ہوا یہ کہ کتب فروش اور شاعر، بزرگ دوست مقبول خاں مقبول نے مجھے انجمن ترقی اردو کے رسالے "قومی زبان" کا ایک شمارہ خاص طور پر ٹی ہاؤس لاکر دیا۔ اس میں میری بیوی مسرت کلانچوی کی سرائیکی کہانی کا رفیق احمد نقش کا کیا ہوا عمدہ ترجمہ شامل تھا۔ یہ نام شناسا نہیں تھا۔ حیرت ہوئی کہ سرائیکی جاننے والے اس رائٹر کو ہم کیوں نہیں جانتے اور اس شخص تک کتاب پہنچی کیسے۔ یہ تجسس دس بارہ سال باقی رہا۔
پھر "سب رنگ" ملک برادران نے شائع کرنا شروع کیا تو اس پر رفیق احمد نقش کا نام نظر آیا۔ ایک دن دفتر سب رنگ فون کیا تو نقش صاحب سے بات ہوگئی۔ اس کہانی اور کتاب کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ کتاب کہیں نہ کہیں سے، ہم تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ شکیل عادل زادہ صاحب کے کہنے پر یہاں کام کررہے ہیں تاکہ شکیل صاحب والا زبان کا معیار برقرار رکھا جاسکے۔ وہ اپنے کالج کے وقت کے بعد دفتر سب رنگ آتے تھے۔
مجھے یوں لگا کہ نقش صاحب اپنے جیسے ہی آدمی ہیں۔ اکثر بات ہوتی۔ ان دنوں SMS کا مشغلہ بہت چل رہا تھا۔ ہم دونوں کو جو اچھے میسیج ملتے وہ بھی شئیر کرتے۔ ان پر کوئی تبصرہ ہوتا تو میسیج یا کال آجاتی۔ انہیں میرے دیر تک جاگنے کا پتہ تھا۔ رات کو دوتین بجے تک بھی میسیج آجاتے۔ آٹھ سال پہلے یہی تاریخ تھی لگ بھگ اسی وقت میں نے کچھ چیزیں بھیجیں۔ رات دوبجے فون روشن ہوا۔ میں نے اشتیاق سے دیکھا۔ لیکن میسیج یہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔ رفیق نقش صاحب کا دس بجے انتقال ہو گیا، جنازہ صبح ہوگا۔
نقش صاحب کا نمبر میں آج تک ڈیلیٹ نہیں کرسکا۔
نقش صاحب صرف 54 سال کی عمر میں اس وقت رخصت ہوئے جب وہ ایک اعلیٰ استاد اور ماہر لسانیات مانے جاچکے تھے۔ اب اپنے وسیع مطالعے اور تحقیق کو دوسروں تک پہنچانے کا وقت تھا لیکن۔۔۔
شکیل عادل زادہ نے کہا ، رفیق نقش کی موت سے اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے، یہ میں جانتا ہوں۔ وہ لسانیات کے آدمی تھے۔ مجھے جب کسی لفظ کے بارے میں معلوم کرنا ہوتا تو میں فون کرکے پوچھتا تھا کہ استاد یہ لفظ کس طرح ہے، وہ بتا دیا کرتے تھے۔
میری نقش صاحب سے طویل گفتگو ہوتی رہی۔ ہر موضوع پر، دفتر کے نازک قسم کے معاملات پر بھی۔ لیکن ایک سوال ذہن میں تو رہا لیکن پوچھنے سے جھجھکتا رہا کہ ان کی مادری زبان اردو ہے یا سندھی۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔ کالج میں اردو پڑھاتے تھے۔ کہیں تعارف میں پڑھا کہ سندھی اور ہندی کے یونیورسٹی ڈپلومے بھی حاصل کئے تھے۔ ان کی اپنی زبان کیا تھی، اس کا پتہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد چلا اور حیرت بھی ہوئی کہ وہ تو پنجابی اور ارائیں تھے۔
(بشیر عنوان صاحب لکھتے ہیں : نقش صاحب کی والدہ ہندکو تھیں۔ انھوں نے پنجابی کبھی بچپن میں بھی نہیں بولی۔ وہ بہ مشکل ڈیڑھ دو سال کے ہوں گے جب ان کی والدہ کو طلاق ہوئی۔ اس کے بعد ان کا ایک بلوچ سے نکاح ہوا۔ اس گھر میں رفیق تقریباً بارہ سال بلوچی بولتے رہے۔ تیرھویں سال میں ایک مشفق استاد محترم اشفاق احمد خان کی وجہ سے ان میں اردو کی محبت اس شدت سے پیدا ہوئی کہ ان کے گھر میں بھی صرف اردو بولی جانے لگی)
مجھے برجوں، ستاروں میں کچھ یقین نہیں ہے۔ لیکن بعض لوگوں سے کوئی خصوصی انس پیدا ہوجاتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ وہ بھی Picess ہے تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ دوستوں میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن سے زیادہ کچھ مشترک نہیں۔ خاصے خود پسند بھی مشہور ہیں لیکن مجھ سے بہت ذاتی معاملات بھی شئیر کرلیتے ہیں۔ وہ Picess ہی نکلے۔
نقش صاحب بھی Picess تھے۔ وہ 15 مارچ 1959 کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے تھے۔ 1980 میں جامعۂ سندھ سے ایم اے(اردو ادب) اور 1991 کراچی یونیورسٹی سے ایم اے (لسانیات) کیا، دونوں میں اول آئے اور وائس چانسلر گولڈ میڈل اور بابائے اردو گولڈ میڈل حاصل کئے- انھوں نے جامعہ کراچی سے 1992 میں سندھی میں اور 1994 میں ہندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا۔
رفیق احمد نقش عمدہ شاعر،ماہرِ لسانیات و غالبیات اور محقق تھے-اِصلاحِ املا اُن کا خاص موضوع تھا- وہ ایک ادبی پرچے “تحریر” کے مدیر بھی تھے۔ انہوں نے مشہور مصور ایم ایف حسین کی خود نوشت “ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی” کو ہندی سے اردو میں منتقل کیا تھا۔ جناب شمس الحق کی مشہور تالیف اردو کے ضرب المثل اشعار کی تدوین بھی انھوں نے ہی کی تھی۔ رفیق احمد نقش حلقہ ارباب ذوق ، کراچی کے اساسی ارکان میں شامل تھے۔ اُنھیں کتابوں سے جنون کی حد تک عشق تھا اوراُن کا نجی کُتب خانہ کراچی کے چند اہم کُتب خانوں میں شُمار ہوتا ہے جس میں دس ہزار کتابیں ہیں۔
رفیق احمد نقش 15 مئی 2013 کو دنیا سے رخصت ہوئے وہ کراچی میں محمد شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔ان کی تاریخ وفات جناب بشیر عنوان نے ’’ کاغذی ہے پیرہن ‘‘ سے نکالی ہے جو ان کی لوح مزار پر کندہ ہے ۔
کہیں پڑھا کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش نے "رفیق احمد نقش: افسانوی کردار، مثالی کردار" کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ ایک رسالے نے خصوصی نمبر بھی نکالا۔ افسوس کہ میں دونوں نہیں حاصل کرسکا۔
رفیق نقش سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کا اتفاق ہے کہ اصول پسندی، ہمدردی، خلوص اور صاف گوئی ان کا خاصہ تھا۔
رفیق احمد نقش کے ابتدائی سکول کا نام غالب سکول تھا، دیکھیے ان کی تصانیف میں بھی زیادہ غالب پر ہیں:
نامہ ہائے فارسیِ غالب
رموزِ غالب
مآثرِ غالب
تصحیح و تحقیقِ متن
غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین
نوادرِ غالب
غالب شناس مالک رام
غالبیات کے چند فراموش شدہ گوشے
اردو کے ضرب المثل اشعار
2004ء -ایم ایف حسین کی کہانی، اپنی زبانی
یادِ ایام
مصطلحات الشعراء
رفیق احمد نقش کے کچھ اشعار
تجھ سے بچھڑ کے بارہا محسوس یہ ہوا
خوش بو ترے بدن کی مرے آس پاس تھی
آمد فصل گل پر ہوائے طرب ناک چلنے لگی، تیری یاد آ گئی
دھیرے دھیرے فضائے جہاں اپنی رنگت بدلنے لگی، تیری یاد آ گئی
رفتہ رفتہ ہر اک گھاؤ بھر جاتا ہے
پہلے پہل ہم تجھ سے بچھڑ کر اور ہی کچھ تھے
سینے میں تھا درد مگر ہونٹوں پہ تبسم
باہر ہم کچھ اور تھے اندر اور ہی کچھ تھے
جس کے سخن میں زہر سے زائد ہیں تلخیاں
اس کے لبوں میں شہد سے بڑھ کر مٹھاس تھی
پیڑوں کو کاٹنے سے پہلے خیال رکھنا
شاخوں پہ کوئی غنچہ حیران رہ نہ جائے
مرے کچے مکان کو نقش، ڈھا کر
ہوائے شہر اب کس لہر میں ہے
جو بھی سایہ مہیا کرتا ہے نقش
جھیلنی پڑتی ہے اس کو کڑی دھوپ
غزل
ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا
تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا
منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا
ہر سمت ہیں اداس منظر کھلے ہوئے ویران ہے نگاہ مگر تم کو اس سے کیا
سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا
اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا
گر تجزیہ کرو تو عیاں ہو نظر پہ نقش
ظاہر سفید و سیاہ مگر تم کو اس سے کیا
“