پلاننگ کمیشن نے اپنے بارہویں پنج سالہ منصوبے( 2012 – 2017) میں جن تین چیزوں پر اپنی توجہات مرکوز کی تھیں، ان میں ایک سماجی شمولیت (Social Inclusion) بھی تھا. کیونکہ پلاننگ کمیشن کا احساس تھا کہ ہندوستان ترقی تو کر رہا ہے لیکن سماج کے سبھی طبقے یکساں طور پر ترقی نہیں کر رہے ہیں. شفاعت علی صدیقی (1929 – 2018) نے بطور براڈ کاسٹر جن موضوعات کو چھوا تھا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو پلاننگ کمیشن نے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں محسوس کیا، اسے شفاعت علی صدیقی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہی پوری آگہی کے ساتھ محسوس کرنے لگے تھے. گزرے چھ مہینوں سے شفاعت صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن آل انڈیا ریڈیو کی گیلریوں میں محفوظ اپنی توانا آواز کے ساتھ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود رہیں گے۔
ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کا آغاز یکم جنوری 1936 کو بمبئی کے علی پور روڈ سے ہوا تھا اور شفاعت علی صدیقی 1945 میں جب وہ سولہ سال کی عمر کے تھے اور نویں جماعت کے طالب علم تھے، بطورِ اسٹاف آرٹسٹ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے تھے. پھر محکمہ جاتی امتحانات کے ذریعے ترقی پاتے ہوئے پروگرام سکریٹری، اناؤنسر، پروڈکشن اسسٹنٹ، اسکرپٹ رائٹر سے ہوتے ہوئے اردو سیکشن کے پہلے پروگرام پروڈیوسر بنائے گئے. ان کی قابلیت اور آواز پر گرفت کو دیکھتے ہوئے ارباب مجاز نے 1971 میں بطورِ خاص ان کے لیے یہ عہدہ وضع کیا تھا. اردو سیکشن کا پروڈیوسر بنتے ہی ان کے خلاقانہ ذہن کو اڑنے کے لیے ایک کھلا آسمان مل گیا تھا. پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے آکاشوانی کا لکھنؤ کیندر ہندوستان بھر کا سب سے زیادہ کریٹیو مرکز بن گیا. ان کے نئے نئے تجربات کو عوام نے بے پناہ پیار تو دیا ہی، محکمہ جاتی سطح پر بھی ان کے تخلیقی جہان کی نیرنگیوں کو سراہا گیا. 1974، 1977 اور 1981 میں تین بار آکاشوانی کے نیشنل ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے. 31 جولائی 1987 کو ریٹائر تو ہو گئے اور پروڈیوسر ایمرٹس بھی بنائے گئے، لیکن اپنی مدت کار کے دوران ریڈیو کے کلیدی عہدوں پر نہ رہتے ہوئے بھی اپنے محدود دائرہ کار کو جس طرح وسعت انہوں نے دی، اسے براڈکاسٹنگ کی دنیا کی قوت تخیل کے پنکھ لگنے سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا.
فرزانہ اعجاز کو دیئے ایک انٹرویو میں شفاعت علی صدیقی نے اس طرح کے کئی پروگراموں کا ذکر کیا ہے. ان میں سے چند کا ذکر اختصار کے ساتھ یہاں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.
بارہ ربیع الاول کے موقعے پر لکھنؤ میں جس طرح کی گہما گہمی ہوتی ہے اور جذباتیت کا مظاہرہ ہوتا ہے، اس سے بچنے کی تدبیر ہمارے دانشور بارہا کرتے رہے ہیں. شفاعت علی صدیقی نہ تو دانشور تھے اور نہ ہی کوئی مذہبی یا سیاسی قائد. لیکن اس طرح کے ماحول سے ہر دردمند دل رکھنے والے کی طرح ان کو بھی تکلیف ہوتی تھی. کچھ کرنا چاہتے. وہ کسی ایسے منصب پر فائز نہ تھے کہ کچھ کہیں اور لوگ سن لیں. پھر بھی کچھ کرنا تو تھا، لیکن کیا کریں سمجھ میں نہیں آتا. پھر اچانک ان کو خیال آیا کہ ریڈیو کو اس کے لیے استعمال کیا جائے. انہوں نے مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی سے گزارش کی کہ بارہ ربیع الاول کے موقع کے لیے آپ کچھ تحریر فرما دیں. مگر مولانا کسر نفسی کی وجہ سے اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کی عذر پیش کرتے رہے. آخر جب وقت آگیا تو شفاعت صاحب نے دوستوں کی مدد سے مولانا کی مختلف کتابوں کے اقتباسات کو سامنے رکھ کر ایک اسکرپٹ تیار کر لیا اور ایک اچھا خاصا پروگرام ترتیب دے لیا. جب مولانا کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس پریزینٹیشن کو ایک بار ملاحظہ کرنے کی خواہش ظاہر کی. جب مولانا کے سامنے یہ پیش ہوا تو کافی خوش ہوئے. یہ پروگرام 1974 کو بارہ ربیع الاول کے موقع سے "بارگاہِ رسالت مآب میں" کے عنوان سے نشر ہوا. اس پر شفاعت صاحب کو پہلی بار آکاشوانی کا نیشنل ایوارڈ تو عطا ہوا ہی لیکن اسی کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ بارہ ربیع الاول کے موقع سے لکھنؤ کے شیعہ سنی ہنگاموں میں اگر آج کمی دیکھی جارہی ہے تو اس میں شفاعت صاحب کی ریڈیو کی طاقت کو استعمال کرنے کی اس طرح کی کوششوں کو بھی کچھ نہ کچھ کریڈٹ دیا جانا چاہیے. اسی طرح سے انہوں نے ۱۹۷۷ میں امیر خسرو پر اور ۱۹۸۱ میں ــــ ـــــ’’قدم قدم لہو‘‘ کے نام سے گاندھی جی کی یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پروگرام پیش کر کے آکاشوانی کا نیشنل ایوارڈ حاصل کیا تھا۔
لکھنؤ میں مرثیے کی مجلسوں کی ایک پوری تاریخ رہی ہے اور یہ روایت اب بھی مستحکم ہے. لیکن اس کی مقبولیت کو دور دور تک متعارف کرایا شفاعت صاحب کے ریڈیو پروگرام "شام غریباں" نے. اندھیری راتوں میں مرثیے کی مجلسوں کو جب براہ راست (Live) ریڈیو سے نشر کیا جاتا تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ بھوکے پیاسے مجاہدین کے قافلے کو لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا ہوا محسوس کرنے لگتے.
لکھنؤ کے آس پاس بسے بہت سے ایسے قصبات ہیں جو اودھ کی تابناک تاریخ کے اہم باب کی حیثیت رکھتے ہیں. لیکن ان کی اہمیت اور ان کے مسائل سبھی کچھ اہل نظر، نئی نسل اور ارباب اقتدار سے مخفی ہوتے جا رہے تھے، شفاعت صاحب نے اس کو محسوس کیا اور "بستیاں ہماریاں" کے عنوان سے ایک پوری سیریز شروع کر دی. پروگرام کی مقبولیت اتنی بڑھی اس کے کل 37 ایپی سوڈ براڈکاسٹ ہوئے.
کلاسیکی ادبیات کے مطالعے کے بغیر کوئی بھی شخص زبان پر عبور کے دعوے نہیں کر سکتا. لیکن مسئلہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے کہ نئی نسل تو چھوڑیئے ہمارے صاحبانِ علم و فن بھی اس سے گریز ہی کرتے رہتے ہیں. شفاعت صاحب نے اس چیز کو محسوس کیا اور "بولتی تحریریں" کے عنوان سے ایک فیچر پروگرام بطورِ خاص نشر کرنا شروع کر دیا. باغ و بہار، فسانہ آزاد، زہر عشق اور امراؤ جان ادا جیسی اہم ترین کتابوں کو آواز دینا شروع کیا. آج جب میں آڈیو بْک مہیا کرنے والی امیزون کی ماتحت کمپنی "آڈیبل" کو دیکھتا ہوں تو شفاعت صاحب کا یہ پروگرام "بولتی تحریریں" بیحد تڑپا جاتا ہے. کاش ہماری بقیہ کلاسیک اور جدید کتابوں کو بھی اسی طرح آواز دے دی گئی ہوتی تو ہمارے اسکالرس میں اور تھوڑی علمی گہرائی جھلک رہی ہوتی.
اسی قبیل کا ایک اور پروگرام شفاعت صاحب نے شروع کیا تھا "کتابیں جو زندہ ہیں" کے نام سے. اس میں وہ کتابیں جو آج بھی اپنی مسلمہ اہمیت رکھتی ہیں، اس پر تعارف و تبصرہ نشر کرتے. اس کے تحت شبلی نعمانی کی الفاروق وغیرہ پر انہوں نے ریڈیائی تبصرے براڈکاسٹ کئے تھے.
"اودھ میں اردو غزل کا سفر گزشتہ صدی میں" شفاعت صاحب کا ایک مقبول عام پروگرام تھا. نام سے ہی اس کی اہمیت واضح ہے. کل گیارہ ایپی سوڈ اس کے بھی نشر ہوئے تھے۔
آج ہندوستان میں بسی دو قوموں کے درمیان جس تیزی کے ساتھ فاصلے بڑھ رہے ہیں، اس پر ہم صرف افسوس کا ہی اظہار کر رہے ہیں لیکن شفاعت صاحب نے صرف افسوس کر کے اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی راہ نہیں اپنائی. جبکہ اس زمانے میں شاید فاصلہ اتنا بڑھا نہیں تھا، اس کے باوجود انہوں نے اس پر منتھن کیا اور ریڈیو کی طاقت کو استعمال میں لانے کی ٹھانی. "یکجہتی کے مرکز" کے نام سے انہوں نے ایسے تہذیبی شہروں پر پروگرام نشر کئے جہاں صدہا سال سے دونوں قومیں شانہ بشانہ اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتی آرہی ہیں. شفاعت صاحب نے بنارس اور الہ آباد( اب پریاگ راج) جیسے شہروں کی تہذیبی یکجہتی کے عناصر کو بنیاد بنا کر عوام الناس کو ایک ساتھ رہنے اور زندگی گزارنے پر ابھارا.
اردو میں سائنسی مواد کی کمی اور سائنس سے جڑے اداروں کے بارے میں عدم واقفیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے شفاعت صاحب نے "لکھنؤ کے سائنسی ادارے" نام سے ایک باضابطہ پروگرام نشر کیا. یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ آئین ہند میں ایک شہری کیلیے سائنسی مزاج اپنانے کو بنیادی فرائض (Fundamental Duties) میں شمار کیا گیا ہے. لیکن اس کے باوجود جس طرح کی مضحکہ خیز بدعقیدگی اور اساطیری کہانیوں پر اعتبار کرنے کا چلن رہا ہے اور آج ایک خاص طبقہ اسے مزید فروغ دے رہا ہے، یہاں تک کہ اسے سائنس بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، ایسے میں سائنس کو فروغ دینے کی شفاعت صاحب کی کوشش کو آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہئے.
اس کے علاوہ شفاعت صاحب نے ہی پہلی بار صدر جمہوریہ ہند اور وزیراعظم کے اسفار کی ریڈیو کمنٹری پر مشتمل پروگرام نشر کرنا شروع کیا تھا. جسے سوشل میڈیا کے اس عہد میں بھی آکاشوانی نے برقرار رکھا ہے.
ہمارا ملک اپنی وسعت کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور اتر پردیش ملک کا چوتھا بڑا پردیش. دو لاکھ تینتالیس ہزار مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض پردیش کی وسعت تقسیم سے قبل مزید 53 ہزار مربع کلومیٹر زیادہ تھی. ایسے میں دور دراز کے پہاڑی علاقوں کی ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ لکھنؤ والے ہمارے مسائل سنتے ہی نہیں ہیں. شکایتیں تو ہوتی رہتی ہیں، کیا فرق پڑتا ہے! لیکن نہیں، شفاعت علی صدیقی کو اس سے فرق پڑتا تھا. انہوں نے سماجی شمولیت (Social Inclusion) کی ایک اور عمدہ مثال پیش کی اور ایک بار پھر ریڈیو کی طاقت کو بروئے کار لایا. اس بار انہوں نے "اترائن" کے نام سے پہاڑی علاقوں کے مسائل اور ان کی آواز کو لکھنؤ کے ارباب اقتدار تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا. یہ پروگرام موجودہ اتراکھنڈ کے 53 ہزار مربع کلومیٹر کے بیشتر گھروں میں سنا جاتا تھا. شفاعت صاحب کا کام ارباب اقتدار تک آواز پہنچانے کا تھا، وہ پہنچاتے رہے. مسائل کا تصفیہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھا. جب تک وہ اپنی آواز ان تک پہنچا کر ان کو مرکز سے جوڑے رکھ سکتے تھے، رکھا. لیکن جب سیکریٹیریٹ بیٹھے بابو اور سیاستدانوں کو مسائل کے تصفیہ سے خاطر خواہ دلچسپی ہی نہیں تھی تو کیا ہونے والا تھا، وہی ہوا. ان پہاڑی علاقوں میں بسے لوگوں نے زور و شور سے الگ ریاست کی مانگ کرنی شروع کردی اور اپنے ساتھ ناانصافی کا الزام لگا کر خود کو 9 نومبر 2000 کو اتر پردیش سے الگ کر لیا. آخر 2012 میں پلاننگ کمیشن نے مان لیا کہ ہندوستان کا ہر علاقہ یکساں طور پر ترقی نہیں کر رہا ہے، اس لیے سماجی شمولیت پر دھیان دیا جائے اور سب کو یکساں ترقی کا موقع فراہم کرایا جائے. کیا آپ کو نہیں لگتا کہ شفاعت علی صدیقی نے سماجی شمولیت کے معاملے میں بروقت دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھا…؟ آپ کو لگے یا نہ لگے مجھے تو لگتا ہے.
لکھنؤ کی مشہور زمانہ ’چکن کاری‘ کو شہرت عام بخشنے کے لیے شفاعت صاحب نے ایک مخصوص پروگرام ’’دھاگے کے پھول ‘‘ کے عنوان سے براڈکاسٹ کیا تھا، جس میں وہ اس ہنر سے جڑ ے باکمالوں سے انٹرویو کرکے اس کی باریکیوں کو پہلی بار منظرعام پر لانے کی کوشش کی تھی۔چکن کاری کے علاوے بھی لکھنؤ ایک زمانے میں مختلف صنعت و حرفت کا ایک مرکز سمجھا جاتا رہاہے۔ یہاں کی صنعت و حرفت سے جڑے لوگوں کا تعارف،ان کے مسائل اور ان کے تاریخی پس منظر سے واقفیت بہم پہنچانے کے لیے شفاعت علی صدیقی نے ایک خاص پروگرام ’’لکھنؤ کے محلے،گلی گلی آباد تھی جن سے‘‘ کے نام سے ترتیب دیا تھا۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ سماجی سطح پر اس کی فکرمندی شفاعت علی صدیقی جیسے باشعور افراد کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔
ریڈیو کے کسی کلیدی عہدے پر نہ رہتے ہوئے بھی شفاعت صاحب کے ان متنوع پروگراموں کے بعد آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انہوں نے اپنی تخلیقی ذہانت اور باوقار آواز کی بدولت کس قدر عوامی مقبولیت کو بٹورا تھا. لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ اس طرح کے کاموں سے جڑے شخص سے ہر کوئی خوش نہیں ہوتا اور ہر ایک کو خوش بھی نہیں کیا جا سکتا. Nepotism یعنی اقربا پروری کا الزام لگ جاتا ہے، سینکڑوں شاعروں اور ادیبوں کو ریڈیو کے ذریعے متعارف کرانے کے باوجود شفاعت علی صدیقی بھی اس الزام سے نہ بچ سکے. کئی لوگوں کی شکایت تھی کہ شفاعت صاحب صرف اپنے ہم وطنوں کو یا پھر دوستوں کو ہی ریڈیو پر بلاتے ہیں. یہ الزام تو اس وقت اور بھی تیکھا ہو گیا جب شفاعت صاحب نے ڈاکٹر سلام سندیلوی کے نغموں اور گیتوں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کروا کر ریڈیو سے نشر کیا. کاش وہ اس طرح کے مزید دو چار بڑے شاعروں کو اسی طرح ریکارڈ کرواتے اور براڈکاسٹ کرتے تو شاید اس طرح کے الزامات کے تشفی بخش جواب دیئے جا سکتے. لیکن وہ بھی ایک انسان تھے اور کوئی انسان بشری لغزشوں سے کیوں کر مبرا ہو سکتا ہے!!
ان سب کے باوجود شفاعت علی صدیقی کے متعلق بہت کچھ پڑھنے اور سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ آکاشوانی کے ساڑھے چار سو ریڈیو اسٹیشنوں میں سے نصف میں بھی ایک ایک شفاعت علی صدیقی پیدا ہو جائیں تو نہ صرف ہندوستان میں سماجی شمولیت کی راہ آسان ہو جائے گی بلکہ آل انڈیا ریڈیو کا مارکیٹ شیئر ریڈیو مرچی اور ریڈیو سٹی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائے گا اور پبلک سیکٹر کے دیگر اداروں کی طرح آل انڈیا ریڈیو کو بھی پرائیویٹائز کرنے کی نوبت قطعی نہیں آئے گی۔
٭٭٭