یہ ایک سچے عشق کی لازوال کہانی ہے جو کہ ہندوستان کے شہر حیدرآباد سے شروع ہوئی اور پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام ہے پذیر ہوئی میں خود تو اس کا راوی نہیں ہوں لیکن میرے ایک بہت اچھے دوست کی بیوی اس لواسٹوری کی تقریباً چشم دید گواہ ہیں تقریباً اس لیے کہ زیادہ تر واقعات ان کے سامنے ہی پیش آئے تھے
وہ کہتے ہیں نہ کہ محبت کی شدت کو محسوس کرنا ہو تو اپنے محبوب سے بچھڑ کر دیکھو، کہتے ہیں کہ اگر کوئی پتہ بھی کھڑکتا ہے تو اس میں بھی محبوب کی آہٹ سنائی دیتی ہے لمحہ بہ لمحہ سینے میں ایک چبھن کا سا احساس ہوتا ہے ہر چیز میں اس کی ہی تصویر دکھائی دیتی ہے ویسے میرا خیال ہے کہ محبوب کو پانے کے بعد اس کی شدت وہ نہیں رہتی ہے اس لیے تو جتنی بھی تاریخ کی مشہور لواسٹوریز کی ہیں ساری کی ساری بچھڑے ہوؤں کی داستانیں ہیں ورنہ جن کی بھی شادیاں ہوئی ہیں وہ بچے پالنے اور بازار سے دال سبزی لانے میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں محبت کیا خاک کریں گیں
میرا خیال ہے کہ اب آپ لوگ بور ہونے لگ گئے ہونگے اس لیے اصل کہانی کی طرف آتے ہیں یہ کہانی ہے اقبال میاں کی جن کی پیدائش لگ بھگ 1928 میں ہندوستان کے شہر حیدرآباد کہ ایک مسلم خاندان میں ہوئی ان کا خاندان کٹر مذہبی خاندان سے تھا ان کے والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے جس سے ان کے خاندان کی اچھی گزر بسر ہو جاتی تھی خاندان میں ان کے علاؤہ ان کی والدہ تھیں جو کہ ایک خالص گھریلو خاتون تھیں اور ان کے علاؤہ ان کے پانچ بہن بھائی اور بھی تھے جو سب کے سب اقبال میاں سے چھوٹے تھے سب بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے ان کے والدین کو ان سے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ امیدیں تھیں وہ دور لگ بھگ وہ ہی دور تھا جب پاکستان آزاد ہونے والا تھا اس وقت ہر طرف خونریزی جلاؤ گھیراؤ لوٹ مار چھائی ہوئی تھی حیدرآباد پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے کافی حد تک ان سب سے بچا ہوا تھا لیکن کب کیا ہو جائے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے ہر کوئی خوفزدہ تھا اپنے حوالے سے اپنے گھر والوں کے حوالے سے اپنے مستقبل کے حوالے سے۔ ایسے میں ان کے والدین کا خیال تھا کہ اقبال میاں جلد ازجلد کوئی روزگار کا بندوست کرلیں تو ان کی شادی کر کے گھر میں بہو لے آئیں تاکہ گھر میں رونق ہو جائے لیکن اس دور کے ہر مسلم نوجوان کی طرح اقبال میاں بھی پاکستان کی تحریک میں پیش پیش تھے یہ چونکہ اچھے پڑھے لکھے تھے اس لیے ان کو مسلم لیگ یوتھ ونگ کی آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل کرلیا گیا اس کمیٹی میں نوجوان لڑکوں کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکیاں بھی شامل تھیں اس کمیٹی کا کام مختلف پروگرام آرگنائز کرنا ہوتا تھا جن میں پر امن طریقے سے احتجاج اور جلسے جلوس سب ہی شامل ہوتا تھا اس کمیٹی میں ان کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکیاں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک لڑکی ثریا تقریباً ان ہی کی ہم عمر اور دھان پان سی تھی لیکن پوری جی جان سے تحریک کے کاموں میں مصروف رہتی تھی ایسے ہی ایک دن جب کہ تحریک کے کاموں میں دن تیزی سے گزرتا جارہا تھا کہ کب شام گہری ہو کر رات میں تبدیل ہونے لگی ان کو احساس بھی نہیں ہوا اقبال میاں تو خیر سے مرد تھے ان کو زیادہ فکر نہیں تھی لیکن ثریا لڑکی تھی اور اس پر حالات ایسے تھے کہ اکیلی لڑکی کا رات کے وقت باہر نکلنا بلکل مناسب نہیں تھا ایسے میں کسی سمجھدار ممبر نے اقبال سے کہا کہ ثریا بھی آپ کے علاقے میں رہتی ہیں لہذا ثریا کو باحفاظت گھر تک چھوڑ نا آپ کی زمداری ہے تب اقبال پہ یہ راز کھلا کہ وہ ان کے ہی محلے میں رہتی ہیں
اقبال تو فوراً ہی تیار ہو گئے اس کار خیر کے لیے اور ثریا بھی تھوڑا جھجکتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑیں اور پھر چلتے چلتے کافی حد تک جھجک ختم ہو گئی تو تحریک سے متعلق گفتگو شروع ہو گئی ثریا جس جوش و خروش سے باتیں کر رہی تھی اقبال کو تو بلکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنی سی لڑکی اپنے اندر اتنا جوش رکھتی ہیں پاکستان بنانے کے لیے تو جوشیلے تو وہ بھی بہت زیادہ تھے اقبال کو تو ثریا کا یہ روپ بہت زیادہ پسند آیا باتوں باتوں میں کب وہ لوگ ثریا کے گھر پہنچ گئے پتہ بھی نہیں چلا گھر پہنچ کر ثریا نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ اقبال میاں کو اپنے ماں باپ سے ملوا سکے لیکن وقت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے اقبال میاں نے معزرت کر لی کہ پھر کبھی صحیح۔
اںھر پہنچ کر کھانا وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور پھر سب سونے کے لیے لیٹ گئے رات کو فرصت میں اقبال میاں کو ثریا یاد آگئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ ان کے دل میں کب گھر کر گئی انھیں احساس بھی نہ ہوا اور پھر ساری لو اسٹوریوں کی طرح ان دونوں نے بھی ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں بضاہر ان کی لو اسٹوری میں نہ کوئی رکاوٹ تھی اور نہ کوئی ولن تھا لیکن اللّٰہ کو کیا منظور تھا کوئی نہیں جانتا تھا
اور اچانک پاکستان بننے کا اعلان ہو گیا جہاں لاتعداد خوشیاں تھیں وہیں لاکھوں اندیشے بھی سر اٹھائے کھڑے تھے ہندوؤں نے مسلمانوں کی آبادیوں پر حملے شروع کردیے حلانکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں مسلمانوں کی اکثریت بھی تھی اور یہ بھی کہا جارہا تھا کہ حیدرآباد بھی پاکستان میں شامل ہوگا اس لیے یہاں کے لوگ کافی مطمئن تھے لیکن ہندوؤں کی سازشوں کی وجہ سے حیدرآباد ہندوستان میں شامل ہوگیا۔ اب حیدرآباد کے ہندوستان میں شامل کو جانے کے بعد جو لوگ پاکستان جانا چاہتے تھے انھوں نے تو راتوں رات جانے کی تیاری کر لی ان میں ثریا کا خاندان بھی شامل تھا ہنگاموں میں ثریا کے والد کی نوکری ختم ہو گئی تھی اور اس کے بہن بھائی بھی چھوٹے تھے اور اس کے علاؤہ اس کے والد کے تقریباً سارے خاندان والے بھی پاکستان جارہے تھے اس لیے ثریا کے سارے خاندان والوں نے راتوں رات تیاری کی اور پاکستان کے لیے نکل گئے ثریا بہت کوششوں کے بعد بھی اقبال کو اپنے خاندان کی ہجرت کا نہیں بتا سکی جب تک اقبال میاں کو پتہ چلتا ان کو گئے ہوے کافی دن گزر چکے تھے اقبال کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے انھوں نے اپنے والد کو بھی پاکستان جانے کے لیے منانا چاہا لیکن ان کے والد کی اچھی بجلی نوکری تھی وہ لوگ معاشی طور پر مستحکم تھے اور پھر ان کا سارا خاندان بھی حیدرآباد میں ہی آباد تھا ان میں سے بھی کوئی نہیں جارہا تھا اس لیے اقبال کے بہت ضد کرنے کے باوجود انھوں نے ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا۔
اقبال میاں آخر تھک ہار کر خاموش ہو گئے لیکن کسی کو بھی ان کی پاکستان جانے کی اتنی زیادہ ضد کرنے کی وجہ نہیں پتہ تھی اور نہ ہی انھوں نے کبھی کسی کو بتایا لیکن آہستہ آہستہ یہ محبت کی ہلکی ہلکی آنچ جوالہ مکھی بننے لگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تشنگی بڑھتی ہی جا رہی تھی ہر چیز میں ان کو ثریا کا عکس نظر آنے لگا لیکن اقبال میاں نے اپنی حالت کا کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا آخر کار جب ان کی حالت ان کے ہی قابو سے باہر ہو گئ تو ایک رات چپکے سے سب گھر والوں کو سوتے میں ہمیشہ کے لیے خداحافظ کہہ کر پاکستان کے لیے نکل گئے راستے میں یقیناً تکالیف تو بہت آہیں ہونگی لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ہے
بہرحال وہ کسی طرح لاہور پہنچ گئے اقبال میاں کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ لوگ کون سے شہر گئے ہیں وہ تقریباً 6 مہینے لاہور میں ہی ثریا کو ڈھونڈتے رہے رات کو کسی نہ کسی ریفیوجی کیمپ میں سو جاتے جو بھی تھوڑا بہت کھانا پینا ہوتا وہ کیمپ میں ہی کر لیتے اور صبح پھر پیدل نکل جاتے تلاش میں اسی طرح تقریباً 6 مہینے کے بعد ان کو ایک شخص ملا جس کا تعلق حیدرآباد میں ان کے ہی محلے سے تھا اور وہ ثریا کے والد کو بھی اچھی طرح جانتا تھا وہ انھیں بھی اچھی طرح جانتا تھا وہ اپنی فیملی کے ساتھ آیا تھا اور اس کو پرانے لاہور میں گھر بھی مل چکا تھا وہ اقبال میاں کو اپنے گھر لے آیا اور خوب اچھی طرح خاطر مدارت کی وہ صاحب چاہتے تھے کہ اقبال میاں ان کے ساتھ ہی رہیں لیکن اقبال کو چین کہاں لیکن ان سے گفتگو کے دوران اقبال میاں کو ایک بہت ہی اہم خبر ملی وہ یہ کہ ثریا کا خاندان جب ہندوستان سے پاکستان آیا تھا تو ان کی ملاقات ہوئی تھی ان صاحب نے بتایا کہ ثریا کا خاندان لاہور میں چند دن رک کر آگے کی طرف چلا گیا تھا اور ان کا ارادہ کراچی جانے کا تھا لیکن کراچی میں ثریا کے خاندان کا پتہ ٹھکانہ ان کو نہیں پتہ تھا لیکن اقبال میاں کے لیے اتنی معلومات ہی بہت تھیں اقبال میاں نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ کراچی میں ان کو ڈھونڈیں گے کیسے وہ فوراً ریفیوجی کیمپ واپس آئے اور اپنا تھوڑا بہت سامان سمیٹا اور کراچی کے لیے رخت
سفر باندھ لیا۔
کراچی ساجد میاں کے اندازوں سے بھی بڑا شہر تھا حلانکہ آج کے کراچی کے حساب سے اندازاً دسواں حصہ بھی نہیں ہوگا
بہرحال اسٹیشن سے باہر آکر اقبال پاکستان کواٹرز کی طرف چل پڑے جن کے بارے میں لاہور والے صاحب نے بتایا تھا حیدرآباد سے آنے والے کافی خاندان پاکستان کوارٹرز میں رہے رہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ وہاں سے کچھ ثریا کے خاندان کا پتہ چل جائے
پاکستان کوارٹرز میں بھی اسوقت ریفیوجی کیمپ تھا انھیں بھی عارضی رہائش گاہ مل گئی کچھ عرصہ تک تو اقبال میاں کا وہ ہی روٹین رہا کہ سارا دن سڑکوں پر گھومتے پھرتے اور رات کو آکر کیمپ میں سوجاتے لیکن ایسا کب تک ہو سکتا تھا ان کو ہندوستان سے آئے ہوئے دو سال ہو گئے تھے اور ابھی تک ثریا کے خاندان کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا تھا آخر انھوں نے سوچا کہ اتنا عرصہ ہوگیا ہے گزارہ کر نے کے لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا پڑھے لکھے تو وہ تھے ہی تھوڑی بھگ دوڑ کے بعد انھیں ایک دوکان میں حساب کتاب کی نوکری مل گئی لیکن وہاں بھی ساجد میاں نے یہ شرط رکھی کہ وہ دوپہر کے بعد آیا کریں گے اور پھر سارا حساب کتاب مکمل کرنے کے بعد ہی جایا کریں گے چاہے کتنی دیر ہو جائے، لیکن صبح کے وقت اقبال میاں کا روٹین بلکل نہیں بدلہ انہوں نے اپنی تلاش اسی طرح جاری رکھی البتہ یہ ضرور ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا عشق بجائے کم ہونے کے اور زیادہ ہوگیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت سے ثریا کو تلاش کرنے لگے دوکان کا مالک ایک اچھا انسان تھا اس نے جب یہ دیکھا کہ اقبال میاں روانہ رات کو دیر سے جاتے ہیں اور ان کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے تو اس نے رہاہش کے لیے دوکان کے اوپر بنا ہوا کمرہ اقبال میاں کو دے دیا
وقت اسی طرح دبے پاؤں گزرتا رہا اور تقریباً ان کو 18 سال گزر گئے لیکن وہ اسی شدت کے ساتھ ثریا کو دن میں تلاش کرتے اور شام کو اسی دوکان میں کام کرتے رہے پھر وقت نے دوبارہ کروٹ لی یہ اندازاً 1968 کا سال تھا ایک دن جب کے وہ معمول کے مطابق دوکان میں کام کر رہے تھے کہ دوکان میں ایک شخص کچھ سامان لینے کے لیے داخل ہوا اقبال میاں کا ہم عمر ہوگا اقبال میاں کو اس کی شکل کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی اقبال میاں اس کو غور سے دیکھتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کرنے لگے اتنی دیر میں اس آدمی کی نظر بھی اقبال میاں پر پڑ گئی وہ ان کو دیکھتے ہی زور چلایا اقبال میاں اور ان کے گلے سے آکر لگ گیا تب اقبال میاں کو یاد آیا کہ یہ تو راشد ہے جو کہ حیدرآباد میں ان کے ہی محلے میں رہتا تھا اور ثریا کا رشتہ دار بھی تھا اور راشد کا خاندان اور ثریا کا خاندان نے ایک ساتھ ہی ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی اقبال میاں نے راشد کو زبردستی روک لیا اور جلدی جلدی اپنا کام ختم کرکے وہ اسے اپنے کمرے میں لے گئے اور اپنے ساتھ کھانا بھی کھلایا وہ رات ان دونوں نے باتیں کرتے ہوے اور اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہوئے گزاری
اور انھیں باتوں باتوں میں آخر اقبال میاں کو ثریا کے بارے میں پتہ چل گیا راشد کیونکہ ثریا کا رشتہ دار تھا اس کا ثریا سے رابطہ بھی تھا راشد نے بتایا کہ ثریا کی شادی پاکستان آتے ہی اس کے ماں باپ نے کر دی تھی اس کا میاں سرکاری ملازمت کرتا ہے اور ان کا اس وقت نئی نئی آبادی گلشن اقبال میں رہائش ہے ثریا کے تین بچے ہیں اور سب سے بڑی بیٹی ہے جو کہ تقریباً سترہ یا اٹھارہ سال کی ہے باقی دونوں بیٹے ہیں جو اس سے چھوٹے ہیں ثریا کے ماں باپ کا انتقال ہوچکا تھا اقبال میاں کا تو ثریا کی شادی کا سن کر جیسے دل تھم سا گیا حلانکہ اقبال میاں کو اندازا تھا کہ ثریا کی شادی ہو چکی ہو گی ہمارے معاشرے میں کوئی بھی لڑکی شادی کے بغیر زیادہ وقت نہیں گزار سکتی۔
اقبال میاں نے بہرحال بہت جلد اپنے آپ کو سنبھال لیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ جس محبت کو انھوں نے ساری عمر سب سے چھپا کر دل میں رکھا اب وہ اسے کیسے کسی کے سامنے کھول دیں
اقبال نے باتوں باتوں میں ثریا کا پتہ بھی راشد سے اس طرح معلوم کر لیا کہ اسے احساس بھی نہیں ہوا صبح ناشتہ کے بعد تو راشد چلا گیا لیکن ساجد کو بخار نے آلیا شاید یہ راشد کی باتوں کا اثر تھا وہ پورا دن اپنے کمرے ہی میں پڑے رہے ویسے بھی ان کی تلاش تو اب پوری ہو چکی تھی
ثریا کی شادی کا جان کر تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کی جان ہی نکل گئی ہے انھوں نے بہت کوشش کی ثریا کو بھلانے کی لیکن وہ جتنا بھلانے کی کوشش کرتے وہ اور زیادہ یاد آتی کبھی کبھی تو ان کا دل چاہتا کہ کپڑے پھاڑ کر باہر کہیں نکل جاہیں اور اپنی اس زندگی کو ختم کر لیں لیکن شاید ان میں اتنی ہمت نہیں تھی
آخر کار اقبال میاں نے سوچا کہ ثریا کے گھر کی طرف چکر لگایاجائے ہو سکتا ہے کہ ثریا کی ایک جھلک کسی طرح نظر آ جائے تو شاید دل کو کچھ سکون مل جائے وہ دوسرے دن گھر سے نکلے اور گلشن اقبال میں ثریا کے گھر کے پتے پر پہنچ گئے ان کو پتہ تھا ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس کے گھر جا سکیں لیکن شاید قدرت کو ان کے اور بھی امتحان لینے تھے اقبال جب ثریا کے گھر کے پتہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں دروازے پر گتے کے تکڑے پر ہاتھ سے لکھا ہوا تھا کہ گھر میں اوپر کی منزل پر بنا ہوا ایک کمرہ کرایے کے لیے دستیاب ہے کمرہ سنگل آدمی کو دیا جائے گا اور کرایے میں تین وقت کا کھانا بھی شامل ہوگا اقبال میاں کی تو دل کی دھڑکنیں ایکدم تیز ہو گئیں وہ فوراً واپس اپنی رہائش پر پہنچے اقبال میاں کا پروگرام تھا کہ شام کے وقت ثریا کے گھر جاے تاکہ اس کی ملاقات ثریا کہ شوہر سے ہو کیونکہ ثریا کا شوہر تو اقبال کے لیے اجنبی تھا شوہر سے ملنے کی وجہ یہ تھی کہ اقبال میاں وہ کمرہ کرایے پر لینا چاہتے تھے اقبال میاں کو یہ بھی ڈر تھا کہ ثریا اگر اس کو پہچان لے گی تو شاید کمرہ کرایے پر نہیں دےگی بہرحال شام کو اچھی طرح تیار ہو کر اقبال میاں ثریا کے گھر پہنچ گئے امید کے مطابق ثریا کے شوہر سے ملاقات ہوئی اقبال نے بتایا کہ میں اس علاقے میں رہنے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا تھا تو آپ کا اشتہار نظر آگیا اقبال میاں اپنے بارے میں یہ تو بتایا کہ اس کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے لیکن اس نے ثریا کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ثریا کے میاں کو اقبال میاں کافی معقول لگے اور جب اس نے بتایا کہ ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے تو اسے اور خوشی ہوئی کیونکہ ثریا کا تعلق بھی وہیں سے تھا
بہرحال کرایہ طے کرنے کے بعد کمرہ اقبال میاں کے حوالے کر دیا گیا کرایے میں تین وقت کا کھانا بھی شامل تھا اوپر والی منزل پر وہ ایک ہی کمرہ تھا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا واشروم بھی تھا راستہ بلکل علیحدہ باہر کی طرف سے ہی تھا گھر والوں سے اقبال کا سامنا بلا وجہ ہونے کی بلکل امید نہیں تھی کمرے کے ساتھ کسی بھی قسم کا کچن نہیں تھا شاید اسی لیے کھانے کی سہولت ساتھ دی گئی تھی
اقبال میاں کے پاس سامان ہی کتنا تھا جو ان کو دیر لگتی وہ دوسرے ہی دن اس کمرے میں شفٹ ہوگئے ۔ گلشن شفٹ ہونے کے بعد اقبال کے لیے لیے پرانی جگہ آنا جانا بہت مشکل ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے وہ نوکری چھوڑ دی اور گزراوقات کے لیے اپنے کمرے میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا اقبال کا خرچہ ہی کتنا تھا کرایہ ادا کرنے کے بعد جو پیسے بچ جاتے وہ ثریا کے بچوں پر ہی خرچ کر دیتے تھے
شفٹ ہونے کے بعد حسب وعدہ ثریا کی بڑی بیٹی کھانا لانے لگی جب پہلی دفعہ اقبال نے ثریا کی بیٹی ( روبینہ ) کو دیکھا تو گنگ ریے گیا وہ ہو بہو اپنی ماں کی ہم شکل تھی اقبال روبینہ کو سگی بیٹی کی طرح چاہنے لگا اقبال کی ابھی تک ثریا سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی وہ آہستہ آہستہ روبینہ سے اس کی ماں کے بارے میں غیر محسوس انداز میں پوچھتا رہتا تھا روبینہ کو بھی اقبال اپنے باپ کی طرح لگتا تھا۔
دوسری طرف ثریا کو یہ تو نہیں پتہ تھا کہ نیا کرایہ دار کون ہے اس کو تو نام بھی نہیں پتہ تھا البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کے نئے کرایہ دار کا تعلق بھی حیدرآباد دکن سے ہے قدرتی طور پر اس کو اپنے آپ دلچسپی محسوس ہونے لگی اور کچھ کچھ ثریا بھی تھوڑا بہت روبینہ سے پوچھ لیتی تھی آہستہ آہستہ اس کو شک ہونے لگا کہ یہ نیا کرایہ دار اقبال ہی ہے اور پھر بڑی کوشش کے بعد ثریا نے چھپ کر اقبال کو جب کہ وہ باہر سے آرہا تھا ایک جھلک دیکھ ہی لی اس کو دیکھتے ہی اس کا دل بیٹھ سا گیا ثریا نے پہلی ہی نظر میں پہہچان گئی ظاہر ہے کہ اقبال بھولنے والا تو نہیں تھا گھرور پھر اس کے آنسو نکل جو کسی طرح رکنے میں نہیں آرہے تھے ثریا اور اقبال نے ساری عمر اپنی محبت کی کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی اب اس عمر میں ثریا کو ڈر پیدا ہو کہ اب یہ خاموش محبت رسوائی کا باعث نہ بن جائے ثریا ابھی بھی دل وجان سے اقبال کو چاہتی تھی لیکن ہر مشرقی عورت کی طرح اپنے بسے بسائے گھر کو بھی نہیں کھونا چاہتی تھی ایک دو دن تو ثریا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے پھر آہستہ آہستہ ثریا نے حالات سے سمجھوتا کرلیا اور اس کو یہ سب اچھا لگنے لگا وہ اب اقبال کے لیے اچھے اچھے کھانے بنانے لگی اپنے آپ پر بھی توجہ دینے لگی لیکن قربان جائیے ایسی محبت کے اور خاندانی شرافت کے جب تک وہ لوگ ژندہ رہے ایک ہی گھر میں اوپر نیچے رہتے ہوئے کبھی بھی مل نہیں پائے اور نہ انھوں نے کبھی ملنے کی کوشش کی، روبینہ بھی ماشاء اللہ بڑی ہوچکی تھی اس کو بھی تھوڑا بہت شک ہو گیا تھا لیکن وہ ان کے عشق پر آنسو بہانے کے علاؤہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اب رہے گئے اقبال صاحب تو ان کے لیے عشق کی معراج یہ ہی ریے گئی تھی کہ وہ ثریا کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھائیں اور اس کو دل میں یاد کرتے رہیں روبینہ نے بھی کافی دفعہ کوشش کی کہ اقبال شادی کر لے لیکن اقبال کو اب شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ اب اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھا اقبال کے لیے اب سب سے بڑی خوشی ثریا کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانے میں ہی تھی اگر اقبال کو باہر کسی کام سے جانا بھی ہوتا تھا تو بھی اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کھانے کے وقت تک پہنچ جاؤں ثریا کو بھی اس بات کا پوری طرح اندازہ تھا اس لیئے وہ بھی بہت محبت سے اقبال کے لیے کھانا بناتی تھی
زندگی بہت حد تک مطمئن سی گزرہی تھی لیکن ہر صبح کے بعد شام بھی آتی ہے لیکن اقبال کی زندگی میں تو ایک دم رات ہی آگئی یہ لگ بھگ 1983 کی بات ہے کہ صبح کے وقت اچانک ثریا کے سینے میں شدید درد اٹھا اس کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا لیکن اللّٰہ نے اتنی ہی زندگی لکھی تھی ثریا ہسپتال پہنچتے پہنچتے اللّٰہ کو پیاری ہو گئی پورے گھر میں ایک کہرام سا مچ گیا شوہر اور بچوں کا غم تو اپنی جگہ تھا ہی لیکن اقبال تو ایک دم سکتے میں چلا گیا روبینہ کو اقبال کا پتہ تھا رات کو تدفین کے بعد وہ تھوڑا سا کھانا لیکر اقبال کے پاس گئی لیکن وہ بھی اقبال کی حالت دیکھ کر ڈر گئی روبینہ نے بہت کوشش کی کہ اقبال تھوڑا سا کھانا کھالے لیکن اقبال نے انکار کر دیا جب اس نے بہت ضد کی تو اقبال نے کہا کہ مرنے والی تو مر گئی لیکن ساتھ ہی میرا دانا پانی بھی لے گئی پھر اقبال نے اپنی ساری لواسٹوری روبینہ کو سنائی لیکن اقبال نے روبینہ سے وعدہ لیا کہ اقبال کی زندگی میں وہ یہ کسی کو نہیں بتائے گی اس کے تھوڑی دیر کے بعد اقبال سکتے کی حالت میں چلا گیا اور بہت کوششوں کے باوجود اسے ہوش نہیں آیا اور مسلسل تین دن اسی طرح رہنے کے بعد اقبال کا سکتے ہی کی حالت میں انتقال ہو گیا
یہ کہانی رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانی ہے آج کل کے دور میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ایسی بھی محبت ہوسکتی ہے کہ ایک ہی گھر میں اوپر نیچے تقریباً پندرہ برس رہے لیکن ایک دفعہ بھی ملاقات ہوئی نہ دونوں کی طرف کوئی کوشش ہوئی شاید وہ کھانا ہی اقبال اور ثریا کے پیار کی معراج بن گیا تھا جب تک ثریا شوق اور محبت سے کھانا بناتی رہیں اقبال بھی محبت سے کھاتے رہے جہاں ٹریا کی سانسیں بند ہوئیں اقبال کا رزق بھی دنیا سے اٹھ گیا
اقبال کے انتقال کے کچھ عرصے کے بعد روبینہ کی بھی شادی ہو گئی پھر روبینہ نے اپنے شوہر کو یہ کہانی سنائی اور اس کے میاں کے زریعے ہم لوگوں کو پتہ چلی ، اللّٰہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمائے۔