رفیق راز کی شاعری کی بعض خصوصیات
رفیق راز کی شاعری میں نادر استعارات وعلائم ، اچھوتی تراکیب اور حشر خیز خیالات وافر مقدار میں ملتے ہیں .
انکی مشکل پسندی کی تعبیر، انفرادیت اور تہہ داری سے کرتا ہوں …
وہ علاقائی حالات ،تمدنی معاملات، اور عصری زندگی کے ہنگاموں سے بے خبر نہیں بلکہ انکے اثرات ان کی شاعری میں عود کر آگئے ہیں انکی شاعری پایاب ہونے بجائے عمیق ہے..اور ذہین دماغوں کی غزا ہے.ہم اس سمندر کی غواصی سے حظ یاب ہوتے ہیں …یہاں شافعی کاشعر مننطبق کروں گا…
تروم العز ثم تنام ليلاً…..
يغوص البحر من طلب اللآلي
رفیق راز …لفظ شناس ہیں..اور وہ الفاظ کے حسنِ استعمال سے نئے معانی کشید کرنے کے ہنر میں یکتائے روزگار ہیں.
رفیق راز نے لفظ سیاہ /سیہ کو اپنی "کتاب انہار" میں مکرر استعمال کیا ….لفظ "سیاہ " انتیس غزلوں کی ردیف بنا یا ہے جو واقعی انکی قادرالکلامی کا بین ثبوت ہے.
اشعار.
گئے سال کی روشنی پی گیا
نئے سال کا یہ کلینڈر سیاہ
بڑی منچلی تھی کرن آخری
گئی لکھ کے دہلیز ِ شب پر سیاہ
اک خموشی کہ مہکتی ہے مِرے کمرے میں
ایک آواز کہ ہے نقش بہ دیوار سیہ
وقفے وقفے سے اذانوں کا دھواں اٹھتا ہے سانس لیتا ہے ابھی شہر کا مینار سیہ
انکی بعض علامتوں کو تلمیحات سے جوڑ کر بھی دیکھا جاسکتا ہے. چراغ سرِ شام اور
خیمۂ سیاہ کی ترکیبوں سےمعانی کے دفتر برآمد ہوتے ہیں..
گل ہوگیا چراغ سرِ شام اور پھر
خاموشیوں میں ڈوب گیا خیمۂ سیاہ
پھر لٹ نہ جائے قافلۂ نور راہ میں
پھرروشنی طلب نہ کرے کوفۂ سیاہ
کوفۂ سیاہ کا جواب نہیں ..
دیوار و در پہ اب بھی چمکتی ہے خامشی
اس گھر میں ہانپتی تھی کبھی گفتگو سیاہ
انکا ایک شعر غالب کے دو مختلف مصرعوں میں تصرف کی مثال ہے یہی نہیں انہوں نے غالب کے مشہور زمانہ مصرع میں اپنے نام کی گنجائش نکالی ہے .
انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے.یہ غالب کی محبت میں بلکہ غالب کےانکے قوائے نفس پر حاوی ہونے کی دلیل ہے..
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین رفیق راز
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیا
دوسرے مصرع کا جواب نہیں…
کلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ..ردیف کی غزل محض لفظ گری ہے..ایک شعر اچھا نکل آیا ہے.
سوچ کی ہواؤں سے کانپ کانپ اٹھتے ہیں
دشت و بحرِ بے پایاں ، کلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
لفظ" غار " پر متعدد اشعار کہے ہیں
غار. رفیق راز کی مخصوص علامت ہے.
شعر
جسم دیوار ہے دیوار میں در کرنا ہے
روح اک غار ہے اس غارمیں گھر کرنا ہے
غار….پر ایک اور شعر
مثل خورشید نمودار وہ اب تک نہ ہوا
آخری بار سر غار اسےدیکھا تھا
لفظ" ہوا" کوبرفیق راز علامتی انداز میں
کئی بار نئے نئے لفظی پیکروں میں ڈھالا ہے.
سوچ کی ہواؤں سے کانپ کانپ اٹھتے ہیں
دشت و بحرِ بے پایاں کل من علیہا فان
ڈرو نہیں یہ کوئی سانپ زیر کاہ نہیں
ہوا ہے اور وہی سرسراتی رہتی ہے
رفیق راز غالب سے متاثر ہی نہیں بلکہ مرعوب ہیں
انکا ایک شعر
غالب کی جیسی فکر سے محروم تو رکھا
شعروں سے اب وہ سادگئ میر بھی نہ لے
اس طرح انہار میں کئی غزلیں ردیف قافیہ کی مشق گاہ بن چکی ہیں
انکے بعض اشعار کے مصرع اولی اور مصرع ثانی میں بجائے بندش کے تکرار بھی پایا جاتا ہے.. اسطرح شعر غیر بلیغ ہوکر رہ جاتاہے
شعر
ایک دن چمکے کی اِس گھر کی خموشی دیکھنا
ہو ہی جائے گا مرے کمرے کا سناٹا چراغ
اِ س گھر یا اُس گھر کی خاموشی چمکنا
اور پھر اپنے کمرے کے سناٹے کو چراغ کہنا پھر پور جدت مگر عادل منصوری کے بعض شعروں کی طرح یہاں بھی کوئی معنی ہاتھ نہیں آتا ..
البتہ لفظوں کا دھندلکے خوب پیدا کیے ہیں ..
لفظ "غبار"
رفیق راز نے" غبار "علامت کو باربار شعری تار میں باندھا ہے..
رفیق راز خود کو غبار دشتِ خاموشی کہتے ہیں اور خود کو الفاظ کے من پیرہن پہنا کر پیغمبری کے منصب پر خود کو فائض کرتے ہیں.
شعر
یوں تو غبارِ دشتِ خموشی ہوں میں مگر
لفظوں کے پیرین میں پیمبر دکھائی دوں
خوب پیکر تراشا ہے..
پرانے شاعر مثلا جگر کا لہجہ راز کے مقابلے میں محض سطحی مگر جوشیلا تھا .. جگر کا شعر
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوتِ حق کے لئے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
رفیق راز شعر میں جوش و جزبہ کے بجائے ابہام کی خوبصورتی ہے اسطرح وہ شعر کو معنوی قطعیت کا شکار نہیں ہونے دیتا…
رفیق راز کے کچھ اشعار جو میرے ذاتی انتخاب میں شامل ہیں …ملاحظہ ہوں
بس ایک بار ہوا تھا وجودکا احساس
بس ایک بار دریچے سےاس نے جھانکا تھا
پڑا رہ بدن کے دریچے نہ کھول
مری انگلیوں میں ہوسناکی ہے
میرا ہر کام قیامت ہی اٹھا دیتا ہے
تو نے ہر کام قیامت پہ اٹھا رکھا ہے
میں گونجتا تھا حرف میں ڈھلنے سے پیشتر
گھیرا ہے اب سکوت نےاوراق پر مجھے
ایک ہی قطرہ تو ہے اشک ندامت کا بہت
کون سے دشت و بیابان کو تر کرنا
فتح گلزار مبارک ہو مگریاد رہے
ابھی نا دیدہ بیابان بھی سر کرنا ہے
رہ جائے گی لکیر لہو کی زمین پر
لے جائیے نہ باندھ کےفتراک سے مجھے
میں پانی تھا سورج گھور رہا تھا مجھے
کیا کرتا بے بس تھا بادل ہونے تک
سفر میں سر پہ تری دھن تو تھی سوار مگر
نگاہ میں کوئی منزل نہ کوئی رستہ تھا
وہ جس کے بوجھ سےخم بھی نہ تھی ہماری کمر
ہم آج آئے ہیں وہ قرض بھی ادا کر کے
کوئی خورشید سا دنیا پہ چمکتا ہوا تو
کسی دیوار سے سایہ سانکلتا ہوا میں
میں تو اک آنکھ ہوں آوازسے مجھ کو نہ ڈرا
یہ ترے جلوۂ صد رنگ کی دہشت ہے بہت
بزدل ایسے تھے بھگوپائے نہ اپنے ہاتھ تک ہم
دونوں بازو تھے سلامتاور دریا سامنے تھا
میں مسافت کی طرح تھابیچ میں سمٹا ہوا سا
پشت کی جانب سمندراور صحرا سامنے تھا
ابھی تو گرد زمانے کی اڑرہی ہے یہاں
ابھی نہ مثل صبا کوچۂ خیال میں آ
گزر نہ جائے کہیں خامشی میں یہ شب بھی
مراقبہ تو ہوا اب ذراجلال میں آ
تجھے بھی آج کوئی روپ بخشتا ہی چلوں
تو سنگ ہے تو مرے دست با کمال میں آ
کتنی دہشت ہے مرے شہرمیں سناٹے کی
نخل آواز یہاں بھی تو لگادینا تھا
سیاہ بن میں چمکتا ہوںمثل دیدۂ شیر
یہ کس نے ذرۂ آوارہ کوستارہ کیا
آسمانوں میں الجھتے ہوسیہ ابر سے کیوں
آ فقیروں کی طرح خاک اڑا دھرتی پر
بس ایک بار ہوا تھاوجود کا احساس
بس ایکبار دریچے سے اس نے جھانکا تھا
پڑا رہ بدن کے دریچے نہ کھول
مری انگلیوں میں ہوسناکی ہے
میرا ہر کام قیامت ہی اٹھا دیتا ہے
تو نے ہر کام قیامت پہ اٹھا رکھا ہے
میں گونجتا تھا حرف میں ڈھلنے سے پیشتر
گھیرا ہے اب سکوت نےاوراق پر مجھے
ایک ہی قطرہ تو ہے اشک ندامت کا بہت
کون سے دشت و بیابان کو تر کرنا
فتح گلزار مبارک ہو مگریاد رہے
ابھی نا دیدہ بیابان بھی سر کرنا ہے
رہ جائے گی لکیر لہو کی زمین پر
لے جائیے نہ باندھ کےفتراک سے مجھے
میں پانی تھا سورج گھور رہا تھا مجھے
کیا کرتا بے بس تھا بادل ہونے تک
سفر میں سر پہ تری دھن تو تھی سوار مگر
نگاہ میں کوئی منزل نہ کوئی رستہ تھا
وہ جس کے بوجھ سےخم بھی نہ تھی ہماری کمر
ہم آج آئے ہیں وہ قرض بھی ادا کر کے
کوئی خورشید سا دنیا پہ چمکتا ہوا تو
کسی دیوار سے سایہ سانکلتا ہوا میں
میں تو اک آنکھ ہوں آوازسے مجھ کو نہ ڈرا
یہ ترے جلوۂ صد رنگ کی دہشت ہے بہت
بزدل ایسے تھے بھگوپائے نہ اپنے ہاتھ تک ہم
دونوں بازو تھے سلامتاور دریا سامنے تھا
میں مسافت کی طرح تھابیچ میں سمٹا ہوا سا
پشت کی جانب سمندراور صحرا سامنے تھا
ابھی تو گرد زمانے کی اڑرہی ہے یہاں
ابھی نہ مثل صبا کوچۂ خیال میں آ
گزر نہ جائے کہیں خامشی میں یہ شب بھی
مراقبہ تو ہوا اب ذراجلال میں آ
تجھے بھی آج کوئی روپ بخشتا ہی چلوں
تو سنگ ہے تو مرے دست با کمال میں آ
کتنی دہشت ہے مرے شہرمیں سناٹے کی
نخل آواز یہاں بھی تو لگادینا تھا
سیاہ بن میں چمکتا ہوںمثل دیدۂ شیر
یہ کس نے ذرۂ آوارہ کوستارہ کیا
آسمانوں میں الجھتے ہوسیہ ابر سے کیوں
آ فقیروں کی طرح خاک اڑا دھرتی پر
بس ایک بار ہوا تھاوجود کا احساس
بس ایکبار دریچے سے اس نے جھانکا تھا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گی ہے۔
“