جنگ آزادی کے قابل قدر رہنما راجہ مہندر پرتاپ کے نام پر اتر پردیش حکومت نے یونیورسٹی بنانے کا سیاسی وعدہ کیا تھا۔علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ کے نام سے یونیورسٹی کے قیام کو عمل میں لانے کے لئے حکومت کی جانب سے بجٹ جاری کیا جا رہا ہے۔صوبے کی بی جے پی حکومت کا یہ قدم قابل ستائش ہے کہ اس نے اپنے مخالف وچاردھارا رکھنے والے راجہ مہندر پرتاپ کے نام پر یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور اب اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی کوشاں ہے۔یہ وہی سیاسی رہنما راجہ مہندر پرتاپ ہیں جنھوں نے بی جے پی کے عظیم لیڈر اٹل بہاری باجپئی کو انتخاب میں اس بری طرح شکست دی تھی کہ باجپئی جی کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔یہ وہی راجہ مہندر پرتاپ ہیں جنھوں نے ورنداون میں ’’پریم مہاودیالیہ‘‘قائم کیا اور اپنا مذہب’’My Religion is the religion of LOVEـــ‘‘ قرار دیا تھا ۔یہ وہی راجہ مہندر پرتاپ ہیں جنھوں نے اپنی خود نوشت سوانح’’ My Life Story of Fiftifive Years (Pub:1947)‘‘میں سوسائٹی کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ، ’’میں یقین رکھتا ہوںاس بات میں کہ ہر عورت اور مرد کو اچھی زندگی جینے کے لئے برابری کا حق حاصل ہے۔‘‘یہ وہی راجہ مہندر پرتاپ ہیں جو خود کو ’بنی نوع انسان کا خادم‘ تصور کرتے ہیں۔ایسے عظیم شخص کو تنازع میں کھینچ لینے والے نام نہاد عوامی خدمت گار درحقیقت ان کی زندگی،اعلی انسانی قدروں، ملکی خدمات اوران کے اصولوںسے واقف نہیں ہیں۔ایسے افراد کو راجہ مہندر پرتاپ کی خود نوشت کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔
راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش یکم دسمبر 1886کومرسان ضلع علی گڑھ میںراجہ گھنشام سنگھ بہادر کے تیسرے بیٹے کے طور پر ہوئی تھی۔ان کے والد کو راجہ بہادر کا خطاب مغل دربار سے ملا تھا۔ایک جنگ میں شکست کے بعد انگریزوں نے ان کی جائداد جو تقریبا سو گائوں پر مشتمل تھی ضبط کر لی تھی حالانکہ راجہ کا خطاب برقرار رہا۔ تین سال کی عمرمیں انھیں ہاتھرس کے راجہ ہرنرائن سنگھ نے گود لے لیا تھا۔اس خاندان کی بھی انگریزوں نے جائداد ضبط کر لی تھی اور انھیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔بعد میں انھیں کچھ گاوں واپس مل گئے حالانکہ انھیں اپنی پرانی حکومت واپس ملنے کی قوی امید تھی ۔کہتے ہیں اسی دکھ میں ان کی اچانک موت واقع ہو گئی۔راجہ مہندر پرتاپ کے لئے اب مشکلات شروع ہو گئیں۔انھیں مرسان اسٹیٹ سے اس لئے خرچ نہیں ملتا تھا کہ وہ اب راجہ ہرنرائن کے ذریعہ گود لئے جا چکے تھے۔راجہ ہرنرائن کے خاندان میں ان کو گود لئے جانے پر تنازع پیدا ہو گیا تھا۔
راجہ مہندر پرتاپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ ان کو ایک مولوی صاحب فارسی پڑھانے بھی آتے تھے۔راجہ گھنشیام سنگھ کے سر سید احمد خان سے بہت گہرے مراسم تھے ۔اس لئے مہند ر پرتاپ 1895 میںمحمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ میں تعلیم کے لئے داخل کئے گئے۔سر سید ہی نہیںبلکہ جسٹس سید محمود بھی ان کو اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے۔وہ کالج میں نوکروں کی ٹیم،اپنے گھوڑے اور دیگر سامان کے ساتھ شاہی انداز میں ایک بنگلہ کے دو کمروں میں مقیم رہے۔پڑھائی میں وہ اوسط درجے کے طالب علم تھے۔ مڈل اور ایف اے میں وہ فیل بھی ہوئے ۔ وراثت کی جنگ اور اسٹیٹ پر اپنی پکڑ کھو دینے کی وجہ سے 1907 میں انھوں نے بنا بی اے مکمل کئے کالج چھوڑ دیا۔راجہ مہندر پرتاپ نے خود نوشت میں اپنے الطاف حسین ،علی محمد،نیاز علی،پنڈت بھگوان داس، اشرف علی ،مولوی ولایت حسین وغیرہ اساتذہ کا ذکر کیا ہے جن سے وہ بہت متاثر تھے۔وہ اکثر اپنے اساتذہ کی دعوت کیا کرتے تھے اور ان کے اساتذہ برابرانھیں ایسا کرنے سے منع کرتے تھے۔
راجہ مہندر پرتاپ نے دوران طالب علمی1906-1904 کی چھٹیوں کے دوران مختلف مذہبی مقامات کی سیر کرنے کا ذکر خود نوشت میں کیا ہے۔وہ جہاں ایک طرف پری،کاشی،رامیشورم،گیا،بدری ناتھ،دوارکا گئے وہیں انھوں نے اجمیر میںخواجہ غریب نواز کے آستانے پر بھی حاضری دی۔وہ 1906 میں کانگریس کے کلکتہ میں منعقدہ اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔انھوں نے سودیشی کے نعرہ پر عمل کرتے ہوئے جب گھر میں موجود بیرونی ممالک کے کپڑوں کو جلانے کی کوشش کی تو اس پر گھر والوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑاتھا۔وہ مختلف ممالک کے دورے پر بھی گئے۔ان میں چین،اٹلی،میکسیکو،روس، جاپان،جرمنی،امریکہ،کناڈا،ہانگ کانگ شامل ہیں۔افغانستان میں تو انھوں نے سرکار بھی بنائی تھی۔
راجہ صاحب نے 1909 میںورنداون میں اپنی وسیع و عریض عمارت میں ایک ٹیکنیکل کالج قائم کیا تھا۔انھوںنے کالج کے نام رکھنے کی تقریب منعقد کی جس میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بطور خاص شرکت کی تھی ۔تقریب میں اعلان سے قبل سبھی مہمان اس تقریب کو ان کے بیٹے کی ’نام کرن‘تقریب سمجھتے رہے لیکن راجہ صاب نے بتایا کہ میرا بیٹا دراصل ایک ٹیکنیکل کالج ہے اور اس کے لئے وہ اپنی تمام جائداد وقف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ عقدہ کھلا تو کسی نے مشورہ دیاکہ اپنے والد کے نام پرکالج کا نام رکھ لیجئے۔اس پر راجہ مہندر پرتاپ نے جو جواب دیا وہ قابل توجہ ہے:
’’ A Public institiution should not be thus given a private character(page no22) ‘‘
اس کالج کا نام بعد میں پریم مہا ودیالیہ رکھا گیا۔ راجہ مہندر پرتاپ نے مدن موہن مالویہ اور مسٹر سپرو کے مشورہ پر اس کالج کے نام پانچ گائوں لکھ دئے (یعنی تقریبا ۳۳ ہزار کی رقم )جس سے اس کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ ان کے اس کام کی تعریف مہاتما گاندھی،جواہر لال نہرو،ربندر ناتھ ٹیگور،آزاد سبحانی،سی ایف انڈریوز،سی وائی چنتامنی وغیرہ نے کی تھی۔
راجہ صاحب نے اپنی سماجی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے تحت انھوں نے الموڑا کے ٹمٹا ہومس اور آگرہ کے سویپر کے ساتھ کھانا کھانے اور اچھوتوں کی حمایت ، پریم مہا ودیالیہ کو ورنداون کی بہت سی عمارتوں کے عطیہ اور گروکل یونیورسٹی کو شہر سے باہر کے تین باغ دینے کا بھی ذکر شامل ہے۔ورناکولر ہندی اخبار’’پریم‘‘ کی ادارت و اشاعت، اخبارنربل سیوک(ہندی اور اردو) کے علاوہ ورنداون کے علاقے میں ایک بینک کھولنے کے لئے مجسٹریٹ کو دس ہزار روپے دینے کا بھی بیان شامل ہے۔پریم مہا ودیالیہ کو الگ سے 25000 روپے متھرا کے اسکولوں کی خاطر دینے کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ’’ میں یہاں وہ سب کچھ لکھ دینا چاہتا ہوں جو بھی میں نے سماجی خدمات انجام دیں ہیں(29ص)‘‘۔حیرت ہے کہ اس بیانیہ میں کہیں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو زمین دینے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔راجہ مہندر پرتاپ نے اپنے ’’پریم مشن‘‘ کی تبلیغ کے لئے بہت سے مبلغوں کو مختلف اضلاع میں تشہیر کے لئے مقرر کیا تھا۔وہ جب مرادآباد میں ایسے ہی ایک تبلیغی پروگرام سے نکلے تو انھیں مجسٹریٹ نے یہ کہتے ہوئے روکا کہ آپ کی گائے بچائو تحریک سے علاقہ کے امن کوخطرہ ہو سکتا ہے اس لئے یہ تبلیغ بند کر دیں۔تب راجہ صاحب نے مجسٹریٹ سے کہا کہ وہ جانوروں کے مقابلے ہمیشہ انسان کو اولیت دیتے ہیں اور اس تحریک کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجسٹریٹ ان کے دلائل سے مطمئن ہو گیا اور انھیں مزید تبلیغ کی اجازت بھی دے دی۔انھوں نے پریم کی اپنی تبلیغ اور مذہب کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’krishna,christ,Buddha,and Mohammad are the assets of all our human race.I believe Brindaban,Budhgaya,Mecca and jerusalem are our Sacred places‘‘۔
راجہ مہندر پرتاپ نے دنیا بھر کی سیر کی ۔طرح طرح کے لوگوں سے وہ ملے ۔انھوں نے فلسفہء حیات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی اورپایا کہ انسانیت کا فروغ سب سے اہم انسانی فریضہ ہے۔اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے پریم لازمی جزو ہے ۔انھوں نے تمام عمر اپنے اسی فلسفے کی تبلیغ کی ۔جنگ آزادی میں کردار نبھانے سے لے کر اپنی سماجی خدمات تک ان کی ساری مہم پریم اور اتحاد پر مبنی دکھائی دیتی ہے۔ان کی مثبت فکر کو عام کئے جانے کی ضرورت ہے جس سے ان کے نام پر تنازعات کھڑا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...