::: ردتشکیل کا نظریہ، ژاک دریدا اور ان کا اصل چہرہ " :::
ژاک دریدا/ Jacques Derrida { 15 جولائی 1930 – 9 اکتوبر 2004} نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں اپنے "رد تشّکیل" نظرئیے، فلسفے، ادبی اور لسانی انتقادات میں اپنے " فطین" اور شر انگیز افکار کو پیش کیا۔ جس میں کلیدی نکتہ مغربی ثقافت کی در تشّکیل " ہے۔جو یورپ کی قومی شناخت کا بحران بھی ہے ، ساتھ ہی انھوں نے عبرانی الہیات اور اسطوریہ کے میدان میں نیا خون بھرا اور اپنے نے خیالات اور تصورات کے دروازے کھولے۔ جس کے پس منظر میں امریکہ کی جامعات اور " تھینک ٹینک "میں سرگرم کٹر مسیحی اور یہودی زہن کام کررہا تھا۔ جس میں مڈریس {MIDRASH} تصورات کی رنگا رنگی تھی وہ دبے پاوں ادبی تنقید اور فکریات میں داخل کردی گئی۔ اور اسے سیکولر نظریات کا جھانسہ دے کر عبرانی فکریات اور مناجیات کو امریکی تعلیم اداروں کے نصابیات میں شامل کروادیا تھا۔ جس میں امریکی " اتقادی"{ پیورٹن} اور "واسپ" {WASP} فلسفہ کی روایت سے بیزاری اور نفرت چھپی ہوئی تھی۔ اسی سبب امریکہ میں سیکولر اور روشن خیال اور کچھ مسیحی دانشوروں نے ژاک دریدا کی یہودیت میں لتھٹری ہوئی ردتشّکیل پر برہمی کا اظہار کیا اور اسے مسترد کردیا ۔ جبکہ الجزائر میں پیدا ہونے والی ایک یہودی فلسفی خاتون ہیلن سیکسن نے ژاک دریداکے فلسفیانہ نظام کا دفاع کرتے ہوئے ایک کتاب " پوٹریٹ آف ژاک دریدا : بحیثت ایک ولی" لکھی ۔ اس کے علاوہ ویوسکوگرا، ایلیٹ ولسن اور ڈینیل بوئرین نے یہودی متن میں یہودی الہیات اور ثقافت کے نئے مسائل پر متنازعہ مباحث شروع کی اور ردتشّکیل کے نظرئیے میں الجھاو بھی پیدا کئے اور اس کے ساتھ ہی دریدا کمال ہوشیاری سے کچھ سنجیدہ سوالات ہی نہیں اٹھائے بلکہ تاریخ کے حوالے سے نظریات میں اپنے زہنی اور فکری تناظر میں مزید پیچیدگیان کھڑی کردی۔ ار اپنے نظریات کو مشکوک بھی بنا دیا۔ "ردتشّکیل" کے پس منظر اور اس کی اندر کی سازشی حرکیات جو امریکی اسٹبلشمنٹ کے سازشی رویوّں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ فضیل جعفری نے اپنے ایک مضمون "امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت" میں اس کا کٹھا چھٹا بیاں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں" اس کی { ردتشکیّل کی} پیدائش کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی؟ اس سلسلے میں عرض خدمت یہ ہے کہ تھیوری کا جنم ۱۹۶۶ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ہوا۔ یوں تو اس کے بیج دریدا، بارتھ اور لاکاں جیسے دائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی دانشوروں نے ڈالے، دایہ گیری کے فرائض جے۔ہلس ملر ، پال دی مان اور کلر نے انجام دیے لیکن اس کے اصلی پدربزرگوار ہیں، امریکہ کے نامی گرامی سرمایہ دار اور صنعت کار ہنری فورڈ دوئم۔آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ۱۹۵۴ میں شروع ہونے والی ویت نام جنگ ۶۵۔۱۹۶۴ تک ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ امریکی پروفیسر اور طلبہ یونیورسٹیوں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے تھے۔ حکومت کے انسان کش رویے کے خلاف دھواں دھار تقریریں کی جارہی تھیں اور نعرے لگائے جار ہے تھے۔ چونکہ امریکہ میں سو فی صد خواندگی کے علاوہ عوامی ترسیل و ابلاغ کے ذرائع بھی بہت عام ہیں ، اس لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگی تھی۔ان حالات میں امریکی حکومت کا فکر و تشویش میں مبتلا ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ اسی نازک موڑ پر انتظامیہ نے ہنری فورڈ دوئم سے مدد طلب کی۔ فلنڈرس یونیورسٹی (آسٹریلیا) کے پروفیسر جان ہارورڈ (John Harwood) نے اپنی کتاب Eliot to Derrida: The poverty of Interpretation (1989) میں تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کی ایما پر ہنری فورڈ دوئم نے ۱۹۶۵ کے آخر میں اپنے سازشی رفقا ئے کار (Co-conspirators) کی ایک میٹنگ طلب کی۔ واضح رہے کہ اس وقت تک رولاں بارتھ اور ژاک دریدا وغیرہ کی سارتر دشمنی اور سارتر کے حوالے سے کمیونسٹ دشمنی کے چرچے عام ہوچلے تھے۔ دریدا، سارتر کے بارے میں اپنا یہ مشہور جملہ لکھ چکا تھا:میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے مسائل پر بالکل غلط رائے رکھنے کے باوجود سارتر کو اتنی شہرت کیسے مل گئی اور اسے اپنے عہد کا دانشورانہ ضمیر کیسے کہہ دیا گیا… (فلپ نورس کی کتاب: دریدا، ۱۹۸۷، ص۲۱)چنانچہ ۱۹۶۵ والی اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ فرانسیسی دانشوروں کے اس گروہ کو امریکہ مدعو کیا جائے تاکہ یہ لوگ ایسے مباحث اٹھائیں کہ ریڈیکل امریکی پروفیسر اور طلبہ ان میں الجھ کر رہ جائیں اور پھر دسیوں برس تک سڑکوں پر نہ آ سکیں۔ نتیجے کے طور پر جے۔ہلس ملر اور پال دی مان نے بحکم حاکم (فورڈ دوئم) اکتوبر ۱۹۶۶ میں The Language of Criticism and the Science of Man کے موضوع پر وہ سمینار منعقد کیا جس میں رولاں بارتھ اور لاکاں کے علاوہ ژاک دریدا بھی موجود تھا۔ اس سمینار کے سارے مصارف ہنری فورڈ دوئم نے ہی برداشت کیے اور یہیں سے امریکہ کے توسط سے دریدا کی عالمی شہرت کا آغاز ہوا۔ بقول پروفیسر سدرلینڈ، ردتشکیلی نقاد اور تھیوری کے علم بردار اسٹبلشمنٹ کے خلاف چیختے چنگھاڑتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی سرمایہ داری ہی ردتشکیل اور تھیوری کی ’’شوگر ڈیڈی‘‘ ہے۔ (شوگر ڈیڈی سے مراد وہ بوڑھا شخص ہے جو کسی نوجوان عورت پر بے دریغ دولت خرچ کرتا ہے تاکہ آگے چل کر اس کا جنسی اور جسمانی استحصال کرسکے " ۔ ژاک دریدا فرانس کے نوابادیاتی ملک الجزائر کے شہر البرار میں پیدا ہوئے۔ ان کو وچی {VICHY} حکومت سے اس لیے اسکول سے خارج کردیا تھا کیونکہ وہ یہودی تھے۔ 1949 میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پیرس منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے دوربرن ایکویس معاشرتی سائنس جیسے تعلیم ادروں میں تعلیم حاصل کی اور یہاں پڑھاتے بھی رہے۔۔ اور یہودی کمیونٹی اند باہر ایک مقتدر فلسفی کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور جدید یورپ کے یہودی تضادات، تناقض، میں لپٹی ہوئی زندگیوں کو کو ایک فکری نظام تشریح و تفھیم کی۔ اور یہ بتایا کی یہودی، یہودی کے لیے کیسے کام کرتا ہے ۔ ژاک دریدا اپنے عہد کے معروف فلسفی اور ادیب ہیں۔ وہ " انقلابی اخلاقیات" کے فلسفے کے وائل تھے۔ ژاک دریدا کی فکریات کو ناول نگار ایڈ منڈ جیک نے " مرگ ابنو" {HOLCAUST} پر لکھی ہوئی نوالوں کو " جعلی بغاوت" کہا ۔ژاک دریدا کے مطالعات پر ہمیشہ یہودی متن اور فکریات چھائی ہوئیہے۔ جس سے ان کی " ردتشکّیل " کی تھیوری برآمد ہوتی ہے۔ دریدرا کی فکریات پرافلاطوں، روسو، ہیگل، ہیڈیگر، ہسرل، ڈیکارٹ، بوڑی لا، جیک اپ، کرکے گارڈ، بیکٹ، آسٹن، فوکو اور لیوی اسٹروس، پر گہرے اثرات ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔