ہم جستجوئے وِصل لیے
بڑے بے صبور ہو کر
کیفیتِ چشمِ پُرنم، قلبِ مضطرب لے کر
مثلِ بسمل
اُس کے لَوٹ آنے کی رہگزر پہ
سرِشام آنکھوں کے دِیپ جلا کر بیٹھ جاتے ہیں
ہم آس زدہ، تمنائے نظارہ۶ یار لیے
اِس رہگزر پہ دیدے گاڑ دیتے ہیں
اِس رہگزر پہ جب بھی کوئی ہیولہ دکھائی دے
تو دیوانہ وار اُس کی سمت لپکتے ہیں
کہ شاید "وہ"آ گئے
ایک لمحے کو نِگاہیں چمک اٹھتی ہیں
دِل شاداں ہو جاتا ہے
مگر اُس کا نشان نا پا کر
پھر ملال و حسرت زدہ رہ جاتے ہیں
اب تو بس روز کی یہی سرنوشت ہے
اِس سوزِ آرزو کو، دِل کی تشنگی کو
اُسی کی موجودگی سے
قرار ودیت ہو گا
اِن بے چین دھڑکنوں کو
میری ذات کے اُدھورے پن کو
وہی تکمیلیت کا شرف بخشے گا
پر ڈر ہے تو فقط اتنا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن اشکوں کے رواں آب سے
یہ دو جلتے چراغ
کہیں ہمیشگاں کیلئے
بجھ ہی نہ جائیں
اِس سانحے سے پہلے
وہ ا س رہگزر پہ
اپنی موجودگی یقینی بنا کر اِن ترسے دو نینوں کو
اپنے دیدار کی متاع دیت کر دے
کہ مدتیں ہوئیں اُس ماہ رخ کو دیکھے
اُس کے بِنا یہ زیست
اب گراں گزرنے لگی ہے
یہ خلوت اب طوالت پکڑنے لگی ہے
اور اب ہم عادی شبِ زندہ دار بنتے جا رہے ہیں
اے سنگدل چھوڑ کے جانے والے
ہم اِسی رہگزر پہ تیرے منتظر ہیں
تُو لوٹ آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں، اب لوٹ آ
“