مشرقی پاکستان کی الم ناک علیحدگی کو اکتالیس سال ہورہے ہیں۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل جوانی پار کرچکی ہے۔ دیکھے ہوئے دیار بھولنے لگے ہیں۔ یادوں پر وقت کی دھول جم رہی ہے۔ فضا میں مجید امجد کا لکھا ہئوا نوحہ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے۔
کتنے تارے چمک چمک ڈوبے
کتنے بادل برس برس گذرے
وہ نہ پھر لوٹے مدّتیں بیتیں
انہیں دیکھے ہوئے برس گذرے
اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گذرے
دُور سے راہرو کے کانوں میں
جس طرح نالہء جرس گذرے
ابدی خامشی کی آندھی میں
جیسے کوئی پرِ مگس گذرے
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس معاملے میں اپنا محاسبہ کیا ہے؟ کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے ؟ کیا ہم نے اپنے رویے پر نظرثانی کی ہے؟ سارے جواب نفی میں ہیں۔ اپنے آپ پر ظلم ڈھانے کی انتہا یہ ہے کہ ہمارا نعرہ اب بھی وہی ہے‘ ہمچوما دیگرے نیست ۔ ہے کوئی ہم سا ؟ ہم سا ہوتو سامنے آئے!آگے بڑھنے والی قومیں اپنی غلطیوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ پھر حکمت عملی وضع کرتی ہیں کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ بنگالیوں کو الگ ہوکر ملا ہی کیا؟ وہ تو خراب اور خستہ حال ہیں۔ ایسی ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں کہ افسوس ہوتا ہے اور حیرت بھی !کبھی کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش میں طوائفیں زیادہ ہوگئی ہیں اور بھارت کو سپلائی ہورہی ہیں۔ کبھی کہا جارہا ہے کہ بنگالی پاکستان میں آکر باورچی بنے ہوئے ہیں اور یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ وہ پاکستان سے الگ ہوگئے ہیں۔ کبھی کہا جارہا ہے کہ اقتصادی عدم مساوات کی ساری باتیں جھوٹ تھیں۔ انتہایہ ہے کہ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ مشرقی پاکستانی اکھنڈ بھارت کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ ہمارے دوستوں نے مشہور مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کی تصانیف شاید نہیں دیکھیں جو پاکستان میں قحبہ گری کے بارے میں ہیں۔ جان ہاپکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں بیس ہزار تو صرف بچے ہیں جو ’’دھندے‘‘ میں مبتلا ہیں اور یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو میسر آئے ہیں۔ جوکچھ ریکارڈ پر نہیں ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔ لیکن یہ ایک لایعنی بحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دلیل کا یہ انداز اپنی شکست خود تسلیم کررہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں مسائل ہیں اور اگر ان مسائل کا سبب پاکستان سے علیحدگی کو قراردیا جائے تو یہ ایک خطرناک رویہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوویت یونین سے الگ ہونے کے بعد مسلم وسط ایشیائی ریاستوں سے آئی ہوئی بکائو عورتوں سے پاکستان کے ہوٹل اور گیسٹ ہائوس بھر گئے تھے اور یہ ’’درآمد‘‘ آج بھی جاری ہے۔ مڈل ایسٹ کی’’منڈی ‘‘ میں بھی یہ مال وافر ہے۔ تو پھر کیا اس کا سبب سوویت یونین سے آزادی ہے؟ اور ان ریاستوں کو آزاد نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اس سے بھی زیادہ خطرناک رخ اس دلیل کا یہ ہوگا کہ آج پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے ، بھارت بھی یہی کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان سے الگ ہونے کا انجام ہے! آج جس طرح لاکھوں پاکستانی مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں اپنے اپنے کفیل کی غلامی کررہے ہیں، پاسپورٹ چوبیس گھنٹے سینے پر باندھے ہوئے ہیں، ’’رفیق رفیق‘‘ کے ذلت آمیز خطاب برداشت کررہے ہیں اور سربھی قلم کرارہے ہیں تو کیا یہ بھارت سے الگ ہونے کی سزا ہے؟
رہا یہ سوال کہ کیا سن انیس سو اکہتر سے پہلے کوئی بنگالی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھارت گیا؟ تو حضور ذرا ایک مہینے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان پابندیاں نرم کر کے دیکھ لیجیے، آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا، جتنے چوکیدار شمال سے کراچی میں جا کر کام کر رہے ہیں اور مسلسل جا رہے ہیں اس سے دس گنا زیادہ بھارت کا رُخ کریں گے۔تقسیم سے پہلے کلکتہ اور بمبئی شمال مغربی علاقوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آج اگر لاہور میں رکشا چلانے والے اور ریڑھیوں پر امرود بیچنے والے محنت کش دیر اور سوات کے ہیں تو تو وہ لاہور پہنچ کر اس لیے نہیں رُک گئے کہ ان میں مزید سفر کرنے کی سکت نہیں تھی، وہ اس لیے وہیں ٹھہر گئے کہ آگے بارڈر ہے اور وہ کراس نہیں کر سکتے۔
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جن اداروں کے پیش کردہ اعدادوشمار ہمیں گورکھ دھندا اور فراڈ لگتے ہیں، انہی کے اعدادوشمار کی بنیاد پر ہم اپنی تھیوری صحیح ثابت کرنے لگ جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ 1971ء کے بعد بنگلہ دیش کی معیشت نے ترقی کی ہے اور وہ آج کئی لحاظ سے ہم سے آگے ہے۔ عصمت فروشی تو خیر دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے اور کرۂ ارض کا شاید ہی کوئی ملک اس لعنت سے پاک ہوگا، لیکن ہمارے ہاں تو غربت کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنے دودو اور چار چار سال کے جگر گوشوں کو مشرق وسطیٰ کے اونٹ دوڑانے والے بدوئوں کے ہاتھ فروخت کررہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بھاگتے ہوئے اونٹوں کے سفاک پیروں تلے کچلے جاسکتے ہیں۔ مظفرآباد ، مری، گلیات ، ہزارہ، چترال اور دوسرے کوہستانی علاقوں کے لاکھوں بچے اسلام آباد ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ہوٹلوں میں برتن مانجھ رہے ہیں اور ورکشاپوں میں مزدوریاں کررہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے گرامین بنک نے دنیا میں ایک نیا دروازہ کھولا ہے اور درجنوں ممالک اس کی پیروی کررہے ہیں۔ اکانومسٹ لندن کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش ریڈی میڈ کپڑوں کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ 2002ء میں یہ برآمد پانچ ارب ڈالر کی تھی لیکن گزشتہ سال بنگلہ دیش نے اٹھارہ ارب ڈالر کے ملبوسات برآمد کیے۔ تیس لاکھ محنت کش اس صنعت سے وابستہ ہیں اور نوے فیصد تعداد خواتین کی ہے! آپ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی معیشتوں کا طائرانہ موازنہ بھی کریں تو عبرت کے کئی پہلو دکھائی دیں گے۔ گزشتہ تین سالوں میں ہماری شرح ترقی (گروتھ ریٹ) تین اعشاریہ آٹھ فی صد سے اوپر نہیں جاسکی۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال چھ اعشاریہ چارفیصد تھی۔ ہماری بیروزگاری کی شرح بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔ افراط زر بھی ہمارے ہاں زیادہ ہے یعنی مہنگائی زیادہ ہے، آج کی تاریخ میں ایک امریکی ڈالر اٹھانوے پاکستانی روپوں کا ہے جب کہ ایک امریکی ڈالر میں بنگلہ دیشی اسی ٹکے مل رہے ہیں۔ صنعت کے شعبے میں ہماری شرح اضافہ تین فیصد اور بنگلہ دیش کی ساڑھے سات فیصد ہے! خواندگی کا تناسب ہمارے ہاں 55فیصد اور بنگلہ دیش میں ستاون فیصد ہے ۔ وہاں باون فیصد عورتیں خواندہ ہیں جب کہ ہمارے ہاں خواتین کی خواندگی چالیس اعشاریہ تین فی صد سے زیادہ نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بنگلہ دیش میں مسجدوں کے باہر بندوق بردار پہریداروں کی ضرورت نہیں۔ اسی ہفتے کی خبر ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال یہ ہے کہ ایک سو چھ رینجرز کے جوان گورنر صاحب کی حفاظت پر مامور ہیں، ستر وزیراعلیٰ کے اردگرد تعینات ہیں۔ آٹھ ڈاکٹر فاروق ستار ،آٹھ فریال تالپور ، آٹھ جسٹس مقبول اور پانچ مفتی منیب الرحمن کو سیکورٹی فراہم کررہے ہیں! باقی صورت حال کا اندازہ دیگ کے ان چند چاولوں سے لگایا جاسکتا ہے!
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں آخر کیوں شرم محسوس ہوتی ہے کہ مذہب کا رشتہ مظبوط اور مقدّس ہے لیکن ثقافت، زبان، دسترخوان لباس اور دوسری سماجی شناختوں کی بھی زبردست اہمیت ہے اور ہمارے مذہب نے ان شناختوں پر کوئی پابندی عاید نہیں کی۔ بیرون ملک پاکستانی نماز تو یقینا اپنے عرب، ترک اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کھانا کن ریستورانوں میں کھاتے ہیں، گپ شپ کن لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور ثقافتی تقریبات میں کس ملک کے لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم سے ایک ہزار میل دورتھا اوردرمیان میں دشمن کا علاقہ تھا۔ یہ ایک عجیب وغریب اتحاد تھا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ زبان، لباس، دسترخوان، ادب، ثقافت ،مزاج ، نفسیات سب کچھ الگ تھا۔ دوسری طرف دیکھیے کہ جن ملکوں میں مذہب کے ساتھ ساتھ زبان، لباس، دستر خوان اور ثقافت سب کچھ مشترک ہے اور وہ جغرافیائی طورپر متصل بھی ہیں، وہ بھی الگ الگ شناختوں کے ساتھ سرحدی لکیریں کھینچ کر بیٹھے ہیں۔ قطر اور متحدہ عرب امارات‘ جزیرہ نمائے عرب کا حصہ ہیں لیکن ننھی ننھی یہ ریاستیں الگ الگ ملکوں کی صورت میں ہیں ۔ چلیے ،یہ حصے بخرے اگر سامراج نے کیے تھے تو اب یہ ممالک متحد کیوں نہیں ہوجاتے؟
بنگلہ دیش کا قیام ایک المیہ تھا لیکن پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ آج اگر یہ برادر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو کیڑے نکالنے کے بجائے ہمیں اظہار مسرت کرنا چاہیے۔ ہمارے دوست اور صاحب اسلوب کالم نگار جناب ہارون الرشید اکثر کہتے ہیں کہ زندگی دوسرے کے عیوب پر نہیں اپنے محاسن پر گزارنا ہوتی ہے۔ رنگون کی خاک میں ابدی نیند سونے والے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ہمیں دوسروں کی برائیاں کرنے کے بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ جس گرداب میں وطن کا سفینہ ہچکولے کھارہا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے؟ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے اب باہر نکل آنا چاہیے کہ چونکہ ہم نے یہ ملک خدا کے نام پر حاصل کیا ہے اس لیے پوری دنیا اس کے خلاف ہے ۔ جس زمانے میں ہم معاشی لحاظ سے اور امن وامان کے اعتبار سے مضبوط تھے اور یورپ کے گورے کراچی اور لاہور میں آباد ہونا چاہتے تھے، اس وقت بھی تو یہ ملک خدا ہی کے نام پر بنا ہوا تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ جس طرح ہم نے اپنا سرریت میں چھپایا ہوا ہے، کسی اور کو ہمارے خلاف ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوا تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے