میرے اندر سے ایک ایک کر کے سب کچھ ہو گیا رخصت
مگر ایک چیز باقی ہے جسے ایمان کہتے ہیں
ڈاکٹر راحت اندوری سے میرا تعلق بہت پرانا ہے کیونکہ ان کے بغیر شاعری نامکمل ہے دوستوں میں آپ کو ڈاکٹر راحت اندوری کا تعارف چند سطروں میں کروا دیتا ہوں
﴿ راحت اندوری کا حلیہ ﴾
بال لمبے لمبے ، چمکتی آنکھیں، روشن دماغ
قد درمیانہ،ہاتھ قلم ،دل غم زدہ
﴿ پیدائش اور نام ﴾
ڈاکٹر راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ تھا ۱ جنوری ۱۹۵۰ کو اندور میں پیدا ہوئے والد کا نام رفعت اللہ قریشی اور والدہ کا مقبول النساء بیگم تھا ، راحت اندوری انکے چوتھے فرزند تھے
﴿ بچپن ﴾
راحت کے چھوٹے بھائی عادل قریشی لکھتے ہیں
ہم پانچ بھائی بہنوں میں راحت بھائی چوتھے نمبر پر ہیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ راحت بھائی مجھ سے ۶ سال بڑے ہیں اندور کے نیا پورہ محلہ میں جب میں نے ہوش سنبھالا، راحت بھائی نوتن ہائی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ تب راحت بھائی کو میں ‘چھوٹے بھائی جان’ کہا کرتا تھا گھر کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ راحت بھائی نے بہت کم عمری ہی میں، جب وہ اسکول کے طالب علم تھے پیسہ کمانے کے لئے مختلف کام شروع کر دئے تھے۔ مثلاً انھوں نے سائن بورڈ بنانے کی دکان پر کام کیا۔ انہماک اور تندہی کا یہ عالم ابتدا ہی میں نظر آیا کہ رمضان شریف میں روزہ افطار کا وقت مصروفیت میں گزرجاتا تھا اور اماں چھگن پینٹر کی دکان پر افطاری لے کر دوڑتیں کرایہ کی سائیکل لے کر چلاتے تھے اور اجرت کے بطور دکان کی سائیکل پر نمبر لکھا کرتے۔ کرایہ ہی کی سائیکل پر بٹھا کر ‘ملکی وے’اور’مہاراجہ’ تھیٹر میں فلمیں دکھانے راحت بھائی مجھے لے جاتے تھے ۔ اب بند ہوچکے ان سنیما ہالوں کا ٹکٹ سب سے کم ہوتا تھا۔ راحت بھائی کو نئے کپڑے سلوانے کا بہت شوق تھا۔ یہ دوسری بات کہ ان نئی پتلونوں یا قمیضوں کو پہلے میں پہنتا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی کچھ سال پہلے تک جاری تھا تھا۔
﴿ تعلیم ﴾
ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔ انہوں نے اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے ۱۹۷۳ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی اس کے بعد ۱۹۷۵ء میں راحت اندوری نے بركت اللہ یونیورسٹی، بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اپنی اعلیٰ ترین تعلیمی سند کے لیے ۱۹۸۵ء میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
﴿ پہلا شعر ﴾
۱۹۶۸ءمیں ڈاکٹر راحت اندوری نے پہلا شعر کہا ” اس کے قبل و جاں نثار اختر کے ایک مصرع پر گرہ لگا چکے تھے ,جاں نثار اختر نے ان کے آٹو گراف پر لکھا تھا کہ “ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح “راحت صاحب کے منھ سے دوسرا مصرع بے ساختہ نکلا”ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح” اس کے بعد راحت شعر کہنے لگے
﴿ شادی ﴾
1988ء میں انہوں نے مشہور شاعرہ انجم رہبر سے نکاح کرلیا ان کے بطن سے ایک لڑکا سمیر راحت پیدا ہوئے؛ لیکن یہ ازدواجی زندگی ان کو راس نہیں آئی۔1993ء میں یہ رشتہ طلاق پر ختم ہوا، سیما راحت نے راحت صاحب کی انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آخری دم تک ان کا ساتھ نبھایا،البتہ راحت صاحب اور انجم رہبر کو ترک تعلق کا صدمہ پوری زندگی رہا
﴿ تصانیف ﴾
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘۔
﴿ کلام کی خصوصیات ﴾
ہجرت، یاد ماضی، سیاسی رنگ ، شب بیداری، غم عشقِ ، فطرت پسندی ، رنگ میر
﴿ آخری وقت ﴾
۱۰ اگست ۲۰۲۰ ء کو راحت اندوری صاحب کا کووڈ-19 کی جانچ کی گئی اور رپورٹ مثبت آئی، نیز وہ بندش قلب کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔ مدھیہ پردیش کے اندور کے “آربندو ہسپتال” میں داخل کیا گیا، جہاں ۱۱اگست ۲۰۲۰ء کی شام میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ۷۰ سال تھی
﴿ نمونہ کلام ﴾
نئی ہواؤں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے
کبوتروں کو کھُلی چھت بگاڑ دیتی ہے
جو جُرم کرتے ہیں اتنے بُرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
مِلانا چاہا ہے انساں کو جب بھی انساں سے
تو سارے کام سیاست بگاڑ دیتی ہے
ہمارے پیر تقی میر نے کہا تھا کبھی
میاں! یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے