(Last Updated On: )
غزل کی غزالیت نے ہر حسِ لطیف رکھنے والے شخص کو متاثر کیاہے۔کیا خواندہ اور کیا ناخواندہ !سبھی اس کے سحر کا شکار ہوئے ہیں ۔غزل سلطنت ِ اردو ادب کی ملکہ ہے۔اس کے حسن اور اداؤں کا ہر کوئی عاشق ہے۔ جب تک یہ کافرحسینہ زندہ رہے گی اس کی سحر طرازی بھی جاری رہے گی۔ ڈاکٹر مقبول احمد مقبولؔ بھی غزل کی سحرطرازی سے نہیں بچ پائے ۔ جذبوں کی سچائی اورسعی ِمسلسل نے ان کے غزل کہنے کے فن کو جلا بخشی ۔مقبول ؔ صاحب کے شعری سفر کا آغاز۱۹۸۱ء سے ہوتا ہے۔۱۹۸۴ء سے ان کا کلام ملک اور بیرونِ ملک کے اخبارات ورسائل کی زینت بنتا آرہا ہے۔ڈسمبر ۲۰۱۱ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بعنوان ’’آدمی لہو لہو ‘‘منظرِعام پر آیا جس میں ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۸ء کے دوران کہی گئی منتخب غزلیات شامل ہیں ۔مجموعہ کا نام انھیں کے شعر ؎
احساس زخم خوردہ ہے اور آدمی لہو لہو
اس خوں چکاں زمانے میں ہے زندگی لہو لہو
سے ماخوذہے۔ اس شعرکو ٹائٹل کَوَر پر بھی درج کیا گیا ہے۔پیش ِ لفظ ڈاکٹر قطب سرشار صاحب نے لکھاہے۔نیٖزڈاکٹر زبیر احمد قمرؔ(دیگلور) نے مقبولؔ صاحب کی شخصیت اور شاعری پر ایک بھرپورخاکا نما مضمون لکھ کر دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
زیرِنظر مجموعہ تقریباًسو(۱۰۰) غزلوںاورپینتالیس (۴۵) متفرق اشعارپر مشتمل ہے ۔ہر غزل کے ساتھ ماہ و سال بھی دیا گیا ہے۔جس سے شاعر کے فکری و فنّی ارتقا پر روشنی ضرور پڑتی ہے لیکن یہ ماہ و سال ترتیب سے نہیں ہیں۔یہ شاعر کا اپنا حسن ِ انتخاب ہے۔ مجموعہ ایک نعت ِ شریف سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں حمد کی کمی کھٹکتی ہے ۔ لیکن مجموعے کی ابتدا اور انتہا بڑی زوردار ہے۔مجموعہ کی پہلی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیے کہ کس توانائی کا ہے: ؎
سوز و گداز و فکر و بصیرت مآب ہیں
میرے تمام شعر حقیقت مآب ہیں
(ص۲۹)
اسی غزل کا مقطع ہے: ؎
گو ، ہم رہین ِحسن ِروایت ضرور ہیں
لیکن صدف مزاج ہیں جدت مآب ہیں
(ص۲۹)
اس طرح کا علانیہ اظہار ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ایک ماہر ِفن ہی اس طرح کہنے کی جرأت کر سکتا ہے۔شاعر کو روایات سے انکار نہیںلیکن اس نے صاف کردیا ہے کہ وہ لکیر کا فقیر بھی نہیں۔روایات کی پاسداری وہ اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ کرے گالیکن اس میں بھی جدّت کا عنصرغالب رہے گا۔ جدّت کا عنصر کیسا ہے؟اس تعلق سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اسی مجموعے کی آخری غزل (صفحہ ۱۳۰ ) کے ایک دو شعرملاحظہ فرمائیے: ؎
حوصلے جن کے پست ہوتے ہیں
ان کو ذرّہ بھی ’’حرف‘‘ ہے صاحب!
اس شعر کے مصرعۂِ ثانی میں ایک لفظ ’’حرف‘‘ کو اس کے اپنے عام معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے شعر فہمی میں کوئی خاص فرق نہیںپڑتا۔کیونکہ شاعر نے حاشیے میں اس لفظ کے معنوں کی وضاحت کردی ہے۔شاعر نے اس کے معنی ’’پہاڑ کی چوٹی‘‘ بتائے ہیں ۔ اب مذکورہ شعر کا مفہوم بالکل صاف اور واضح ہے۔اسی غزل کا دوسرا شعر ہے: ؎
تہہ میں اترو، جو ہو گہر کی طلب
لب ِ ساحل تو ’’سرف‘‘ ہے صاحب!
یہاںسرف(surf)بمعنی جھاگ انگریزی لفظ ہے۔جدید لب ولہجے کے دو چار شعر اور ملاحظہ فرمائیں: ؎
پہلے اصولِ نقد و نظر سے ہو آشنا
پھر صحنِ ذہن میں اگا تنقید کا شجر
(ص۱۳۴)
***
مقبولؔ! بار ور کبھی ہوتے نہیں سبھی
ہر آدمی لگاتا ہے امید کا شجر
(ص۱۳۴)
***
قبول کیجیے ‘یہ ارمغانِ عصرِ جدید
نکھر رہا ہے ہر اک لمحہ حادثوں کا جمال
(ص۶۷)
***
تخمِ آرزو بو کر خوب کی تھی نگرانی
فصلِ یاس ہاتھ آئی خواہشوں کے موسم میں
(ص۵۸)
***
ماحول ہے ریا کا فضائے فریب ہے
کس پر ہو اعتبار ، سرابوں کے شہر میں
(ص۳۰)
***
راہیِ ریگزارِ فکر ہوں میں
اور سر پر ہے آفتابِ غم
(ص۴۵)
مقبول ؔصاحب کی غزلوں میں جدت ِاسلوب وخیال کے باوصف ‘روایت کی پاسداری بھی ہے۔ساتھ ہی داخلیت کا عنصر بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔داخل خارج سے ہم آہنگ ہے۔اس کی اساس ان کے اپنے تجربات و مشاہدات پر رکھی گئی ہے ۔ ان کافکری رویہ مثبت و تعمیری ہے ۔ اور اسلوبِ شعر عام فہم اور بیشتر خطابیہ ہے ۔یہ پیچیدہ طرزِ کی بھول بھلیوں میں قاری کو الجھاتے نہیں۔ اپنے کیف و کرب کو بالکل واضح زبان میں بیا ن کرتے ہیں۔اسی وجہ سے غزل کی لفظیات بھی نرالی نہیں سیدھی سادی ہے۔موصوف کی شعری کائنات کی پسندیدہ لفظیات کچھ اس طرح ہے:
ہمت، حوصلہ، جستجو، لگن، آدمی، گھر، زندگی ،امن و اماں،نگر،شہر،دیار،رہ گزر ، سفر، منزل، رہبر ،رہزن، دوست،دشمن،نفرت ،الفت ،پیار، محبت، رنج و ا لم ، رنج و حرماں، درد وغم، اضطراب، کرب ‘ یاس، موسم، چنگاری، سووگداز،فکرونظر بصیرت، بصارت، شعلہ ،خواب، زہر،زخم،دل، آنکھ،چشم ِتر، آنسو، خوں چکاں، روح،سچ،جھوٹ،عدل،انصاف،ظلم،پریشاں،صحرا،شرر،دیا،تاریکی،صداقت، حقیقت‘کاغذ‘قلم بہار‘آشنا، تحقیق،گفتگو، تمنا، ویرانہ،چمن وغیرہ ۔
کہیں کہیں تعقل ‘تعشق اور اقتضا جیسے نسبتاً مشکل الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ہندی الفاظ کا استعمال:
مقبولؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں ہندی الفاظ کا بھی بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔صفحہ۷۶ کی غزل سوائے ایک لفظ ’’دل‘‘ کے مکمل طور پر ہندی الفاظ سے مزیّن ہے ۔ ’’اے دل‘‘ بر محل ہے۔اگراس کی جگہ کوئی اورہندی لفظ لایا جاتا تو شعر کی روانی متاثر ہوتی ۔
دکھ سے نہ گھبرانا اے دل!
سانجھ کے بعد سویرا ہے
(ص۷۶)
اسی غزل کے دوسرے شعر میں ایک لفظ ’سنکھٹ‘ آیا ہے جو دراصل ’سنکٹ‘ ہے ۔ ہندی اور مراٹھی زبان کا ایک لفظ ’مکت‘ بمعنی آزادی کس خوبصورتی سے درج ذیل شعر میں برتا گیاہے ملاحظہ فرمائیے: ؎
ہر مسئلۂ زیست پہ ڈالوں گا پھر نظر
ہوجائوں پہلے مکت غم ِ روزگار سے
(ص۷۷)
تراکیب کا استعمال:
مقبول ؔصاحب کی غزلیں نئی نئی اور حسین تراکیب سے مزیّن ہیں ۔ ان میں سہ لفظی اورچہار لفظی تراکیب بھی موجود ہیں ۔ اس کے پہلو بہ پہلو حرف ِعطف ’و‘ کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ لیکن اس سے شعر کی سلاست و روانی مجروح نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے استعارا ت و تشبیہا ت اور مختلف صنعتوں سے بھی کام لیا ہے۔ کچھ دو لفظی تراکیب اس طرح ہیں:
تخمِ محبت،تخم ِآرزو،کشتہ ٔ آرزو،فصل ِ محبت،نخل ِ تمنّا،گل ِ امید،خار ِ تمنا ، فضائے فریب ، زلف ِسخن، انبارِزندگی،د و شیز ۂ فریب ،تختیٔ دل ، تشنۂ مقصود ، صفحہ ٔ دہر ،کتاب ِ دہر، قافلہ ٔغم،شیشہ ٔ احساس،نور ِ تدبّر ،ساغرِ حباب، نشۂ نفرت ،بادۂ الفت ، لشکرِغم،دفترِ غم ، نصابِ غم ِ،راہِ تعقل،عکسِ حقیقت،ا شکِ ملال ،کاسہ ٔ جاں، برگِ آوارہ، حسرتِ قرار، سکۂ وقار، صبح ِ خنداں،گل ِ خنداں، شامِ خزاں، زبان ِ چشم،صحن ِ ذہن ، اسیر ِ قلم،تلخیِ دوراں ، آزارِ زندگی،تحفۂ ذلت،اندیشۂ فردا ،خونِ عزائم ،فرمانِ وقت وغیرہ۔
سہ لفظی و چہار لفظی تراکیب کی مثالیں یہ ہیں:
رہینِ حسنِ روایت، ہم سفر ِ آتش ِغم، علاج ِدل ِمحزوں،بزم ِفصل ِگل ، جستجوئے ذوقِ عرفاں،حسنِ ِ نگار ِ شعر،سوزِ غم نہاں،دوشِ دلِ نازک ، دامن ِ دلِ حزیں ، وجہ ِ بے تابی ِ جبیں،وجہ ِگرمی ِدل،ارمغان ِعصرِجدید،زخم طاقِ نسیاں، گردِجادۂ منزل، رہروان ِجا د ۂ منزل، مداوائے غمِ اہلِ زمین، وارفتگی ِ ٔ ذوق ِ تجسس، وارفتگی ِ ٔ شوقِ دل،خیالِ صورتِ جاناں،گرفتارِ علّت ِ عظمت ،خلوصِ نیتِ یاراں، تماشائے حیا سوز، باعث ِہنگامہ ٔمحفل ، باعثِ صد افتخار ،حادثۂ خوں چکاں ، مآلِ لغز شِ آدم، گم گشتگیِ رہ،رنگِ بے مزہ،غمِ نارسائی ،غرورِ کارِ نمایاں،بہشت زارِ محبت،رہینِ حسنِ روایت،لذتِ جہدالبقا، سر فروشانِ راہِ وفا ،باد ہ نو شانِ عیش،راہیِ ریگزارِ فکر ،بادِ سمومِ وقت،پاسبانِ خیرو شر،مثلِ دیدۂ حیراں وغیرہ۔
عطفی تراکیب کی مثالیں یہ ہیں:
بے رہ روی ِفکر و تعقل،غریق ِظلم و جفا،نظام ِ عدل و حکومت، راہ ِ منزلِ صدق و صفا،کمال ِحسن و صداقت ، ،نشانِ فکر و بصیرت،چشمِ بے تاب و اشکبار، ہنگامہ ہائے سبّحہ وزنّار ،حلقہ ٔ شام و سحر، گرد وغبارِ خوف ،صاحبانِ حل وعقد،لطفِ سکونِ عیش ،وجہِ کیف ولذت، دورِ یاس انگیز ومحرومی ِ، زخمِ دل وجاں وغیرہ۔
یہ تراکیب مقبول ؔصاحب کی غالبؔ کے اسلوبِ شعر سے اثر پزیری کی واضح مثالیں ہیں ۔
استعارات:
مقبول ؔصاحب کی غزل میں مستعملہ درجِ ذ یل ا ستعارات ان کی غزل کی رعنائی ، تازگی ،صفائیِ خیال ،جدت اورندرتِ بیاں کو نمایاںکرتے ہیں۔
یادوں کا شہر،زخموں کا شہر،سرابوں کا شہر،بہروں کا شہر،خوابوں کا شہر ، فسا نو ں کا شہر ، حسرت ِدل کا شعلہ،اوہام کا زخم ، رامشوں کا موسم ، روزگار کے شعلے،یاد کے کنول، مایو سیو ں کی دھوپ، مرادوں کے دیپک ، امید کا شجر، تنقید کا شجر، امیدو ں کی شمعیں، صدفِ چشم کے موتی، آوازوں کی بھیڑ وغیرہ۔
تشبیہات:
بہ خوفِ طوالت تشبیہات کے ذیل میں صرف دو مثالیں پیش ہیں۔ ایک شعر میں شاعر نے ارمانوں کو’ شتر ِ بے مہار ‘کی طرح قرار دے کر ان کے بے قابو ہونے کو بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے : ؎
اب زندگی وبال و مصیبت سے کم نہیں
ارمان ہو گئے شترِبے مہار سے
(ص۷۷)
درجِ ذیل شعر میں خدا کی عطا ومہربانی سے محروم زندگی کوبے کیف موسم سے اور مہربانی وعطا سے معمور زندگی کو بادِ صبا کے خوشگوار جھونکے سے تشبیہ دی گئی ہے: ؎
ایسی دنیا تھی مری تیری عطا سے پہلے
جیسے بے کیف سماں بادِ صبا سے پہلے
(ص۱۲۱)
علائم:
شاعرانہ علائم وہ کوڈز ہیں جنھیں ڈی کوڈ کر کے شاعر کے عہد کی فکری نہج اور اس کی تہذیب وثقافت کو سمجھا جا سکتا ہے۔لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔شاعر کے تخیل کی اونچائیوں تک پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔علائم کی معنویت شاعر کی اپنی سوچ،اس کی فکر اس کی اپنی شخصیت اور اس جیسے دیگر عناصر پر منحصر ہوتی ہے۔ غنچہ،گل، بلبل ِچمن ، پرندے ، چراغ،شعلہ،تارے،سورج،دھوپ،پتھروغیرہ یہ وہ علامتیں ہیں جنھیں مقبولؔ صاحب نے بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔لیکن ان کے یہاں ’پتھر‘کی علامت بہت ہی بلیغ معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔دو شعر ملاحظہ فرمائیے: ؎
یہ کیسا شہر ہے، بکھرے ہیں چار سُو پتھر
ہر ایک شخص لگے،مجھ کو ہو بہو پتھر
(ص۷۰)
***
تراش کر رکھیں ،چاہے سجا سجا کے رکھیں
بدل نہ پائے گا زنہار اپنی خو پتھر
(ص۷۰)
صنائع بدائع:
یوں تو مقبولؔ صاحب کی شعری کائنات مختلف صنائع وبدائع سے مملو نظر آتی ہے۔ لیکن آپ جب بھی چھوٹی بحروںمیں غزل کہتے ہیں تواکثرصنعت ِتکرار کا استعمال کرتے ہیں ۔ شاید مقصودِ نظر یہ ہوکہ متقاضی کیف و کم کی شدت کے پیمانہ کا بست و کشاد اور واضح ہو جا ئے ۔ مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
امن کا پرچم ٹکڑے ٹکڑے
وحدتِ انساں پارہ پارہ
(ص۷۲)
***
نفس نفس گھٹن گھٹن
نظر نظر دھواں دھواں
جھلس جھلس گئی ہے شام
سحر سحر دھواں دھواں
(ص۳۷)
***
برگ و بار خون خون
ہر بہار خون خون
دامن ِ دل ِ حزیں
تار تار خون خون
(ص۵۵)
درج ذیل شعر میں صنعت ِ جمع کا التزام ہے۔ارماں،تنائو اور مسئلوں کو عصر ِحاضر کی نئی بیماریاں بتا کر انھیں انسانی بیماری میں شمار کیا گیا ہے۔ اس شعر میں معاشرے کی فکری اساس اور نہج ِ حیات پر گہرا طنز بھی ہے : ؎
ارماں نئے، تنائو نئے، مسائل نئے
ہر شخص آج ہوگیا بیمار کی طرح
(صنعتِ جمع)
(ص۱۱۰)
***
میرا ہر سکھ تیرا ہے
تیرا ہر دکھ میرا ہے
(صنعتِ عکس)
(ص۷۶)
***
کس قدر مختصر ہے صبح ِ نشاط
کتنی لمبی ہے شامِ غم کہیے
(صنعتِ تضاد و عکس)
(ص۵۹)
صنعتِ تلمیح کے حامل دو تین شعر دیکھئے: ؎
میں جانتا ہوں کہ کیا ہے حیات کا مقصد
ہیں واقعات ابھی یاد کربلا کے مجھے
(ص۱۲۳)
***
ایک چھوٹی سی لغزشِ آدم
ہم کو اس خاکداں میں لے آئی
(ص۴۷)
***
مفکر، فلسفی، سائنس داں ،جو بھی سمجھتے ہوں
جہاں کو ہم مآلِ لغزشِ آدم سمجھتے ہیں
(ص۸۹)
صنعتِ ذوالقوافی کی حامل ایک مکمل غزل (غیر مردف)صفحہ ۸۸ پر ہے جس کے دو شعر پیش ہیں : ؎
بے وجہ ہم سے ہے جو کدورت بھلائیے
پھر دل میں اپنے جینے کی رغبت جگا ئیے
کیا ہے عجب، کہ داغ ِ معاصی نہ دھل سکیں
اخلاصِ دل سے اشکِ ندامت بہائیے
مقبول ؔ صاحب کے بعض اشعار میں الفاظ کے استعمال کی مروجہ ترتیب و تر کیب میں ردو بدل بھی نظر آتا ہے۔جیسے اوپر دیے گئے دوسرے شعر کے مصرعۂ ثانی میںخط کشیدہ ’’اخلاص ِدل‘‘ یقیناًضرورت شعری کے تحت ہی آیا ہے لیکن ’’خلوصِ دل‘‘کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ اسی طرح ذیل کے شعر کے مصرعۂ ثانی کے حسن ، اس کی سلاست و روانی اور غنائیت پر ضرب پڑ رہی ہے۔ملاحظہ فرمائیں: ؎
مری پیش وپس عجب ہے ،مری کشمکش غضب ہے
کبھی زیست کو صدا دی کبھی موت کو پکارا
(ص۶۶)
اسی طرح درجِ ذیل اشعار میں عطفی تراکیب قابلِ غور ہیں:
مقبولؔ! غم و فکر ہیں انسان کے ساتھی
دنیا میں کوئی شخص بھی تنہا نہیں ہوتا
(ص۳۸)
***
راستہ خود تلاش کر اپنا
نظر و فکر کو گدا نہ بنا
(ص۷۵)
***
تم کہتے ہو جس کو سیاست
مکر و دغا کا کھیل ہے سارا
(ص۷۲)
***
راستہ خود تلاش کر اپنا
نظر و فکر کو گدا نہ بنا
(ص۷۵)
***
تم کہتے ہو جس کو سیاست
مکر و دغا کا کھیل ہے سارا
(ص۷۲)
رومانیت:
مقبول ؔ صاحب کی اکثر غزلوں میں پند ونصائح کے باوصف حکیمانہ مضامین باند ھے گئے ہیں۔موصوف کی شعری کائنات میں طنزبرائے اصلاح ہے اور وہ بھی مثبت ذہن ساز ی کے لیے ۔ ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر نہیں کے برابر ہے۔لیکن جس غزل میں پند و نصائح اور حکیمانہ باتیں نہ ہوں اس میں ایک آدھ شعر یا پھر پوری غزل ہی رومانیت کی عکاس بن جاتی ہے۔یعنی جب شاعر پر غزل کی غزالہ کے حسن کاجادو سر چڑ ھ کر بولنے لگتا ہے تو پھر ایک بھر پور مکمل رومانی غزل وجود میں آجاتی ہے۔ پھراس غزل کاہر شعر غزل کا مزہ دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ۹۵ پر ایک غزل ہے جس کی ردیف ’’نظر‘‘ نہایت عمدگی سے باندھی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
پیامِ نظر، جام ِ نظر، مقام ِ نظر، دام ِ نظر،اہتمامِ نظر اور پھر احترام نظر ۔
اس جیسے نازک موقعے پر بھی شاعر اپنی تہذیب و شرافت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے کرتا ہے ۔اسی وجہ سے ماہر ِ اقبالیات بدیع الزماں نے کہا کہ ’’مقبول کے کلام میں ایک شائستہ وارفتگی اور مہذب جذب بھی ہے۔‘‘[آدمی لہو لہو،صفحہ ۱۸] ڈاکٹر قطب سرشار نے کہا کہ’’مقبول احمد مقبولؔ کی غزل گوئی صحت مند اور شائستہ زبان میںتحمل و تفکر کا بلاواسطہ شعری اظہار ہے۔‘‘اس غزل کے دو اشعار پیش ِ خدمت ہیں: ؎
ہے عیاں جن پہ راز نظروں کا
جانتے ہیں وہی مقامِِ نظر
***
راز دارِ نظر ہیں ہم مقبولؔ
ہم پہ لازم ہے احترامِ نظر
اسی طرح صفحہ ۴۳ پر ایک رومانی غزل ہے جس میں ’’تمنا ‘‘کے حوالے سے تمنا کے مدارج سے گفتگو کی گئی ہے:
اظہار ِ تمنا ، خار ِ تمنا، گرفتار ِ تمنا، آزار ِ تمنا، نار ِ تمنا، بار ِ تمنا، ایثار ِ تمنا۔
شاعر کی تمنا بے مہار نہیں ہے۔لیکن وہ اپنے محبوب کے دیدار کے لیے بے چین بھی ہے: ؎
اے حسن ِطرح دار اٹھا رخ سے اب نقاب
جلوئوںکا تیرے کیسے نظارا کریں گے ہم
(ص۳۵)
عاشق اس کی اس عیاں گستاخی سے محبوب بھی حیراں ہے ۔لہٰذااس کی شرافت اسے اپنی اس فاش غلطی کا احساس دلاتی ہے اورپھر وہ کہتا ہے: ؎
شاید کہ جانتی نہ تھی آدابِ بزمِ حسن
گستاخی ِ نگاہ سے دل شرمسار ہوا ہے
(ص۱۱۱)
پھرشاعر کہتا ہے کہ جب تک اس نے اپنے محبوب کو نہیں دیکھا تھا اس کی غزل برائے نام غزل تھی،پھیکی تھی۔اس میں کوئی لطف نہیں تھا ۔لیکن جب سے اس نے اپنے محبوب کو دیکھا اس کی غزل’ غزل‘ ہو گئی ہے: ؎
بے لطف میرے شعر تھے ،بے رنگ تھی غزل
رنگیں غزل ہوئی ہے ، تمھیں دیکھنے کے بعد
(ص۱۱۴)
شاعر کے عشقیہ اشعار سے ایسا لگتا ہے کے اسے شریک ِ سفر کی تلاش ہے ۔اور جب وہ مقصود ِنظر کا دیدار کر لیتا ہے تو اس پر یہ راز عیاں ہوتاہے کہ یہی اس کا مقصود ہے۔اور جب اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا محبوب اس کی زندگی میں خوشیاں اور چین و سکون بھر دے گا اور زیست کی رعنائیاں اس کے دم سے قائم ہوں گی تو وہ بے سا ختہ کہہ اٹھتا ہے: ؎
وجہِ سکوں، تلاشِ نظر، مقصدِ حیات
دل نے کہا، یہی ہے، تمھیں دیکھنے کے بعد
(ص۱۱۴)
راشد آزرؔ کا احساس ہے: ؎
سارے چہرے دیکھ ڈالے ساری دنیا چھان لی
جستجو اب تک یہی ہے کوئی تم سا دیکھے
مقبول ؔ صاحب کا مذہب ِ شاعری افادیت کا قائل ہے۔لہٰذا وہ جہاں بھی اس پر عمل پیرا ہوئے بیان کی رعنائی اوراس کی شیرینی پر اثر پڑا۔اور جہاں عشق کی پُر خلوص فضا نے آ کے چھیڑاوہاں شعروں کی شعریت میں دلکشی،روانی اور بعض دفعہ بے ساختگی پیدا ہو گئی ہے ۔ لہٰذا شاعرانہ معاملات ِ مہر و محبت میں مقبولؔ صاحب پیچھے نہیں ہیں۔لیکن آپ کی عشقیہ شاعری میں گلے شکوے،ہجر کا رونا،محبوب کی بے وفائی، وصل کی خواہش، جھوٹے عہد و پیماں وغیرہ نہیں ہیں ۔بلکہ اس میں ایک طرح کی شائستگی ہے،تہذیب ہے ،اخلاص ہے ۔ معاملات محض دیدوملاقات تک محدود ہیں۔اس وجہ سے ان کی رومانی شاعری میں کبھی شوخی و زندہ دلی ہے تو کبھی ایک قسم کے جنوں کی سی کیفیت تو کبھی ایک طرح کی اداسی اور حسرت و یاس پائی جاتی ہے۔جن اشعار میں شوخی اور جنوں کی سی کیفیت ہے اس میں پیکر تراشی بھی غضب کی ہے۔زبان و بیاںرواں سادہ سلیس اوربرمحل ہے۔ان کیفیات کے حامل چند اشعار پیش ِ خدمت ہیں: ؎
شوخی وزندہ دلی:
پڑیں چھالے زباں پر غیر کا جو نام بھی لے لیں
کہ ہم تو آپ کے ہیں آپ ہی کی بات کرتے ہیں
(ص۶۴)
***
چمن میں آپ گھڑی بھر بھی جو ٹھہرتے ہیں
تو رنگ آتا ہے کلیوں پہ گل نکھرتے ہیں
(ص۳۴)
***
سمجھا تھا میں نے، سلسلۂ جور ہوا ختم
وہ ہیں، کہ نیا طرزِ ستم ڈھونڈ رہے ہیں
(ص۷۹)
جنوںکی کیفیت:
وجہِ بے تابیِ جبیں کیا ہے؟
آگیا تیرا سنگِ در ہے ضرور
(ص۶۱)
***
یہ قسم ہے میرے سر کی نہیں خیر سنگ ِ در کی
کہ میرے جنوں کا قصہ ہوا سب پہ آشکارا
(ص۶۶)
***
اک طرف وہ اور بزمِ فصلِ گل
اک طرف ہے چاکِ داماں اور ہم
(ص۳۳)
حسرت و یاس اور تڑپ: ؎
جب دل میں اس کی یاد کے کھلنے لگے کنول
یک لخت ختم ہوگئیں ویرانیاں تمام
(ص۷۴)
***
اُجڑ گیا تو کسی طور پھر یہ بس نہ سکا
ہزار کوششیں کیں شہرِ دل بسانے کی
(ص۹۷)
***
کیا ہے سوائے درد کے یادوں کے شہر میں
رکھیں قدم نہ بھول کے زخموں کے شہر میں
(ص۳۰)
***
یاد اس کو کبھی کیا ہوتا
بسترِ مرگ پر سمجھ آئی
(ص۴۷)
احساس ِشخصیت اور فن:
ہر فنکار کو اپنی قدر و قیمت اور عظمت کا احساس ہر وقت لگا رہتا ہے۔اور وہ اس بابت خوشی ، ناخوشی،غم و غصہ اور شکوہ وشکایات کا اظہار اپنی شاعری میں کرتا رہتا ہے ۔ مقبولؔ صاحب کو بھی اپنی شخصیت اور اپنے فن کی فکر ہے۔اپنے مقام او رمرتبۂ شاعری کا احساس ہے ۔ اس حوالے سے موصوف کے چند اشعار بلا تبصرہ پیش ِ خدمت ہیں: ؎
وہ نغمہ ہوں، ہے جس کو حاجتِ ساز
کوئی سنتا نہیں ہے وہ صدا ہوں
(ص۱۲۹)
***
بے بصارت ہے زمانے کی نظر اے مقبولؔ!
نہ ہوئی قدر تری اب تو کسی دم ہی سہی
(ص۶۳)
***
کون شاعر تجھے سمجھے گا بھلا اے مقبولؔ!
تجھ میں وہ خو ہے نہ انداز و ادا ، کچھ بھی نہیں
(ص۱۲۰)
شاعر کو یہ احساس ہے کہ وہ ایسا پر کیف نغمہ ہے جسے ایک سریلے ساز کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات و ہ شاعرانہ تعلی سے بھی کام لیتا ہے اور کہتا ہے: ؎
کم نگاہیِ جہاں کیا دیکھ پائے گی مجھے
ہوں بظاہر ایک قطرہ، اصل میں دریا ہوں میں
(ص۴۵)
شاعر کو ا س با ت کی کوئی فکر نہیں کہ اس کا نام تاریخ ِ شاعری میں درج ہو۔وہ نام ونمود اور شہرت سے بے نیاز رہ کر شعر وسخن کی بے لوث خدمت کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: ؎
تاریخِ شاعری میں رقم نام ہو نہ ہو
زلفِ سخن ضرور سنوارا کریں گے ہم
(ص۳۵)
ساتھ ہی اسے اس بات کابھی قلق ہے کہ وہ جس ماحول میں سانس لے ر ہا ہے و ہاں نہ کوئی اس کا ہم خیال ہے نہ ہم سخن،نہ کوئی صاحبِ دل ہے نہ اہلِ نظر۔ اس کے احساسات وجذبات ،افکار وخیالات کو سمجھنے والا ہی کوئی نہیں ۔ایک طرح سے وہ قیدِ تنہائی کا عذاب جھیل رہا ہے۔ ؎
کوئی تو ہم نفس وہم سخن ملے یارب!
تڑپ رہا ہوں میں مدت سے انجمن کے لیے
(ص۱۱۲)
***
مری داستانِ الم کون سمجھے؟
کوئی اہلِ دل ہے نہ اہلِ نظر ہے
(ص۱۱۶)
پھر وہ سنبھل جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس پر بڑا کرم ہے کہ وہ اتنا گمنام بھی نہیں ۔ اس کا نام بھی ’’مقبول‘‘ ہے اور اس کی شعر گوئی بھی۔لہٰذا اسے متعارف کرانے کے لیے کسی ناقد کی ضرورت نہیں۔زمانہ خود ناقد ہے ،قدر شناس ہے،پاریکھ ہے۔لہٰذا وہ مومن ؔاور دیگر شعرا ء کی طرح اپنے اشعار میں تخلص کا ذومعنی استعمال کرکے اپنے دل کی بات واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔کچھ مثالیں اوپر آچکی ہیں۔دو ایک مثالیںاور ملاحظہ فرمائیں: ؎
خدا کا کرم ہے کہ مقبول ؔہوں میں
یہ ناقد کریں گے مجھے مشتہر کیا!
(ص۱۲۷)
***
شعر گوئی میں نام ہے مقبولؔ!
یہ تعارف ہے مختصر اپنا
(ص۱۰۴)
***
یہ شعر گوئی کا صدقہ نہیں تو پھر کیا ہے
نظر میں ہو گئے مقبولؔ ہم زمانے کی
(ص۹۷)
شاعر کی زندگی اور فکر ِمعاش:
دنیا میں لاکھ چہل پہل ہولیکن جب ہر طرف سے مصیبتیں ،پریشانیاں ، آفتیں آ کر گھر میں ڈیرا ڈالتی ہیں تو گھر کے مکیں کیا دیوار و دَرسبزہ و شجر ہر طرف سے مایوسی اداسی اترنے لگتی ہے۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑاکسی کو کچھ نہیں بھاتا۔ ؎
کیا بات ہے کہ غنچہ و گل سب اداس ہیں؟
مقبولؔ! جب کہ باغ میں رقصاں بہار ہے!
(ص۱۱۱)
مقبولؔ صاحب نے جب عملی زندگی میں قدم رکھاتو معاشی مسائل ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ شدید معاشی بحران کا شکار رہا۔ اعلی ٰ تعلیم کا خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔خواہشات کی عدم تکمیل ،آرزؤوں کی ناکامی،حصولِ تعلیم کی تمنا اور ایک باوقار روزگار کی حسرت انھیں ہمیشہ بے چین و ملول رکھتی تھی ۔یہ دوران کے شدید ذہنی کرب وابتلا کا دور تھا۔ ان محرومیوں اور المناکیو ں کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا ۔ اس داستان ِ الم کو انھوں نے اشعار کی صورت میں جابجا پیش کیا ہے۔ اس کرب وابتلا کی کیفیت کے حامل چند اشعارپیش ِ خدمت ہیں: ؎
تا صبح اپنے گھر میں اندھیرے کا راج تھا
کیا فائدہ جو جلتے رہے شہر بھر چراغ
(ص۶۰)
***
نمی ہے آنسوئوں کی خوں چکاں الفاظ ہیں سارے
یہ میری ہی کہانی کا ورق معلوم ہوتا ہے
(ص۵۱)
***
کیا ہے دردِ محرومی، پوچھ مجھ سے اے مقبولؔ!
قطرہ قطرہ ترسا ہوں بارشوں کے موسم میں
(ص۵۸)
***
کشتۂ آرزو ہوں میں گزری میری حیات یوں
رنج و الم کے آس پاس عیش و طرب سے دور دور
(ص۱۰۷)
***
چند سانسوں ہی کی خیرات ملی ہے مجھ کو
کاسۂ جاں میں مرے اور ہے کیا ؟ کچھ بھی نہیں
(ص۱۲۰)
شاعر کا مآرب ِ حیات:
شاعر نے جگہ جگہ اپنے مآرب ِ حیات کا بھی ذکر کیا ہے۔یہ اشاریہ ہے اس بات کا کہ ایک زمانے میں شاعر ِ بڑی بے سروسامانی کی حالت میں رہا۔ کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا ۔ ساتھ تھا تو بس اس کے زخم ِ جگر،رنج و حرماں،یادوں، تنہائیوںیا پھرشکستہ دل،بے کل رو ح ،خون کے آنسو‘ اور ’ ہمت ِ مردانہ‘ کا غذ،قلم اور دوات وغیرہ کا۔اس تعلق سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے: ؎
حسرتوں سے بھرا ہے دل میرا
کتنا آباد یہ ویرانہ ہے
(ص۱۷)
***
اور کچھ بھی نہیں ہے پاس مرے
اک فقط ہمتِ مردانہ ہے
(ص۱۷)
***
اگر ہو تجسس، تو آئو دکھادوں
مرے پاس تو صرف زخمِ جگر ہے
(ص۱۱۵)
***
دل پریشاں، آنکھ ویراں اور ہم
ہیں ہزاروں رنج و حرماں اور ہم
(ص۳۳)
***
دل شکستہ، روح بے کل، اشکِ خوں
یہ ہمارا ساز و ساماں اور ہم
(ص۳۳)
***
کاغذ قلم دوات ہے سرمایۂ حیات
کتنی عظیم ہوتی ہے شاعر کی زندگی
(ص۱۳۲)
***
میری پونجی، میری املاک، اثاثہ میرا
دولتِ شعر ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں
(ص۱۱۹)
کاغذ،قلم، دوات اور اشعار کو شاعر کا سرمایۂ حیات قرار دے کر مقبول ؔصاحب نے شاعر کی عظمت اوراس کے مقام و مرتبے کو انوکھے انداز میں ظاہر کرنے کی سعیِ مسعودکی ہے۔
موضوعات شاعری:
مقبول ؔصاحب نے سماجی ناہمواریوں ،قومی و ملی مسائل،سیاستِ حاضرہ، اقدار کی شکست وریخت ،خود غرضی و مفاد پرستی جیسے مذموم افعال و مسائل کو اپنی شاعری کاموضوع بنایاہے۔ چونکہ انھوںنے اپنے تجربات، جذبات و احسا سا ت کی بنیاد پر زندگی کی حقیقتوں اور دیگر موضوعات کو کافی غور و خوض کے بعد اپنی شاعری میںجگہ دی ہے اوراس سے نتائج بھی اخذ کیے ہیںاس لیے عصرِحاضر کے تناظر میں مقبولؔصاحب کی آواز کچھ زیادہ ہی ما نو س معلوم ہوتی ہے۔ ذیل کی سطورمیں موصوف کی شعری کائنات کے ان متفرق موضوعات کا قدرے اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مقبول ؔصاحب نے اپنی غزل میں موضوعات کومربوط فلسفہ کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس وجہ سے بعض غزلوں میں نظم کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان پر عنوانات بھی لگائے جا سکتے ہیں مثلاً:صفحہ ۳۰:یادوں کے شہر میں،صفحہ ۵۴:خلوص، صفحہ ۶۸ : غم نہ کھا،صفحہ۷۰:پتھرصفحہ۷۱:رہبر؟،صفحہ۷۲:صبح کاتارا،صفحہ ۷۳:بہت اداس ہوں میں ، صفحہ ۸۶:آرزو،صفحہ۹۹:زندگی وغیرہ۔
زندگی اور موت کے فلسفے پر غزلیں:
مقبول ؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں زندگی اور موت کافلسفہ بھی پیش کیا ہے۔ انھوںنے زندگی کو نرالے سلسلے سے تعبیر کرتے ہوے ٔیہ بتایاہے کہ ز ندگی ایک ایسا راستہ ہے جس میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ زندگی بادی النظر میں ایک سہانے خواب کی طرح معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت یہ بے شمار اور بڑے بڑے مصائب و مسائل سے بھری ہوتی ہے۔کسی کے حق میںیہ زہر ہے تو کسی کے لیے ’چشمۂ آب ِبقا‘ ہے ۔ موصوف نے ان لوگوں کو ناداں کہا ہے جو زندگی کوفقط ایک کھیل اور مشغلہ سمجھتے ہیں۔ محفلِ عیش ونشاط کو وہ موت سے تعبیر کرتے ہیں اور محنت وجستجو کو زندگی کہتے ہیں ۔ ؎
جانتے ہو تم کہ کیا ہے زندگی ؟
مسئلہ در مسئلہ ہے زندگی
(ص۹۹)
***
خار ہوں جس پر زیادہ پھول کم
ایک ایسا راستہ ہے زندگی
(ص۹۹)
***
موت کیا ہے؟ محفلِ عیش و نشاط
محنت و جہد ُ لبقا ہے زندگی
(ص۹۹)
دوسرے شعر کے مصرعہ اولیٰ میں ’ہوں‘سہواً ہی ہو سکتا ہے ورنہ’ہوں‘ کی جگہ ’ہیں‘ سے مطلب اور واضح ہوجاتا ۔زندگی سے متعلق ایک اور غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں: ؎
کل تک تھے جس مقام پہ انبارِ زندگی
واں آج دور تک نہیں آثارِِ زندگی
(ص۴۲)
***
مقبول انجماد و سکوں زیست کو نہیں
ہر دور میں جوان ہے رفتارِ زندگی
(ص۴۲)
ایک اور غزل میں زندگی کے غم کا تذکرہ ملتاہے۔کہاہے کہ وہ ریگزار ِفکر کے راہی ہیںاور سر پر آفتابِ غم سوار ہے۔لہٰذا زندگی کتابِ غم بن گئی ہے ۔ پھر دوسری غزل کے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ یہ زندگی ہے یا برف ہے جو لمحہ لمحہ پگھلتی جارہی ہے۔شاعر کا طنزیہ لہجہ دیکھئے کہ کس قدر تیکھا ہے:’’زندگی ہے کہ برف ہے صاحب!‘‘؎
پی رہا ہوں میں تلخ آبِ غم
زندگی بن گئی کتابِ غم
(ص۴۵)
***
راہیِ ریگزارِ فکر ہوں میں
اور سر پر ہے آفتابِ غم
(ص۴۵)
***
لمحہ لمحہ پگھلتی جاتی ہے
زندگی ہے کہ برف ہے صاحب!
(ص۱۳۰)
شاعر کا سائنسی ادراک:
مقبولؔ صاحب کا سائنسی منہاج ِفکر نہ صرف بلند ہے بلکہ یہ ان کی عصری آگہی اور عصری حسّیت کی دلیل بھی ہے۔اکثر ایسا ہوتاہے کہ نئی سائنسی تحقیقات پرانے سائنسی نظریات کو غلط ثابت کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ جو نظریہ کل تک صحیح معلوم ہوتا تھا وہ آج غلط ثابت ہو جاتا ہے۔اس تناظر میں یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
واللہ! یہ سائنس کے بدلتے نظریات
مشکوک ہوئی جاتی ہے ہر چیز نظر میں
(ص۸۴)
سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت بیشک ضروری ہے۔ مریخ وقمر کی تسخیربے شک سائنس و ٹیکنالوجی کی معراج ہے، لیکن شاعر یہ کہتا ہے کہ اگر یہ اہلِ زمین کی کام کی نہ ہوں ، اہلِ زمین کو اس سے فائدہ نہ ہو توپھر ایسی ترقی کس کام کی ؟ہمارا یہ مطلوب نہیں ۔ زمین کے معاملات پر ہی خاک ڈالی جائے تو پھر چاند پر بستیاں قائم کرنے کی باتوں سے عوام کا کیا بھلا ہوگا ؟دنیا کی ایک کثیر آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔بے روزگاری کے سلگتے ہوے مسائل کو حل نہ کر کے کہیں ترقی کی جاسکتی ہے؟ مریخ کی تسخیر سے کس کا بھلا ہوگا؟ اس تناظر میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے: ؎
مطلوب مداوائے غمِ اہلِ زمیں ہے
آبادی مقدم نہیں مریخ و قمر میں
(ص۸۴)
***
انسان کی ترقی سے انکار تو نہیں
لیکن یہ کیا؟ کہ موت کا ساماں بنا لیا
(ص۱۳۳)
***
اس ایٹمی زمانے کی سوغات ہے یہی
ہے ایک اک نفس زدِ قہر و عتاب میں
(ص۵۷)
***
زماں مکاں ہے ایٹمی
بشر بشر دھواں دحواں
(ص۳۷)
قرطاس و قلم سے شدید ذہنی و روحانی وابستگی:
یہ نہیں معلوم کہ مقبولؔ صاحب کو شاعری ورثے میں ملی ہے یا نہیںلیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ موصوف فطری شاعر ہیں۔ اورربّ العالمین سے رات دن دعااورپیارے نبی ؐ سے محبت کا نتیجہ ہے کہ قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ استوار ہوا ۔ اس سے اٹوٹ وابستگی کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے کہ انھوںنے اس کو سرمایہ ٔ افتخارنیٖز سرمایہ ٔ حیات سمجھا۔ ؎
مقبول روز و شب ہے خدا سے یہی دعا
کاغذ قلم دوات نہ مجھ سے رہیں جدا
(ص۱۳۳)
***
کاغذ قلم دوات ہے سرمایۂ حیات
کتنی عظیم ہوتی ہے شاعر کی زندگی