آج – ١٥؍ اگست ١٩٨٢
نئی غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں، نثر نگار، نظم نگار اور معروف شاعر” رئیس فروغؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
محمد یونس حسن نام اور فروغؔ تخلص تھا۔ ۱۵ ؍ فروری ۱۹۲۶ء کو مراد آباد ( اتر پردیش ) میں پیدا ہوئے۔ دورانِ تعلیم محفلوں، انجمنوں اور مشاعروں میں شرکت کے باعث رئیس فروغ ؔ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ شروع میں انھوں نے قمرؔ مراد آبادی کی شاگردی اختیار کی۔تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔۱۵سال کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازم رہے۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے او راسکرپٹ رائٹرمقرر ہوئے۔آخری وقت تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ رئیس فروغ نے غزلوں کے علاوہ بچوں کے لیے نظمیں اور نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کو کراچی میں رئیس فروغؔ انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’ رات بہت ہوا چلی‘ (مجموعۂ کلام)، ’ ہم سورج چاند ستارے‘ (بچوں کی نظمیں)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:183
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر رئیس فروغؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
—–
اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا
دیکھو میں نے حرف جما کے نگر بنایا جاناں کا
—–
شبوں میں تجھ سے رہی میری گفتگو کیا کیا
دنوں میں چاند ترے نقشِ پا سے کچھ نہ کہا
—–
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
—–
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں، پھر ترے ماتم میں رہوں
—–
روئے زمیں پہ چار عرب میرے عکس ہیں
ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں
—–
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
—–
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
دن بھر چہرے جمع کئے ہیں کھو جائیں گے شام کو
—–
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
—–
اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
—–
سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغؔ
جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے
رئیس فروغؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ