رئیس امروہوی… سید محمد تقی اور جون ایلیا کے بھائی تھے۔ یعنی ہمہ خانہ آفتاب والی مثل سید شفیق حسن کے گھرانے پر پوری طرح صادق آتی تھی۔
رئیس امروہوی 12 ستمبر 1914 کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ اردو، عربی، فارسی کی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی، کسی سکول کالج نہیں گئے۔ انگریزی کی استطاعت ذاتی مطالعے سے پیدا کی۔ کم عمری میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی اخبارات وجرائد کی ادارت کی .
1946 میں ’جنگ‘ سے وابستہ ہوئے۔ 5 جون 1947 کو پہلا قطعہ شائع ہوا۔ پھر یہ تاحیات شائع ہوتا رہا۔ قطعہ ان کیلئے ’ سہل ممتنع ‘ بن گیا۔ ان کی زندگی میں اور ان کے بعد یاروں نےاخباری قطعے میں بہت زور مارا مگر کوئی ان کے قریب بھی نہ پہنچ سکا۔ جائے استاد ابھی تک خالی ہے۔
رئیس امروہوی کے قطعات ایک طرح سے پاکستان کی منظوم تاریخ ہیں ۔ قطعات کا پہلا مجموعہ1960 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تین اور مجموعے بھی شائع ہوئے۔ تاریخ گوئی میں بھی رئیس کو کمال حاصل تھا۔
جنگ میں رئیس امروہوی کا ایک ہفتہ وار کالم سیاسیات، سماجیات، مابعد الطبیعیات، نجوم، فلسفہ اور نفسیات پر شائع ہوتا تھا۔ جس میں قارئین کے خطوط کے جوابات بھی دیتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے ایک لاکھہ سے زیادہ جوابات دئیے۔
رئیس امروہوی ذاتی خطوط کے جواب بھی ضرور اور فوری دیتے تھے۔ دو تین بار میں نے جوابی لفافے کے ساتھہ خط لکھے تو تین چار دن میں جواب موصول ہوگیا۔
1968 یا1969 میں ایک کالم میں انہوں نے ’حاضرات‘ کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے بھٹو اور مجیب کے بارے میں بھی پیش گوئی کی۔ مجھے اشتیاق ہوا ۔ خط لکھہ کر اس کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوں نے مختصر جواب دیا
’بھٹو اور مجیب کے بارے میں قتل‘
غور فرمائیے یہ پیش گوئی کتنے سال پہلے کی گئی۔
رئیس امروہوی نے اردو شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ کئی مجموعے شائع ہوئے، جن میں الف، پسِ غبار، لالۂ صحرا،حکایت، آثار، بحضرتِ انسان، ملبوسِ بہار، انا من الحسین ، مثنوی لالۂ صحرا شامل ہیں۔ مضامین کے مجموعے عجائباتِ نفس، عالمِ ارواح، ہپناٹزم، لے سانس بھی آہستہ، عالمِ برزخ، حاضراتِ ارواح اور نفسیات و مابعد نفسیات بھی شائع ہوئے۔
22 ستمبر 1988کی شام حضرتِ رئیس اپنے کمرے میں محوِ مطالعہ تھے کہ کسی نامعلوم شخص نے گولی مار کر شہید کردیا.
پراسرار علوم کے اس ماہر کا قتل آج تک اسرار کے پردے میں ہے!
رئیس امروہوی کے کچھ اشعار…
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں
خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو
کانٹوں سے فگار اُنگلیاں ہیں
ملبوسِ بہار سی رہا ہوں
ہر عہد کی شہریت سے محروم
ہر شہر میں بے وطن ہیں ہم لوگ
تنگ ہیں ہم پر زمین و آسماں
چل کہیں اے دل مگر اے دل کہاں
تیرِ ستم کی زد پہ سہی یہ خوشی تو ہے
کیا کیا چبھے ہیں سینہء اہلِ ستم میں ہم
کہہ دو رئیس کتبہ نویسانِ قبر سے
شامل نہیں تجارتِ اہلِ قلم میں ہم
اے ہوائے شمال و بادِ جنوب
اُس پری زاد کا کہاں ہے وطن
بول اے اخترِ غنودہء صبح
کوئی راتوں میں جاگتا تو نہیں
تم لوگ ہو آندھیوں کی زد میں
میں قحطِ ہوا سے مر رہا ہوں
اُن سے ہم بچھڑے تھے دم بھر کو رئیس
عمر بھر احساسِ محرومی رہا
ساقی کے بندوبست سے رندانِ کم طلب
تنگ ائے اس قدر کہ بلا نوش ہو گئے
رئیس ان کی جوانی بھی کیا جوانی تھی
رئیس ان کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا
شکستِ نَے ہے قیامت مگر یہ سوچ رئیس
کہ نَے نواز پہ کیا کچھ گزر گیا ہوگا
اعدادِ سنگ میل ہیں گمراہ کُن بہت
یارو قدم قدم پہ شمارِ قدم کرو
ہم خزاں کے مزاج داں ہیں رئیس
ہم پہ عہدِ بہار گزرا ہے
ان کے قاصد کا منتظر ہوں میں
اے اجل تُو کہاں سے آتی ہے
کتنی صبحیں تھیں کہ نذرِ فکرِ دُنیا ہو گئیں
کتنی شامیں تھیں کہ غرقِ جامِ صہبا ہو گئیں
صبح نو ہم تو ترے ساتھ درخشاں ہوں گے
اور ہوں گےجو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
نہ جانے کون سے سانچے میں ڈھالیں
ابھی تو صرف پگھلایا گیا ہوں
“