میں رفاقت حیات کو ان کے چند مضامین اور لالٹین ڈاٹ آرگ پہ چھپنے والی چند کہانیوں کی وساطت سے ہی جانتا تھا کہ وہ لکھنے والے ہیں۔ پھر پتہ چلا کہ ان کا ایک ناول بھی چھپ چکا ہے اور کہانیوں کا ایک مجموعہ بھی آ چکا ہے مگر چونکہ میں نے نہ ناول پڑھا اور نہ کہانیوں کا مجموعہ میرے ہاتھ آیا تو میں انہیں آن لائن چھپنے والی کہانیوں اور مضامین کے حوالے سے ہی پہنچانتا تھا۔
کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی اور پھر انہوں نے اپنا ناول مجھے بذریعہ ڈاک لاہور بھجوایا۔ ناول کھولا، پڑھنا شروع کیا تو پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھ سکا۔ ناول میں اتنی طاقت موجود ہے کہ یہ پڑھنے والے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور ہر ختم ہونے والا پیراگراف نئے پیراگراف کے بارے میں بے چینی پیدا کرکے جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر آپ اگلا پیراگراف پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ گرفت ایسی مضبوط ہے کہ ناول آپ کو آنکھ نہیں جھپکنے دیتا۔ سسپنس ہالی ووڈ کی فلموں جیسا جو لمحہ بہ لمحہ اشتیاق کے کٹورے کو بھرتا چلا جاتا ہے۔ مجھے کئی بار خواہش ہوئی کہ جلدی سے پتہ چل جائے کہ آگے کیا ہونا ہے کیونکہ صبر نہیں ہو رہا تھا۔
ناول 'میر واہ کی راتیں' انسانی جسم میں جنسی خواہش کے بیج پھوٹنے سے لے کر اس کی تکمیل تک پہنچنے کی سعی کا ایک متاثرکن نفسیاتی بیان ہے۔
ناول کے صفحوں میں کوئی منظر ادھورا نہیں پیش کیا گیا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ بھرپور منظرکشی نے امیجز کو خوش رنگ جامے پہنا دیئے ہیں۔ کردار جس لمحے میں ایک دوسرے سے مخاطب ہیں اس لمحے کے ماحول کی شکل و صورت کیسی ہے۔ آسمان کا رنگ کیسا ہے۔ ہوا چل رہی ہے یا بند ہے۔ اردگرد آوازیں ہیں یا خاموشی۔ موسم کس طرح کا ہے۔ دن یا رات کا کون سا لمحہ ہے۔ بیک گرائونڈ میں گلاب چانڈیو کی آواز میں جو گانا چل رہا ہے وہ کیسا سماں پیدا کر رہا ہے۔ منظرنگاری پہ خاص توجہ دی گئی ہے جو ہر جگہ نظر آتی ہے۔
پھر ناول کے ایک منظر میں جب دو مرکزی کردار جنسی اختلاط کے نشے میں بے سدھ ہوئے جا رہے ہیں تو اچانک ایک بلی اس منظر میں آ ٹپکتی ہے اور جنسی فعل ناآسودگی پر منتج ہوتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں بلی کو یہاں آنا ہی چاہئیے تھا ورنہ یہ ناول کسی اور طرح ختم کرنا پڑتا اور ممکن ہے کوئی دوسرا اختتام پورے ناول کا مقدمہ ہی کمزور کر دیتا۔
بلی نے ناآسودگی، عدم طمانیت، ادھورے پن اور قلق جیسے جذبات مرکزی کردار کے دل میں پیدا کئے جن کی بنیاد پہ وہ اپنی مردانگی کے بارے میں متشکّک ہو گیا۔ میری نظر میں اس پچھتاوے میں اعلٰی ادب کی جھلک ملتی ہے۔ اس لمحے سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے منظرنامے بھی میرے ذہن سے ایک خیال کی رَو بن کر گزر گئے۔
جنسی خواہشوں کے احساس کو بغیر لگی لپٹی کے، بغیر کسی مبالغے اور رنگ آمیزی کے عین اسی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو اس احساس کی فطری صورت ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے مجھے منٹو یاد آ گیا تھا۔
پھر ناول میں بیان کردہ کیفیات ہر انسان سے متعلق ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ جوانی کے پہلے زینے پر جب قدم رکھا تھا تو اس دوران اپنے اندر اٹھنے والی نئی ترنگ کو جس طرح میں نے محسوس کیا تھا وہی کیفیت یہاں بھی موجود ہے۔ کہانی آپ کو اپنے ہی جنسی اور نفسیاتی روّیوں کے متعلق کلام کرتی معلوم ہوتی ہے۔
یہ اس باب کا قصہ ہے جس سے متعلق بات کرنا غیر مہذب فعل تصور کیا جاتا ہے۔ مگر ادیب کو کسی مہذب اور غیر مہذب ناپ تول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہئیے، اسے وہ سب کچھ لکھنا چاہئیے جو وہ محسوس کرتا ہے یا جو کچھ اس کے مشاہدے میں آتا ہے۔
ناول میں اندرون سندھ کا مزاج، ثقافت، رہن سہن، طور اطوار اور رنگ ڈھنگ بڑی خوبصورتی سے موجود ہیں۔ دیہاتی سماج اور ذہن کی توہم پرستی کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں مگر ایک بات مجھے کھٹکی بھی کہ توہم پرستی کو کسی نہ کسی طرح ناول نے جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نذیر کو لگ رہا تھا کہ آج کی رات کچھ غلط ہونے والا ہے کیونکہ اس سے قبل دو مختلف طرح کے بُرے شگون ظاہر ہو چکے تھے۔ آگے چل کر اس رات میں واقعی کچھ غلط ہوگیا اور یہی محسوس ہوا کہ بُرے شگونوں کا یہ منطقی نتیجہ ہے۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناول نگار نے صورت حال ویسی ہی دکھانا چاہی ہو جیسی کہ وہ حقیقت میں ہے اور انہوں نے خود کو اصلاح کار بنانا بالکل غیر ضروری سمجھا ہو۔ بہرحال میری سمجھ کے مطابق اس صورت حال میں واہموں کو ایک واقعے کی پیش گوئی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پاکستان میں اس ناول کو سانجھ پبلی کیشنز نے چھاپا تھا اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ میرے پاس ناول کی جو کاپی پہنچی ہے اسے بھارت سے عرشیہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ دہلی سے چھپنے والے ناول کی کتابت 158 صفحات پر مشتمل ہے اور اس مختصر سے ناول میں حیرت انگیزیوں کا ایک سیلابِ رواں پایا جاتا ہے۔
ناول کی کہانی، کہانی کا موضوع، نثر لکھنے کا انداز اور کہانی کہنے کا کسا کسایا انداز دیکھ کے میں یہ ضرور کہوں گا کہ رفاقت حیات صاحب کو مزید لکھنا چاہئیے۔ مجھے ان کے اگلے ناول اور کہانیوں کے مجموعے کا انتظار رہے گا!
(خضرحیات)