(Last Updated On: )
راہ وفا پہ زندگی جب ہار دی گئی
جھوٹی انا پہ میری خوشی وار دی گئی
قصر ہوس نے دان بھی کچھ اس طرح کیا
مجبوریوں کے دام پر جھنکار دی گئی
صحنِ چمن میں جذب ہے میری وفا کا خوں
بے حد سہولتوں سے مجھے دار دی گئی
میری مسافتوں میں رہا دشت روبرو
سایہ نہ کوئی راہ میں دیوار دی گئی
نسل جواں میں چھوڑ کے لشکر حشیش کا
غیرت رہ ملال پر دھتکار دی گئی
ہر فن سکھا کے عسکری کاٹے ہیں میرے ہاتھ
پھر یہ ستم کہ لڑنے کو تلوار دی گئی
اب تخت ہو کہ تختہ یہ میرا نصیب ہے
پوشاک مجھ کو پھر بھی طرح دار دی گئی
تابشِ خدا کو علم ہے دینا ہے کس کو کیا
سب کو کہاں ہے آنکھ بھی بیدار دی گئی