مدن موہن نے دیا تھا اور نغمے راجہ مہدی علی خاں نے تحریر کئے تھے۔
فلمی نغموں میں سچویشن کے مطابق موسیقار کی دھن پر دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے نغمہ نگاری کرنا ایک نہایت مشکل عمل ہوتا ہے جسے راجہ مہدی علی خاں نے بڑی ہی خوبصورت سے نبھایا ہے۔
راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کامیاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لئے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘ (فلم ’’مٹی میں سونا‘‘)، ’’جب چھائے کبھی ساون کی گھٹا…‘‘ (فلم ’’ریشمی رُمال‘‘)، ’’آپ یوں ہی اگرہم سے ملتے رہے…‘‘ (فلم ’’ایک مسافر ایک حسینہ‘‘)، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ (فلم ’’اَن پڑھ‘‘)، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ (فلم ’’وہ کون تھی‘‘)، ’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ (فلم ’’آپ کی پرچھائیاں‘‘)، ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ (فلم ’’میرا سایہ‘‘)، ’’آخری گیت محبت کا سنا لوں تو چلوں…‘‘ (فلم ’’نیلا آکاش‘‘) وغیرہ گیت آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
راجہ مہدی علی خاں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً ۷۵؍فلموں کے لئے نغمہ نگاری کی۔ راجہ مہدی علی کی صحت خراب رہنے لگی۔ ابھی وہ صرف ۴۴؍برس کے ہی تھے کہ ۲۷؍جولائی ۱۹۶۶ء کو آخری وقت آگیا اور انہوںنے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فلمی دنیا کو اپنی شاعری سے منور کرنے والا یہ بہترین نغموں کا تخلیق کار اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
“