رئیس صدیقی اُردو دُنیا کا ایک با وقار مشہور نام ہے – یہ نام کئی حوالوں سے اپنی پہچان رکھتا ہے – پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے شائقین اس نام کے کام سے بھی خوب واقف ہیں – میں ان کے بارے میں شُد بُد معلومات رکھتا تھا – مُشاعروں کے اسٹیج پر بھی میں ان کے ساتھ رہا ہوں- پھر ان کی کارکردگیوں اور ان کی غیر معمولی صلاحیتوں سے دھیرے دھیرے واقف ہونے لگا – ان کی ہمہ رنگی شخصیت کا میں گرویدہ ہوتا چلا گیا – یہ میری کم نصیبی کہ میں انھیں پوری طرح جاننے پہچاننے سے محروم رہا – اس کی تلافی ان کے مضامین کا مجموعہ " جو میں نے جانا " کے مطالعہ سے ہوئی – میں نے پایا کہ یہ تخلیقی ذہن کے مالک ہی نہیں تحقیقی میدان کے بھی آدمی ہیں بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ کتاب میں شامل سارے چالیس مضامین تحقیق کے ہی زمرے میں آتے ہیں
رئیس صدیقی نے اس کتاب کے لیے نہ کسی سے مقدمہ لکھوایا، نہ پیش لفظ، نہ اس میں انھوں نے مُشاہیرِ ادب کی آراء شامل کیں – اگر چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے ، نہیں کر کے میری نظر میں بہت اچھا کیا – ان کا یہ عمل قابلِ ستائش ہے–
ابتدائی صفحات میں "عرض من" کے تحت اپنے بارے میں مختصر بیان سے کام لیا – بچپن سے لے کر اب تک کے اپنے علمی، ادبی اور سماجی ارتقائی سفر کا ذکر مؤثر ڈھنگ سے کر دیا – اس تحریر کی آخری سطریں ملاحظہ فرمائیں –
کتاب کا عنوان" جو میں نے جانا " سے یہ بات واضح ہے کہ یہ قطعی دعوی نہیں ہے کہ تمام مضامین اُردو ادب میں" گراں قدر اضافہ " کر رہے ہیں ، البتہ معلومات میں اضافہ ضرور کریں گے، کیونکہ ایک" میڈیا پرسن " کی حیثیت سے میں اپنی معلومات" آسان زبان و انداز " میں آپ سے شیئر کر رہا ہوں
( کتاب ہذا ص 11،12)
یہ الفاظ مصنّف کی سادہ دلی اور ان کے شفّاف کردار کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ اس کتاب میں معلومات کا ایک سمندر ہے جو بطور "قرطاس " کوزے میں سما گیا ہے – جس کی اہمیت سے انکار کرنا تنگدلی ہے – میں ذاتی طور پر کتاب کے ہر مضمون سے مُتاثر ہُوا ہوں – یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ ہر مضمون کے موضوع کے ساتھ مصنّف نے انصاف کیا ہے اور مختصراً ضروری معلومات اپنے قاری کو فراہم کی ہیں – ایسی طرزِ تحریر میرے تجربے میں پہلی بار آئی ہے – میں نے اس کتاب کو اپنی " ہوم لائبریری" میں محفوظ کر لیا ہے تاکہ سند رہے اور وقتِ ضرورت پر کام آئے
پیدائشی مقام لکھنؤ کی تہذیب کے پروردہ مہذب خاندان کے چشم و چراغ رئیس صدیقی اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں -انھوں نے ہندی ، اُردو اور انگریزی زبانوں میں ایم اے کرنے کے بعد بی ایڈ اور اس کے بعد ماس میڈیا میں ڈپلومہ کیا ہے -تینوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور ان زبانوں کا ادب بھی ان کے مطالعے میں رہا ہے -ان تینوں زبانوں میں یہ صحافت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں -ریڈیو اور ٹی وی کی ملازمت بھی کی ہے -عرصئہ دراز تک آل انڈیا ریڈیو کی اُردو سروس کے نگراں بھی رہے ہیں- 2003 میں ترقّی پاکر پرسار بھارتی ( / آل انڈیا ریڈیو / دوردرشن ) میں انڈین براڈ کاسٹنگ سروس کیڈر کے اعلی افسر مقرر ہوئے – صحافتی تجربے اور ان کی ملازمت کے اثرات ان کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں – ان کی پندرہ کتابیں شایع ہو چُکی ہیں جن میں بچّوں کی کہانیوں کی کتابوں کی تعداد زیادہ ہے
اُردو لرننگ کورس نام کی کتاب ہندی کے ذریعے اُردو سکھانے والی کتاب ہے جو دیو ناگری رسم الخط میں چھپی ہے – ان میں ایک کتاب فنِ خطوط نگاری پر ہے اور تین کتابیں اُردو سکھانے سے تعلق رکھتی ہیں – سروس میں رہتے ہوئے پرنٹ میڈیا میں اتنا کام کر لینا اُردو سے محبّت کا ثبوت ہے –
کتاب " جو میں نے جانا" رئیس صدیقی کی تحقیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتی ہے- گو کہ انھوں نے محقق ہونے کا دعوٰی تو نہیں کیا ہے لیکن ہر مضمون انھیں محقق ثابت کرتا ہے ایک ایسا محقق جو اہم سے اہم موضوع کو اختصار میں پُر اثر اور معلوماتی بنانے کا ہُنر جانتا ہے – ان کی یہ بے پناہ صلاحیت قابلِ رشک ہے اور پھر انھوں نے صرف ادب پر ہی
نہیں لکھا بلکہ ایسے مختلف موضوعات پر بھی لکھا ہے جن کو نام نہاد بڑا قلم کار لکھنا گوارا نہیں کرے گا
–رئیس صدیقی اس کام سے اُردو کے دیگر قلمکاروں سے مختلف نظر آتے ہیں
رئیس صدیقی نے مرزا غالب ، علامہ اقبال ، منشی پریم چند ، بہادر شاہ ظفر ، چندر شیکھر آزاد ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا رومی ، شیخ سعدی ، عبدالرحیم خان خاناں ، جیسی عظیم شخصیات کو موضوع بنایا ہے اور دوچار صفحات میں ایک ایک مضمون لکھ کر کمال کر دیا – ان مضامین میں ان شخصیات کی اہمیت ، افادیت کی ایسی نشاندہی کی کہ عام قاری آسانی سے پڑھ لے اور سمجھ لے اور خاص قاری چونک اُٹھے اور داد دیئے بغیر نہ رہ سکے – سوچیے کہ ان شخصیات پر ضخیم کتابیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں- ان کتابوں کے نفسِ مضمون کو سمجھنا ہو تو رئیس صدیقی کی تحریریں پڑھ لیں – شخصیت کی اہمیت بھی روشن ہو جائے گی اور فن کی خصوصیت بھی سمجھ میں آ جائے گی
اس کتاب میں فلم کے موضوع پر عام ڈگر سے ہٹ کر مضامین ہیں جن میں چونکانے والے انکشافات ہیں ، واقعات ہیں – یہ مضامین پڑھ کر اندازہ ہُوا کہ رئیس صدیقی کی فلمی دنیا سے بڑی دلچسپی ہے- ایسا گمان بھی گزرتا ہے کہ اس دنیا سے ان کا تعلق بھی رہا ہے – یہ مضامین بھی مختصر اور دلچسپ ہیں -انھوں نے ستیہ جیت رے ، وی شانتا رام ، نصرت فتح علی خان ، ہیما مالنی پر لکھا ، وہیں فلم میرے حضور کے ونود کمار (عترت حسین) آغا جانی کاشمیری جیسے نامور رائٹرس کو بھی موضوع بنایا جنہیں دنیا بھول چُکی ہےاور اس کے علاوہ محبوب اسٹڈیو کی دیوالی کے سالانہ منعقد ہونے والے شاندار جشن کی تفصیل بھی بیان کر دی – یہ دیوالی ہر سال پروڈیوسر ڈائریکٹر محبوب خان کی سرپرستی میں منائی جاتی تھی- قومی یکجہتی کی ایسی مثال اب کہیں نہیں ملتی – دھارمک فلمیں پیش کرنے والی ممتاز ہستیوں پر لکھ کر رئیس صدیقی نے آج کی فلمی دنیا کو یہ بتا دیا کہ ہر دھارمک فلم کی تیاری میں مختلف مذاہب کے لوگوں کا کس طرح تعاون رہا کرتا تھا – یہ تمام مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں
مسلم سماج سے رئیس صدیقی کی دلچسپی کا ثبوت چار مضامین ہیں (1) مسلم ذوقِ فن تعمیر (2) ہم روزہ کیوں رکھیں (3( رمضان کا اہم پیغام (4) عید ملن -ان مضامین میں دین کے حوالے سے اسلامی کلچر کی دُنیاوی باتیں بھی سامنے آتی ہیں اور متاثر کرتی ہیں – طرزِ تحریر کی سادگی معنویت کے ساتھ دل میں اُتر جاتی ہے
ہمہ جہت قلمکار رئیس صدیقی کی اس کتاب میں اُن موضوعات پر بھی مضامین ہیں جو اُردو زبان میں کم کم ہی لکھے گئے ہیں جیسے منالی :وادیء کشمیر کا حقیقی عکس ، بڑی قیمتی شے ہے زندگی ، مُجھے بھی غصہ آتا ہے ، دستخط : آپکی شخصیت کا آئینہ ، اُردو اور سائنس ، محمد خلیل کی : " حیوانات کی دلچسپ کہانی" ، ہاکی : ابتدا اور ارتقاء کے آئینہ میں ، تیر و کمان : پچاس ہزار پُرانا ہتھیار ، پلاسٹک کا کمال ، پرچمِ ہند ، اور تحریری گفتگو کا آرٹ- یہ سارے مضامین معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ حیاتِ انسانی کے لیے کارآمد بھی ہیں – ایک خاص مضمون ریاض خیرآبادی کے مونو گراف پر بھی ہے جو اس عظیم شاعر کی حیات اور ان کے فن کو اختصار میں بیان کرتا ہے –
جو میں نے جانا ، ١٦٠ صفحات کی ٤٠ مضامین پر مبنی کتاب موضوعات، زبان و بیان اور اختصار کے اوصاف کی وجہ سے اپنی نوعیت کی مُنفرد کتاب ہے – مصنّف رئیس صدیقی کی تحریری صلاحیتوں کو منوا بھی لیتی ہے اور داد بھی پا لیتی ہے
مُجھے خوشی ہے کہ میں نے بہت دن کے بعد قومی کونسل کی مالی مددسے شائع ایک اچھّی تحقیقی کتاب کا مطالعہ کیا اور فیضیابی حاصل کی – اس کو میں اپنی خوش نصیبی -سمجھتا ہوں
“