تعارف و تبصرہ ( نسترن احسن فتیحی(
)ناول(
ایک تاثر
" راج سنگھ لاہوریہ " اقبال حسن کا ناول اشاعت کے مرحلے میں ہے،جو ان کی خصوصی عنایت کے باعث مجھے اس کی الکٹرونک کاپی دستیاب ہو گئی ،اور میں اسے قبل از وقت پڑھ سکی .اس ناول پر اپنے تاثرات دینے سے پہلے یہ بتا دوں کہ اقبال حسن کا تعارف افسانہ فورم کے توسط سے تقریبا ایک سال پھلے ہوا.آج جدید تکنیک نے ادب نوازوں کو عالمی سطح پر بڑی سرعت سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے- اس کے اچھے برے اثرات جو بھی ہوں مگر ادب کی ترسیل اور تفہیم کی راہ بہت آسان ہوگئی ہے .تو اس عالمی ادبی جمگھٹے میں کچھ ناموں کے ساتھ اقبال حسن کا نام بھی دنیائے ادب کے آسمان پر اپنی تابناکی بکھیرتا نظر آیا.اور اقبال صاحب پاکستان کا وہ معتبر نام ہیں جوبیک وقت ٹی وی ڈرامہ،افسانہ اور ناول جیسی صنف سے برسر پیکارنظر آتے ہیں اور وہ فکشن کے رمزشناس ہیں .ان کے افسانے سادہ بیانیه میں زندگی ،سماج اور انسانی نفسیات سے گہرے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کی تحریر کی روانی اور سادگی دل پر ایک عمیق نقش چھوڑ جاتی ہے .مگر یہاں ذکر ان کے افسانوں کا نہیں نا ول کا ہے ."راج سنگھ لاہوریہ" سے پہلے بھی ان کا ایک ناول "گلیوں کے لوگ " منظر عام پر آ کر شرف قبولیت پا چکا ہے .مگر میں نے ان کا یہ پہلا ناول پڑھا.
میں اپنے تاثرات میں ناول کا خلاصہ نہیں پیش کرونگی کیونکہ میں ایک فکشن رائیٹر ہوں نقا د نہیں اس لئے خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتی.. کہ باریک بینی سے اس کے فنی محا سن پر بات کروں.مگر ادب کے سنجیدہ قاری کی حیثیت سے اپنے تاثرات ضرور بیا ن کرونگی–
اردو ادب کا دامن اب تک بہترین ناولوں کے حوالے سے بہت زرخیز ہے- اس لئے ادب کی اس صنف میں قدم رکھنا کئی طرح سے بہت جوکھم بھرا ہے اور اس طرف آتے ہوۓ کئی سوال ذہن میں آتے ہیں ،آج کا انسان عالمی مسائل کے رو برو کھڑا ہے ،جہاں نئے نئے رجحانات ،درد اور کرب میں پوری دنیا شدید بے چینیوں اور تبدیلیوں کا شکار ہے .
اتنا ہی نہیں ہمارے سامنے الیکٹرونک میڈیا بھی ایک چنوتی کی شکل میں کھڑا ہے جہاں ایک کلک میں معلومات کی رنگارنگ دنیا ہما رے سامنے ہوتی ہے .ایسی صورت حال میں نا ول جیسی صنف کا سہارا لینا اور موضوعات کا چناؤ کرنا سہل نہیں،یہ تمہید صرف اس لئے ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ
" راج سنگھ لاہوریہ " کا موضوع تقسیم ملک کے فورا بعد کا ہے.تو مجھے حیرت ضرور ہوئی کہ اس موضوع پر اب تک کئی بہترین نا ول آ چکے ہیں- برصغیر پاک وہند کی تقسیم پر متعدد اردو ناول لکھے گئے جن میں ’ آگ کا دریا ( قرة العین حیدر ) ، اداس نسلیں (عبد اللہ حسین ) اور ’آنگن ( خدیجہ مستور ) بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں ۔
ہندوستان میں بھی عبد ا لصمد کا ناول دو گز زمین اسی موضوع پر آکر مقبولیت پا چکا ہے اور اس نا ول کو ساہتیہ اکیڈمی کے انعام سے بھی نوازا جا چکا ہے . اس لئے ناول کو پڑھتے ہوئے
میرا تجسس فزوں ہو گیا کہ آخر جب کہ ہمارا عہد تقسیم کے درد سے بہت آگے بڑھ چکا ہے ،ایسے میں تقسیم کا درد اور کرب کسی کو کس حد تک اپنے حصار میں لے پائیگا .
میں جیسے جیسے نا ول پڑھتی گئی مجھے اپنے اس سوال کا جواب ملتا گیا ..یہ ناول کسی فوری ردعمل کے طور پر نہیں لکھا گیا ،بلکہ تمام مسائل کو جذب کرنے کے بعد اس میں آہستہ آہستہ ان گرہوں کو کھولا گیا ہے.مشاہدے کی گہرائی و گیرائی اس ناول کا نمایاں وصف ہے .
اس کے مرکزی کردار کے طور پر"ضامن بھائی ،راج سنگھ اور راوی ہے جس کے توسط سے ہم کہانی کے روبرو ہو تے ہیں . "ضامن بھائی" کے کردار کے توسط سے اقبال حسن نے زبان کے ایک مخصوص رنگ کو منظر عام پر لانے کا جوکھم اٹھایا ہے ،ضامن بھائی کا کردار ایک ایسا کردار ہے جس کی جڑیں مٹتی ہوئی روایا ت کی ایسی زمین میں پیوست ہیں جن سے دور ہونے کا اور جس کے فنا ہونے کا احساس پورے نا ول میں رچ بس گیا ہے یہ وہ کردار ہے جو تقسیم ملک کے بعد ہندوستان سے پاکستان منتقل ہو جاتا ہےمگر اپنی مخصوص زبان جو اس وقت دہلی کے قرب و جوار میں رائج ہوگی … اس سے اپنا نا طہ نہیں توڑ پاتا ،یہ زبان علامت ہے اس کی اپنی روا یت سے محبت کی. ضامن بھائی کے کردار میں اقبال حسن نے ایک سادہ دل سچے انسان کی تصویر کشی اس انداز میں کی ہے کہ بظاہر ایک سطحی اور مزاحیہ سا کردار رفتہ رفتہ اپنی سادہ لوحی ،دردمندی اور سماجی سروکار کی بنا پر ارتقاء پذیر ہوتا ہے اور قاری کے دل میں گھر کر لیتا ہے .
اس کردار کے علاوہ اس کہانی کا راوی نئی نسل اور نئے نظریات کا حامل شخص ہے،اور اس منظر کشی میں نمایاں رول ادا کرتا ہے .اور ہر چھوٹے بڑے معا ملات میں ضامن بھائی کا معاون اور مدد گار ہوتا ہے .اس ناول کا ایک اہم کردار راج سنگھ کا کردار ہے جو تقسیم کے بعد بھی اپنے آبائی وطن لاہور آنے کی خواہش کو تج نہیں پاتا اور دراصل اسی کردار کے گرد پوری کہانی کا تا نا بانا تیار کیا گیا ہے . اس نا ول میں اقبال حسن نے اس وقت تقسیم کے درد سے نکلے ہوئے لوگوں کی نفسیات ،امیدیں ،خواب اور ان خوابوں کے مسمار ہونے کی بڑی مؤثر تصویر کشی کی ہے .اور اس میں انہوں نے نئے مروجہ سماج میں پھیلی ابتری ،کشمکش اور معاشرے کی داخلی نفسیات کو موضوع بنایا ہے .اور انہوں نے نا ول میں سیاسی نقطۂ نظر اور مذہبی شدت پسندی کو بھی عام عوام کے حرکا ت و سکنات کے ذریعے مؤ ثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے . ناول کے پلاٹ کے ارتقا میں ہر کردار اہم ہے اور اپنا امٹ نقش چھوڑتا ہے .وہ کردار پریتی کا ہو احسن کا یا جانی نائی ،لچھومل اور ٹھیکیدار فتح خان ،مجو یا شوکی اسٹوڈنٹ سب ہی اہم ہیں اور کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں .
اقبال حسن نا ول تحریر کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں –وہ واقعات کے اجزاء کو سمیٹنا جانتے ہیں .موضوعات کو تنوع کس طرح بخشا جائے اور زبان کا جا دو کس طرح جگایا جائے اس پر انہیں قدرت حاصل ہے کسی بھی موضوع اور مسئلے کو آفاقی صداقت میں ڈھالنا یا مسئلے کو صداقت بخشنا انہیں بخوبی آتا ہے .اس لئے کوئی بھی واقعہ انفرادی واقعہ نہیں رہتا اس میں اجتماعی سائیکی در آتی ہے .زبان پر قدرت حاصل ہے اس لئے ان کی نثر میں ایک خاص دلکشی ،تاثیر اور آہنگ ہے .
آخر میں اتنا ہی کہو نگی کہ اقبال حسن نے ماضی میں جاکر نۓ پاکستان کی بنیاد پڑتے وقت ان محرکات اور حقائق کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی ہے جو آج کی تخریب ،زوال اور کشیدگی کا با عث ہیں . وہ ماضی کی زمین سے وہ آئنہ اٹھا لائے ہیں اور ہمار ے رو برو رکھ دیا ہے کہ جس میں آج کے قوی ہیکل مسائل ،نفرت اور کشیدگی کی جڑیں پنپتی ہوئی دکھائی گئی ہیں اور ان کی یہ کوشش سوئے ہوئے اس ضمیر کو جگانا ہے جو مذھب پرستی ،روایت پسندی حب ا لوطنی جیسے پردے کے پیچھے اپنی نفرت انگیزیوں کا مکروہ چہرہ چھپانا چاہتے ہیں . وہ اس نا ول کے ذریعے یہ پیغام دینے میں کامیاب ہیں کہ انسانیت اور انسان دوستی ہر روا یت اور مذہب سے زیادہ اہم ہے.
معاصر ناولوں میں متعد اور اہم نا ول اردو کے دامن میں جمع ہو چکے ہیں یہ رفتار بہت تیز ہے نئے نئے موضوعات پر نئے نئے ناول لکھے گئے ہیں مگر ان کے فنی معیار سے بحث ابھی باقی ہے .ہمارے ناولوں میں ہمارے عہد اور سماج کی حقیقی تصویروں کو دیکھا جا سکتا ہے .معاصر ناولوں میں سے کس ناول کو اعتبار و اسناد کا درجہ حاصل ہوگا فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہے .ابھی ان ناولوں کو سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے .چند برسوں کے بعد پتہ چلیگا کہ کہ معاصر ناولوں میں کون سا نا ول آگ کا دریا، خدا کی بستی، اداس نسلیں، آنگن اور راجہ گدھ کے سامنے فخر کے ساتھ رکھا جاسکے گا .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...