ریلوے کو پرائیویٹائز کرنے کی ابتداء – غریبوں کے تئیں بے فکری کی دلیل
بات بات پر غریبوں کا دم بھرنے والی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ وہ منافع میں چل رہی انڈین ریلویز کی کمپنی آئی آر سی ٹی سی (IRCTC)کو شیئر بازار میں لسٹ کرنے جارہی ہے۔کمپنی اپنے ننانوے فیصد حصے داری سے ساڑھے بارہ فیصد شیئر کو بیچنے کے لیے شیئر بازار میں انیشئل پبلک آفر (IPO) کو متعارف کرا رہی ہے، جسے خرید کر لوگ کمپنی کے ایک چھوٹے سے حصے کا مالک بن سکتے ہیں۔ جس سے کمپنی کو 645 کروڑ روپے کی آمدنی ہونے والی ہے۔ اور اس خرید کے لیے 3 ؍اکتوبر کی آخری تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔ کارپوریٹس میں اس کمپنی کے شیئر کا کس بے صبری سے انتظار تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سطور کے تحریر کرنے تک اعلان کردہ حصے داری کے ساٹھ فیصد حصص کی خرید کے لیے درخواستیں آ چکی ہیں۔ اس سے لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ کمپنی کے شیئر ’اوور سبسکرائب‘ ہوں گے یعنی آخر تک اتنی درخواستیں آ جائیں گی کہ کسے دیا جائے اس کے لیے قرعہ اندازی کی جائے گی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی سرکار انڈین ریلویز کی تین کمپنیوں (ریل وکاس نگم، RITES اور IRCON) کو شیئر مارکیٹ میں لا چکی تھی، لیکن اس کے لیے اتنی مارا ماری نہیں ہوئی تھی۔ کیوں کہ وہ کمپنیاں منافع بخش نہیں تھیں۔ کارپوریٹس کو تو منافع چاہیے، اس لیے ظاہر ہے وہ ان ہی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کریں گی جس میں انہیں زیادہ سے زیادہ منافع نظر آئے گا۔
لیکن کیا سرکار بھی کارپوریٹس کی ذہنیت سے کام کرنے لگی ہے۔ جواب بہت حد تک ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ معاشی کساد بازاری، کئی سہ ماہیوں سے لگاتار گھٹتے ٹیکس کلیکشن اور گرتی جی ڈی پی کی مار جھیل رہی سرکار کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ اس لئے پیسوں کے حصول کے لیے اس نے اس سے پہلے سو دن کے ایکشن پلان کے تحت ریلوے کے پرائیویٹائزیشن اور ریلوے کی فیکٹریوں(کوچ فیکٹری وغیرہ) کو کارپوریٹائز کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں ناکام رہنے کے بعد ریلوے کی منافع بخش کمپنیوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے کر پیسوں کے حصول کا طریقہ اپنا لیا ہے۔ بات صرف آئی آر سی ٹی سی کی ہی ہوتی تو زیادہ دقت نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکار نے آئی آر سی ٹی سی کے ذریعے ریلوے ٹرافک کو بھی پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کا لائحہ عمل تیار کر لیاہے۔ اس کے تحت پہلی ریل گاڑی کو 5 ؍اکتوبر سے دہلی – لکھنؤ کے بیچ تیجس ایکسپریس کے نام سے چلانے کا اعلان ہو چکا ہے اور اس کے بعد ممبئی – احمد آباد کے ساتھ ساتھ مزید 50 روٹس کی 150 ٹرینوں کو پرائیویٹائز کرنے کی تیاری تقریباً مکمل ہے۔ حالانکہ یہی سرکار ہے جس نے نہ صرف اپوزیشن میں رہتے ہوئے ریلوے کو پرائیویٹائز کرنے کی سخت مخالفت کی تھی بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی دسیوں بار قسمیں کھا کھا کر ریلوے کو پرائیویٹ ہاتھوں میں نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریلوے اس وقت چالیس ہزار کروڑ کے گھاٹے میں چل رہی ہے، اس کی بھرپائی کے لیے سرکار نے مختلف اوقات میں ریلوے کے مختلف کاموں (جیسے کھان پان، صاف صفائی اور ٹریک بچھانے کے عمل) کو پہلے ہی آؤٹ سورس کر دیا تھا۔ اس طرح سے ٹرینوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے بعد صرف اسٹیشن، پلیٹ فارم، ڈرائیور، ٹریکس اور سگنل سسٹم جیسے کور سیکٹر ہی ریلوے کے پاس رہ جائیں گے۔ لیکن اگر ان کوششوں سے بھی سرکار کی پیسے کی تنگی ختم نہ ہوئی تو وہ ان سیکٹرز کو بھی پرائیویٹ ہاتھوں کے حوالے کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ جس سے پورا کے پورا ریلوے ہی پرائیویٹائز ہو جائے گا اور پھر ملک کے کروڑوں غریبوں کے لیے ملک کے اندر ہی سفر کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انڈین ریلویز کی حالت انتہائی خستہ ہے، اس کا اعتراف سبھی کرتے ہیں مسافر بھی اور سرکار بھی۔ لیکن اس کے لیے ذمہ دار کون ہے، اس کی طرف دھیان کبھی نہیں دیا گیا۔ ریلوے کی خستہ حالت کا ذمہ دار صحیح معنوں میں ریلوے کے وزراء، افسران اور ملازمین ہی ہیں۔ جن کے اندر اتنی پروفیشنلزم نہیں کہ جاپان، چائنا اور فرانس جیسے ممالک سے کچھ سیکھ کر ریلوے کے منافع کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ وزراء اور افسران کو سیکھنے کے لیے ان ممالک کے دورے پر نہیں بھیجا گیا لیکن کرپشن اور وژن کی کمی اتنی زیادہ ہے کہ کبھی بھی ریلوے کی حالت نہیں سدھر سکی۔ لالو پرسادیادو کے زمانۂ وزارت میں ریلوے نے منافع کمایا تھا لیکن اس کے بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ ان نااہل اہلکاروں کی کمیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ آج عام آدمی کو اس طرح برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ کرپشن سے گھر وہ بھرتے ہیں لیکن عام آدمی کے ٹکٹوں پر لکھا یہ جارہا ہے کہ ’ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے کرایے کا 43 فیصدی حصے کا بوجھ عام آدمی اٹھاتا ہے؟‘‘ اگر ریلوے کے اندر موجود ٹی ٹی سے لے کر افسرانِ اعلی اور وزراء کی سطح کے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو انڈین ریلویز بھی ٹھیک اسی طرح منافع میں آجائے گی جس طرح دہلی میٹرو، این ٹی پی سی، اور اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا لمیٹڈ جیسی کمپنیاں منافع کما کر سرکار کو دیتی ہیں اور اس کی جیب بھرتی ہیں۔ لیکن افسرانِ اعلی یہ کام کیوں کرنے لگے؟ ٹریک کی کمی کے چلتے کوئی بھی گاڑی اپنے طے وقت پر نہیں پہنچ پاتی، اس لئے ضروری تھا کہ زیادہ سے زیادہ نئی پٹریاں بچھائی جائیں اور اس کے لین میں اضافے کیے جائیں لیکن یہ افسران اب تک بس اتنا کر سکے کہ چھوٹی لائن کو بڑی لائن اور الیکٹرک لائن میں تبدیل کر کے ہی اپنی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ نئے علاقوں میں پٹریاں بچھانے کے عمل کو تو انہوں نے 1950 کے 53,596 کیلو میٹر کے مقابلے میں محض 12 ہزار کلومیٹر کا ہی اضافہ کرنے کی سکت دکھائی۔ ایسے میں ان کی پروفیشنلزم پر کیسے کوئی یقین کر ے گا۔ لیکن کیا پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے کے بعد بھی اس کی طرف توجہ دی جائے گی، یہ سوال منہ کھولے کھڑا ہے؟
انڈین ریلویز ملک کو ایک دھاگے میں پرو کر رکھنے کا کام بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرتی رہی ہے لیکن جب یہ پرائیویٹ ہاتھوں میں آجائے گی تو ایسا شاید ہی ہو پائے۔ کیوں کہ نجی کمپنیاں ان ہی روٹس پر دھیان مرکوز رکھے گی جہاں سے ان کو زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہوگا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ریلوے کو سرکار کے ہاتھوں میں ہی رہنا چاہیے۔ انڈین ریلویز کو ملک کی لائف لائن کہا جاتا رہا ہے۔ کیونکہ دو کروڑ سے زائد مسافر روزانہ ریلوے کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی سستے کرایے میں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ریلوے ہی سستا ذریعہ تھا لیکن پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے کے بعد یہ بھی ممکن نہیں رہے گا۔ تھوڑی بہت سہولیات تو بڑھ جائیں گی لیکن ترقیات کے معاملے میں عدم مساوات والے ملک کے غریب کاریگروں اور مزدوروں کی ایک بڑی آبادی جو ملک کی تقریباً پچاس فیصدی سے زائد ہے، ان کے لیے ملک کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا تقریباً ناممکن نہیں ہو جائے گا۔ اس کا ایک اندازہ آپ لگا سکتے ہیں 5؍ اکتوبر سے لکھنؤ اور دہلی کے درمیان چلنے والی تیجس ایکسپریس کی کرایے کی در سے۔ حالانکہ آئی آر سی ٹی سی نے کہا ہے کہ اگر ٹرین لیٹ ہوتی تو ایک گھنٹے کی تاخیر پر سو روپے اور دو گھنٹے کی تاخیر پر ڈھائی سو روپے ہر مسافر کو دیا جائے گا۔ دو گھنٹے کی تاخیر پر 250 روپے ریٹرن کلیم کرنے کی سہولت تو دی جا رہی ہے تیجس ایکسپریس میں، لیکن اس کے لیے ایگزیکٹو کلاس کا کرایہ 2450 روپے اور چیئر کار کا کرایہ 1755 روپے ادا کرنے پڑیں گے۔ جبکہ وہ دہلی سے لکھنؤ تک کا یہ سفر 6 گھنٹے 30 منٹ میں طے کرے گی۔ حالانکہ اسی روٹ کی سب سے تیز ٹرین گورکھپور ہمسفر ایکسپریس یہی دوری 6 گھنٹے 20 منٹ میں ہی طے کرتی ہے اور اس کے تھرڈ اے سی کا کرایہ 890 روپے ہے جو تیجس کے مقابلے میں بے حد کم ہے ۔ اس سے پتہ چلا کہ وقت اور کرایے کے معاملے میں تو اس روٹ میں تیجس سب سے بہترین ٹرین کا مقام حاصل نہ کر سکے گی۔ باقی رہی ایل ای ڈی اسکرین، فری وائی فائی، ذاتی ریڈنگ لائٹس اور چارجنگ پوائنٹ وغیرہ جیسی سہولیات تو کیا فلائٹ کے ایک گھنٹے کے سفر کے مقابلے میں لوگ تیجس کو ترجیح دیں گے۔ عام حالات میں ایسا لگتا تو نہیں ہے۔ لیکن اسی طرح اگر ساری ٹرینوں کے کرایے میں اضافہ کر دیا جائے تو عام آدمی، طلبہ اور کروڑوں مزدور کیسے سفر کر سکیں گے۔ پھر نئے ٹریکس کی عدم موجودگی میں تیجس جیسی ٹرینوں کو نکالنے کے لیے عام ٹرینوں کو کتنے وقت تک آؤٹرز پر اور کراسنگ پر روکا جائے گا، اس پر کبھی شاید ہی سوچا گیا ہو۔ اس سے عام آدمی کے وقت کی بربادی کتنی ہوگی، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایسے حالات میں جبکہ ملک کے ایک بڑے حصے میں معاشی نا برابری کا دور دورہ ہو، اس وقت ریلوے جیسے نقل و حمل کے واحد سستے ذریعے کو بھی کارپوریٹس کے ہاتھوں میں تھما دینا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے حکمراں کس قدر بے حس اور غریبوں کے تئیں بے فکر ہوتے جا رہے ہیں۔