انسان نے جب سے ہماری اس کائنات کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ ہمارا سیارہ اکیلا نہیں ہے، جو زندگی جیسی خصوصیات رکھتا ہے، تب سے اس کھوج میں پڑا ہوا ہے کہ جہاں بھی زمین کے علاوہ کوئی زہین مخلوق ہو، اس سے رابطہ ہوسکے۔ اسکے لیے انسان نے اب تک اپنی تمام جدید کمیونیکیشن کے زرائع اپلائی کیے کہ یہ ربطہ ہوسکے، لیکن تاحال کوئی ایسا رابطہ نہ ہوسکا۔ جتنی بھی ٹیلی اسکوپ ہیں جیسے ہبل، جیمز اسکوپ وغیرہ، وہ ہمیں صرف کسی دور دراز ستارے/سیارے کی تصویر ہی دکھاسکتی ہیں۔ اگر اس سیارے پر کوئی زہین مخلوق ہوئی، تو ہمیں اس سے رابطہ اور دو طرفہ گفتگو کرنے کے لیے ریڈیو ویو کمیونیکشن کی ضرورت ہوگی۔
پر وہ صرف ہمیں کبھی رابطہ کرنے میں ہی مشکلات اتنی ہیں کہ اس واقعی قریبا صفر سمجھا جا سکتا ہے، لیکن ہم انسان جو ہیں جو ہار نہیں مانتے ۔ ہم پھر بھی ماورائے زمین کے پیغامات سننے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
ہماری کائنات کتنی وسیع ہے، اور کس حساب سے پھیلتی جارہی ہے، اسکا اندازہ آپ کو صرف ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے میں چیزوں کے پیمانے کا اندازہ دینے کے لیے نیچے ایک تصویر دکھائی ہے، جس سے اپکو ہماری کائنات کی وسعت کا کچھ اندازہ ہوگا ۔یہ تصویر ہماری کہکشاں کی ایک خیالی تصویر ہے۔ اس تصویر میں جو سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹی سی مزید تصویر ہے، اس میں مربع کے بیچ میں اس چھوٹے سے نیلے نقطے کو دیکھیں۔
یہ نیلا نقطہ دراصل وہ حد ہے جہاں تک 20 ویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے کے بعد سے انسانی ریڈیو کی نشریات پہنچ چکی ہیں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ پس منظر کے شور سے الگ نہ ہونے کے لیے اتنے کمزور نہیں ہوں گے، اور اپنی خالص حالت میں وہاں تک پہنچ چکے ہونگے۔ اور یہ نشریات تقریباً 300,000 کلومیٹر یا 186,000 میل ہر سیکنڈ میں سفر کر رہی ہیں۔ نشریات کا یہ سفر ہماری کائانت کی وسعتوں کی ان چیزوں کو اسطرح تناظر میں رکھتا ہے۔
بات سمجھنے کے لیے مزید سادہ کردوں۔ مواصلاتی ٹیکنالوجیز میں بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں بہت سی چیزیں موجود ہیں، آپٹیکل ٹیلی گرافی سسٹم کے آغاز سے لے کر موجودہ فائبر نیٹ ورکس تک، ہر قسم کے سسٹمز اور آلات سے ہر اس چیز کا مشاہدہ کرنا ممکن ہوا ہے جو بعض مواقع پر ہوا ہے۔ مکمل طور پر ہر گھر میں اور لوگوں کی روزمرہ کی سرگرمیوں کے ساتھ مربوط ہمارے بہت سے آلات ان ریڈیو ٹرانسمیشن پر انحصار کرتے ہیں، جو ہمارے مختلف آلات پیدا کرتے ہیں اور موصول کرتے ہیں۔
برقی مقناطیسی لہروں کے پھیلاؤ کے نظریاتی ڈھانچے کو ابتدائی طور پر ایک شخص نے بیان کیا تھا۔ جیمز کلارک میکسویل نے سب سے پہلے ایک متن رائل سوسائٹی سال 1873 میں ایک پیپر پبلش کیا ، جس کا عنوان تھا “برقی مقناطیسی میدان کا ایک متحرک نظریہ”، جو 1861 اور 1865 کے درمیان کیے گئے ان کے ہر کام کو بیان کرنے کے لیے آیا تھا۔ پھر اسکے بعد ہنریک روڈولف ہرٹز نے 1888 میں متن میں موجود اس نظریے کو ثابت کرنے والا پہلا انسان بن گیا اور برقی مقناطیسی شعاعوں کو کامیابی سے مختلف طریقوں سے پیدا کیا اور بھیجا۔ 1895 کو ایک اطالوی موجد ، گوگیالمو مارکونی نے برقی مقناطیسی شعاعوں کے پرنسپل پر ریڈیو نامی ایجاد کی اور دنیا مٰیں پہلی دفعہ بغیر تاروں کے زریعے صرف انکے زریعے 1899 میں برطانیہ میں انگلش چینل کے پار اپنے پیغامات بھیجے۔ 1902 میں مارکونی نے ہی باقاعدہ انسانی سمجھ میں آجانے والے پہلا سگنل بھیجا اور اسی وقت سے ریڈیو کا باقاعدہ اغاز ہوا۔ خلاء میں ریڈیو ٹرانسمیشن پہلی دفعہ اسی وقت پھیلیں۔
اس کے بعد ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک تجرباتی اسٹیشن 1906میں ایچ اے ایورسنڈن نے بنایا۔ 2نومبر 1920کو مسٹر ڈیوس نے پہلا کمر شل ریڈ یو اسٹیشن متعارف کرایاجس نے صدارتی الیکشن پر پروگرام چلائیں‘اس طرح 1922میں ریڈ یو نے تیزی سے تر قی کرکے 576ریڈ یو اسٹیشن قائم ہوئے۔ بی بی سی نامی عالمی شہرت یافتہ ریڈیو ٹرانسمیشن ادارے نے بھی اسی سال اپنی نشریات پورے گلوب کے لیے شروع کیے۔ ریڈیو ٹرانسمیشن کی اتنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس نئی ٹیکنالوجی کو ان دوربینوں میں استعمال شروع کرنے کا اغاز ہوا جو مختلف رصد گاہوں پر نصب تھیں۔ اس سلسلے کا آغاز 1932 میں بیل لیباریٹریز امریکہ کے انجینیرز نے دور بینوں کو ریڈیو ٹرانمیشن سے لیس کیا اور اس وقت سے سگنل خلاء کی طرف یہ دوربینیں بھیج رہی ہیں۔ جہاں سے انکو مختلف ڈیٹا حاصل ہوتا ہے۔ ریڈیو کی اس مختصر سی تاریخ دیکھتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب صرف 90 سال کے عرصے میں ہی ہم نے ریڈیو سنگلنز کے زریعے کائنات کے ٹٹولنے کا آغاز کیا ہے، اور ہمارے سنگلنز ابھی صرف ہماری ہی کہکشاں کے تقریبا وسط سے پہنچے ہیں۔ ابھی ایک لمبا فاصلہ انکو طے کرنا ہے ، تاکہ وہ اگلی کسی کہکشاں میں پہنچیں۔
اس چیز کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ ایک لمبا ہمیں انتظار کرنا پڑے گا کہ کب جاکے ہمارے ریڈیو سگنلز کسی انجان کہکشاں کے اجنبی سیارے پر پہنچیں اور وہاں کی ہماری ہی طرح کی زہین مخلوق ان سگنلز کو سمجھ کر واپس ہمیں سینڈ بیک کرے۔ لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور ہوسکتا ہے کہ شائد جمیز ویب ہی کوئی نیا معجزہ دکھانے کے قابل بن جائے، ہماری آنکھیں بھی اس راز سے پردہ اٹھنے کو دیکھ سکیں کہ ہم اس کائنات میں تنہا نہیں ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...