رفیق سندیلوی ۸۰۰ کی دہائی کے اُن نامور شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے تخلیقی سطح پر نظم اور غزل دونوں میدانوں میں اپنا لوہا منوایا۔ رفیق سندیلوی نے اپنی شناخت دونوں اصناف کے مروجہ پیٹرن میں حیران کن تبدیلیوں سے کیا۔ سکہ بند غزل اور روایتی نظم کی کلیشے زدہ فضا کو توڑنے والوں میں رفیق کا نام سرِ فہرست ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی غزلوں کے مجموعہ ’’ایک رات کا ذکر‘‘ اور نظموں کا مجموعہ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کا مطالعہ اُن کے اِس تخلیقی انحراف کو سمجھنے کی عمدہ مثالیں ہیں ۔اُنھوں نے غزل کی لوچ دار تخلیقیت کی رَو میں متعدد بڑے اشعار بھی پیش کئے ہیں۔’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ میں نظم کی نئی قرأت کا اہتمام کیا گیا ہے۔رفیق سندیلوی کی نظم حقائق کا بلیغ فنی اظہار ہے۔نئی لغت اور حیران کن موضوعات نے ر فیق کی نظموں کو معاصرین میں اہم مقام دے دیا ہے۔ جن موضوعات کی تشکیل میں رفیق نے شعری اظہار کا سانچہ تیار کیا ہے، وہ بڑے بڑے نظم نگاروں کا پِتّا پانی کر دیتا ہے۔ مجموعی طور پر رفیق کی غزل کا فنی و فکری زاویہ اور نظم کا تخلیقی محور دونوں الگ الگ سطح پر متحرک نظر آتے ہیں ۔ایسی بہت کم مثالیں ملیں گی کہ کوئی غزل گو ،اتنا اعلیٰ نظم نگار بھی ہو۔
رفیق بنیادی طور پر شاعر ہیں مگر انھوں نے اپنی تخلیقی ضرورت کے تحت کمال درجے کی تنقید بھی لکھی ۔لسانی تھیوری، فکری ادبی مسائل اور ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقیدی جہات کی نشان دہی کے علاوہ رفیق سندیلوی نے ’’ہائیکو نگاری‘‘ کی تاریخ اور تخلیق پربھی مبسوط تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔ہائیکو نگاری پر اتنا وقیع کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔امتزاجی تنقید کی تفہیم کے بنیاد گزاروں میں رفیق سندیلوی کا نام اوّلین حیثیت رکھتا ہے۔ لسانی تھیوری اور معاصر ادبی تنقیدی فکر کا گہرا مطالعہ رکھنے والوں میں رفیق کا بہت اہم کردار ہے۔ رفیق سندیلوی نے تھیوری کے تنقیدی ڈسکورس کو نہ صرف سمجھا بلکہ نئے لکھنے والوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی۔
مطبوعہ کتابوں کی فہرست:
سبز آنکھوں میں تیر(غزلیں،نظمیں) ۱۹۸۵ء
گُرز(ایک زمین میں غزلیں) ۱۹۸۶ء
ایک رات کا ذکر(غزلیں) ۱۹۸۸ء
غار میں بیٹھا شخص (نظمیں) ۲۰۰۷ء
وزیر آغا۔شخصیت اور فن(تنقید) ۲۰۰۶ء
امتزاجی تنقید کی شعریات( تنقید) ۲۰۰۳ء
پاکستان میں اُردو ہائیکو( تحقیق و تنقید) ۲۰۰۷۷ء"
آیئے رفیق سندیلوی صاحب کی ایک خوبصورت نظم آپ احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرتے ہیں:
کوئی رَتجگا ہے
************
کوئی رَتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہوا ہے
یہ آنکھیں کہ سکتے سے
پتھر ہوئی ہیں
یہ شانے کہ گہری تھکن سے
جُھکے ہیں
یہ پاؤں کہ رُکنے سے
جن پر ورَم آگیا ہے!
کوئی رَتجگا ہے
کہ جس کا کوئی نقطۂ ختم
کوئی کنارہ نہیں ہے
زمینوں پہ تھوڑی سی بادِصبا
کوئی رنگوں کا ریزہ
ذرا سی مہک
آسمانوں میں ہلکا سا بُرّاق پَر
ایک چھوٹی سی کالی گھٹا
کوئی ننھا سا مدّھم ستارہ نہیں ہے
کسی ذی نفَس کو
یہاں ایک لحظہ بھی
سونے کا یارا نہیں ہے
بُلاتی ہیں ریشم سی باہیں
حریری نظر کھینچتی ہے
نہ جسموں کے اَطلس ہی آواز دیتے ہیں
صبحیں بہارِیں نہ شامیں غنودہ
کسی ایک آغوش پربھی یہاں
اَپنی چَھب آشکارا نہیں ہے!
گھروں میں اَزل سے
گداز اور تہ دار بستر لگے ہیں
مگر لوگ گلیوں میں نکلے ہُوئے ہیں
چھتوں پر کھڑے ہیں
خلا کی طرف دیکھتے ہیں
کہیں اُڑ گئی ہے پَری نیند کی
جس کی آنکھوں میں
سُرخی کے مَلکوتی ڈورے تھے
جادُو تھا جس کا فضا میں
فنا اور بقا میں
ہَوا میں
چھلکتا تھا جس کا پیالہ
سیاہی سفیدی کے مابین
دُ ھندلا سا ہالہ
جسے توڑ کر اَپنا جوہر سمیٹے
کہیں خواب رُخصت ہوا ہے
کوئی رَتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہوا ہے!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔