سال کا آخری دِن بڑا خوشگوار تھا۔ پورا دن سورج کی گرمی اور دسمبر کی سردی میں مقابلہ جاری رہا یہ مقابلہ سردیوں کے تمام موسم میں جاری رہتا ہے لیکن 15دسمبر سے 31جنوری تک سردیوں کی برفانی ٹھنڈک عظیم آفتاب کو مات دیے رکھتی ہے۔ سورج کی ہلکی ہلکی تمازت کے باوجود ہوا کا کوئی آوارہ جھونکا گرم چادروں، جرسیوں اور کھدر کے موٹے کپڑوں کے باوجود جسموں کو سردی کا احساس دلاجاتا۔ شام کو اس سردی نے مزید بڑھ جانا تھا لیکن ہواؤں کی شدت اور بادلوں کی آمد نے شام سے پہلے ہی لوگوں کو گھروں کی راہ دکھا دی۔ سر شام ہی قصبے کا چھوٹا سا بازار ویران ہو گیا۔ اکا دکا دوکانیں کھلی تھیں لیکن خریدار نام کو نہ تھا۔
آج میں کئی سالوں کے بعد اپنے گاؤں جا رہا تھا۔قصبے سے گاؤں کا فاصلہ پانچ کوس سے زائد تھا۔ میں نے بس سے اُتر کر ایک چھپر ہوٹل میں قدم رکھا ہی تھا کہ برفانی ہواؤں نے موسم کی نزاکت کا احساس دلادیا۔ مجھے گاؤں تک کا فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔قصبے سے گاؤں تک چلنے والے دو تین تانگے کب کے گھر جا چکے تھے۔ میں نے مٹی کی دیواروں اور گھاس پھوس کے چھت والے اس ہوٹل میں تھوڑی دیر آرام کیا۔ چائے کا ایک کپ پی کر باہر نکلا تو بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے کھجور والی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ مسجد میں بھی گنتی کے نمازی تھے۔ جنہوں نے کہیں کہیں سے پھٹے ہوے موٹے موٹے کھیسں اوڑھ رکھے تھے۔ باہر بارش تیز ہو گئی تھی۔ کچے صحن میں کھجور کا درخت طوفانی ہوا میں سائیں سائیں کر رہا تھا۔ لیکن مسجد کی اندرونی فضا مرطوب تھی۔ ٹوٹے ہوئے کواڑوں سے اند ر آنے والی ہوا جسموں پر ٹھنڈی چھریاں چلا رہی تھی۔ نمازیوں کے گھر چونکہ قریب تھے اسلئے وہ ایک ایک کرکے بارش کے باوجود اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔ آخری نمازی چالیس پچاس کا ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کا گھرشاید مسجد سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہ بھی بارش رکنے یا آہستہ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے استفسار پر میں نے اُس کو بتایا کہ یہاں سے 5کوس دور گاؤں اُتراء میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جانا ہے اور یہ فاصلہ مجبوراً پیدل ہی طے کرنا ہے۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ رات اِس مسجد میں یا میرے گھر بسر کرلو اور صبح تانگے کے ذریعے گاؤں چلے جانا۔ اب رات کے وقت گاؤں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ خطرے کی وجوہات اُس نے آوارہ کتے، سانپ اور بھیڑئے بتائے لیکن سب سے زیادہ خطرناک صدیوں پرانے رچھیاں کے قبرستان کو قرار دیا جو نیم پختہ سڑک کے دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اور بعض روایات کے مطابق اندھیری راتوں میں خوفناک قسم کی چیخیں سناتی دیتیں۔ میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا جدت پسند نوجوان خیالکرتا ہوں۔اس شخص کی باتیں مجھے توہم پرستی اور قدامت کی مثالیں معلوم ہوئیں۔میں سفر دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن بارش۔۔۔ موسلا دھار بارش اور شدید سردی میری راہ میں حائل تھیں۔ کوئی اڑھائی گھنٹے بعد بارش کا زور ٹوٹا۔ میں مسجد سے نکل پڑا اور گاؤں جانے والی سڑک پر ہو لیا۔ بارش مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ ہلکی ہلکی پھوار تیز ہوا میں اپنی قوت بڑھا رہی تھی۔ میں قصبے سے باہر نکلا تو ہر طرف کی پراسرار خاموشی، اندھیرے اور ویرانی نے ماحول کو دہشت زدہ بنا رکھا تھا۔ لیکن میں حیران کن طور پر پر سکون تھا اور آہستہ آہستہ قبر ستان کے قریبپہنچ رہا تھا۔
گاؤں جانے کا اصل راستہ پکی سڑک کا ہے لیکن وہ عموما دن کے وقت تانگے، سائیکلوں اور اکا دکا موٹر گاڑیوں کے زیر استعمال ہوتا ہے۔ یہ فاصلہ قبر ستان والے شارٹ کٹ سے دوگنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی گاؤں جاتا عموما اسی معروف رستے سے ہی جاتا اور ہر دفعہ دن کا وقت ہی ہوتا۔ اس راستے پر میں 15برس بعد سفر کر رہا تھا اور وہ بھی مجبوری کی حالت میں آخری مرتبہ غالباًرچھیاں کے قبر ستان میں داد ا اور چھوٹے بھائی وسیم کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا تھا۔ دنیا کے جھمیلوں نے مجھے اُن ہستیوں کو بھلانے پر مجبور کر دیا اور 15برس کی طویل مسافت نے مجھے اپنے خون کی خوشبو سے دُور کیئے رکھا۔ داد اجیسی بزرگ ہستی تو میری پیدائش سے پہلے ہی رخصت ہو گئی لیکن ننھا وسیم جس کی مختصر زندگی میری بانہوں میں گزری۔ جس کی آنکھوں میں مجھے سمندروں کی گہرائیاں نظر آئیں۔ جس کے جسم سے مالٹوں کے اس باغ کی خوشبو آتی جس کا بورخزاں کی طویل بارشوں میں بھی اپناوجود برقرار رکھتا ہے۔ وہ بچہ جس کے انگ انگ سے پاکیزگی اور محبت کے شرارے پھوٹ رہے تھے اُسے میں منوں مٹی تلے دبا کر بھول گیا تھا۔ "زندگی فانی ہے"کے قول نے 15برس میرے جذبات کو سلائے رکھا۔ لیکن اس رات جب میں اکیلا تھا بارش کے چھینٹے اور ہواؤں کے تھپیڑے مُجھے کمزوربشر ہونے کے ثبوت فراہم کر رہے تھے مجھے اپنے جسم میں عجیب تبدیلی محسوس ہوئی۔ میرے بازوؤں نے بوجھ محسوس کیا، اچانک سمندر کی گہرائیاں میرے سامنے آ گئیں اور مجھے مالٹوں کے اس باغ کی خوشبو محسوس ہونے لگی جو خزاؤں کی تیز بارش میں نہا رہا تھا۔ بارش میرے گناہوں اور کثافتوں کودھو رہی تھی۔ ہوائیں مجھے پاکیزگی اور لطافت عطا کر رہی تھیں۔ میری بانہوں میں ایک ننھا سا بچہ ہمک رہا تھا۔ وہ مسلسل مجھے تکے جا رہا تھا بڑی محبت کے ساتھ، چاہت کے ساتھ۔ ہوا کی سیٹیاں آہستہ ہوئیں تو اس نے توتلی زبان میں مجھے مخاطب کیا "بھائی تم کہا ں چلے گئے تھے مجھے اس جنگل بیابان میں اکیلا چھوڑ کر؟ کیا تمہارا خون اتنا سفید ہو گیا کہ سال میں ایک چکر بھی یہاں نہیں لگا سکتے؟ شروع شروع میں مجھے بہت ڈر لگتا تھا جنوں، بھوتوں سے نہیں خاموشی سے، ویرانی سے۔ شروع شروع میں مجھے تم پر اور تمام گھر والوں پر غصہ بھی آیا تھا لیکن اب۔۔۔۔۔۔ اب میں اس ماحول اور تمہارے خلوص کے معانی جان گیا ہوں۔ یہ قبریں، یہ کتبے،یہ شیشم، یہ کیکر، ہوائیں، بادل، بارش، گرمی، سورج تمام میرے ساتھی ہیں لیکن تم میرے لئے اجنبی ہو، بالکل اجنبی آج بھی مجبوری تمہیں یہاں لے آئی ہے ورنہ شاید تم اسی دن ہی یہاں آتے جس دن تمہاری طبعی ساخت روحانیت کا دامن چھوڑ چکی ہوتی۔ پھر تم اور میں برابر ہووجود برقرار رکھتا ہے۔ وہ بچہ جس کے انگ انگ سے پاکیزگی اور محبت کے شرارے پھوٹ رہے تھے اُسے میں منوں مٹی تلے دبا کر بھول گیا تھا۔ "زندگی فانی ہے"کے قول نے 15برس میرے جذبات کو سلائے رکھا۔ لیکن اس رات جب میں اکیلا تھا بارش کے چھینٹے اور ہواؤں کے تھپیڑے مُجھے کمزوربشر ہونے کے ثبوت فراہم کر رہے تھے مجھے اپنے جسم میں عجیب تبدیلی محسوس ہوئی۔ میرے بازوؤں نے بوجھ محسوس کیا، اچانک سمندر کی گہرائیاں میرے سامنے آ گئیں اور مجھے مالٹوں کے اس باغ کی خوشبو محسوس ہونے لگی جو خزاؤں کی تیز بارش میں نہا رہا تھا۔ بارش میرے گناہوں اور کثافتوں کودھو رہی تھی۔ ہوائیں مجھے پاکیزگی اور ساخت روحانیت کا دامن چھوڑ چکی ہوتی۔ پھر تم اور میں برابر ہوجاتے۔ پھر سے دوست بن جاتے۔ پھر سے بھائی بن جاتے۔
وسیم بولتا رہا، بولتا رہا۔ میں بھی سنتا رہا، یوں بولتے سنتے زمانے بیت گئے۔ صدیاں گزر گئیں، کئی نسلیں جوان اور کئی بوڑھی ہو گئیں۔ لیکن اُس رات، اس خوفناک رات کو وقت تھم گیا، گھڑی کی سوئیوں نے حرکت بند کر دی۔ اس رات متحرک چیزیں مجسم تھیں اور مجسم حرکت میں،مردے بو ل رہے تھے اور جیتے جاگتے لوگ خاموش۔
مجھے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہوا اتنا ہلکا کہ گیس کا غبارہ بھی مجھے اڑا کرلے جا سکتا تھا۔ لیکن قدرت کو میری اڑان ابھی منظور نہ تھی۔ شاید میرے کچھ امتحان ابھی باقی تھے۔ اسی طرح کے امتحان، شور کے امتحان، ویرانوں اور خاموشیوں کے امتحان۔
مطلع بالکل صاف ہو چکا تھا۔ بارش کب کی رُک گئی تھی۔ہوا بھی ساکن تھی۔ دُور شاہ والا اور شمار کی آبادیوں کی بتیاں چھوٹی چھوٹی کہکشائیں بنا رہی تھی۔ ننھا جسم میری جھولی سے غائب تھا۔میں اپنی سوچوں کو قابو کرنے میں مصروف تھا کہ گاؤں اتراء کی مسجد سے اذان فجر بلند ہوئی۔ سحر ٹوٹ چکا تھا لیکن اس کا اثر ابھی قائم تھا۔ 20فٹ لمبی اور صدیوں پرانی بابا موسیٰ کی قبر کا مجاور اگر "حق ہو"کا نعرہ بلند نہ کرتا تو نہ جانے میں کتنی دیر وہیں پڑا رہتا۔ قبرستان کی ریتلی زمین میں ٹھنڈک واپس آرہی تھی۔ اس زمین میں میرے رویے اور گز جانے والے کے جسم کی ٹھنڈک بھی شامل تھی۔
میں اپنے گاؤں۔۔۔۔ اپنی جنم بھومی کی طرف رواں دواں تھا۔