رگوں کا اجلاس
جسم کی تمام رگوں کا اجلاس ہیڈ آفس میں جاری تھا- اور وہ شور شرابہ تھا کہ کان پڑی سنائی نے دیتی تھی- ہر ایک چاہ رہا تھا کہ اسکی بات پہلے سنی جائے- دل نے ہیڈ آفس کے تمام دروازے بند کر دے تھے کہ جب تک تمام رگیں کسی نتیجے پہ نہ پہنچ جائیں کوئی باہر نہ جا سکے-
ٹانگ کی رگوں نے فریاد کی ہوئی تھی کہ ہم سے اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھتا تو ہم پورے جسم کو کیسے اٹھائیں؟ انکا یہ کہنا تھا کہ ان سے انصاف کیا جاۓ- چلو باقی خیر ہے لیکن اگر کچھ پیٹ کاٹ دیا جاۓ، ایک کان، ایک آنکھ، ایک بازو اور اگر ممکن ہو تو سینے کا کچھ فالتو حصہ کاٹ دیا جاۓ- تو اس طرح کوئی خاص نقصان بھی نہیں ہو گا اور انکا بوجھ بھی کم ہو جاۓ گا-
بازو اپنے کٹنے کا سن کر اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر چیخ رہے تھے- سب سے زیادہ خوراک ٹانگیں استمعال کر جاتی ہیں- باقی جسم کا حصہ بھی کاٹنا پڑتا ہے- کیوں نا ان ٹانگوں میں سے ایک کاٹ دیں- آخر ایک ٹانگ سے بھی کام تو چل ہی جاۓ گا اور بچت بھی زیادہ ہو گی-
دل نے ایک بار پھر سب کو خاموش ہونے کی دہائی دی- اور سب کو خون کا باسی شربت پیش کیا کیونکہ پھیپڑوں کی ہڑتال کی وجہ سے خون بھی صاف اور تازہ نہیں ہو پا رہا تھا-
پھیپھڑوں کی ہڑتال کافی دن سے اسی بات پہ جاری تھی کہ آخر انکو بھی سانس لینے کا حق ہے- انسے دن رات کام لیا جاتا ہے- کسی پل بھی چین نہیں ہے- انکا مطالبہ تھا کہ وہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کی شفٹ نہیں کریں گے اور باقی وقت انکو آرام کرنے دیا جاۓ- اور باسی خون پہ ہی گزارا کیا جاۓ-
پیٹ کا مطالبہ بھی جائز لگتا تھا- اسکا کہنا تھا جب سب علاقوں میں ایک ایک عضو کی حکومت ہے تو اسکے اندر جگر ، معدہ. آنتیں، گردے اور مثانہ رکھنے کی کیا تک ہے؟ جب سینے میں صرف دل اور پھیپڑے ہیں اور سر میں صرف دماغ تو وہ اتنے جنجھٹ کیوں پالے- اسکا مطالبہ تھا کہ کم از کم مثانے کو ٹانگوں میں دھکیل دیا جاۓ جبکہ معدے کو تو میں سینے میں ڈال ہی دوں گا-
دوسری طرف جگر کی اگر گردوں سے دوستی تھی تو آنتوں سے توتکار چل رہی تھی- اسکے خیال میں آنتوں کا کام اتنا گھٹیا درجے کا ہے کہ اسکے لیے انکو اتنا بڑا علاقہ دینا سرے سے عقلمندی نہیں ہے- اسلئے جگر نے گردوں سے الائنس کر لیا تھا کہ نا تو خون صاف کیا جاۓ گا اور نہ ہی نیا خون بنایا جاۓ گا جب تک آنتوں کو انکی اوقات کے حساب سے ایک کونے میں نہ دھکیل دیا جاۓ –
مثانہ اپنے دونوں بازو سینے پہ باندھے ساری کروائی میں بس یہی دہرا رہا تھا کہ وہ مزید پریشر برداشت نہیں کر سکتا اور کسی بھی وقت معاملات ہاتوں سے نکل سکتے ہیں-
لگتا تھا کوئی کسی کی بات نہیں سن رہا- ہر ایک خواہش تھی کہ اسکا مطالبہ مان لیا جاۓ اور باقیوں کی بات رد کر دی جاۓ- ہر ایک اپنی اہمیت جتا رہا تھا اور دوسرے کا حصہ اور احسان نہیں مان رہا تھا-
دل نے ایک زوردار چیخ ماری اور صدارت کی کرسی پہ بیٹھے دماغ کو پکارا- لیکن دماغ اپنا منہ نیچ کیے خاموش بیٹھا ہوا تھا- سب کی سب رگیں پھر شور کرنے لگیں- دل کو یوں لگا جیسے وہ کہیں بہت گہرے پانی میں ڈوب رہا ہو –
——–
سفید درودیوار کے اندر سفید کپڑوں میں لپٹے ڈاکٹروں اور نرسوں سے بے نیاز محمّد علی ایک بنچ پر سر جھکاۓ بیٹھے تھے- ساتھ کھڑی انکی بہن فاطمہ نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے پوچھا “کیسا ہےوہ اب؟— ہماری آنکھوں کا تارا ، — ہمارا لاڈلا ؟”- محمّد علی نے آنسوؤں بھری آواز میں کہا ” دعا کرو فاطمہ، ڈاکٹر کہ رہے ہیں ، کوئی دوا کام نہیں کر رہی- کبھی ایک عضو کام چھوڑ جاتا ہے کبھی دوسرا- کوما کی سی کفیت ہے -“
___________________
پس تحریر: پاکستان کی موجودہ سیچوئشن ، نفرت اور دوری کی بڑھتی دیواریں، اپنے حق مانگنے کے نام پر اپنی ہستی کو خطرے میں ڈالنے کی خطرناک روش پر لکھی یہ چند لائینیں ۔ ہر گذرتے سال زیادہ معنی خیز ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے اگلے سال میں یہ تحریر پرانی سمجھ سکوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔