آج – یکم/جنوری 1950
ممتاز نغمہ نگار، منفرد انداز کے لیے معروف اور عالمی مشاعرے کے سب سے مقبول شاعر” راحتؔ اندوری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام راحت اللہ اور تخلص راحتؔ ہے۔ یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اندور ، بھارت میں پید ا ہوئے ۔ انہیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:401
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر راحتؔ اندوری کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
—
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
—
دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں
—
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
—
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
—
مجھے بھروسہ ہے اپنے لہو کے قطروں پر
میں نیزے نیزے کو شاخ گلاب کر دوں گا
—
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
—
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
—
ساتھ منزل تھی مگر خوف و خطر ایسا تھا
عمر بھر چلتے رہے لوگ سفر ایسا تھا
—
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
—
صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہیئے
اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہیئے
—
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
—
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
—
رشتوں کی دُھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
—
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
—
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
—
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
—
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے
—
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں
—
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
—
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی رہی
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
—
شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھ نہ ملا
زندگی آ تجھے لے جاؤں کسی گاؤں میں
—
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
—
میں آئینوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں
—
لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
—
اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
—
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے چلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
راحتؔ اندوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ